قرآن کریم کا سائنسی اعجاز غورو فکر کے چند پہلو

قرآن کریم کا سائنسی اعجاز غورو فکر کے چند پہلو

ڈاکٹر محمد عبدالتواب حامد
ترجمہ و تلخیص: محمد رضی الاسلام ندوی
سائنسی اعجازِ قرآن اور سائنسی تفسیر میں فرق

    قرآن کے سائنسی اعجاز پر بحث سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی اعجاز اور سائنسی تفسیر میں فرق بیان کردیا جائے، اس لیے کہ اس موضوع پر لکھنے والے بہت سے لوگ دونوں میں خلط ملط کردیتے ہیں۔

    سائنسی تفسیر کی تعریف ڈاکٹر حسین ذہبی نے یہ کی ہے:

’’اس سے مراد وہ طریقۂ تفسیر ہے جس میں قرآن کی عبارت میں سائنسی اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے مختلف علوم اور فلسفیانہ آراء مستنبط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘‘۔ ۱؎

    یہ تعریف اصلاً استاذ امین الخولی کی ہے ۔ اسے انھوں نے اپنی کتاب: " التفسیر معالم حیاتہ ومنہجہ الیوم"  میں بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر فہد الرومی نے لکھا ہے:

’’اس سے مراد قرآن کریم کی آیاتِ کائنات اور تجرباتی علوم کی ایجادات کے درمیان ربط ظاہر کرنے کے لیے مفسّر کی ایسی کوشش ہے جس سے قرآن کا اعجاز نمایاں ہوجائے اور یہ واضح ہوجائے کہ وہ انسانی کاوش نہیں ہے، بلکہ اسے نازل کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور یہ کہ وہ ہر زمان و مکان کا ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘۔ ۲؎

    شیخ اہدل اس کی یہ تعریف کرتے ہیں:

’’سائنسی تفسیر سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی آیاتِ کائنات کی تفسیر سائنسی معلومات کی روشنی میں کی جائے، خواہ وہ صحیح ہو یا غلط۔ اس طرح اس تعریف میں صحیح اور غلط دونوں تفسیریں آجاتی ہیں‘‘۔ ۳؎

    مذکورہ بالا تعریفات میں شیخ اہدل کی تعریف زیادہ درست اور جامع معلوم ہوتی ہے۔

    رہا سائنسی اعجازِ قرآن تو شیخ زندانی نے اس کی تین تعریفیں ذکر کی ہیں:

۱- ’’اس سے مراد قرآن کا کسی ایسی حقیقت کی خبر دینا ہے جس کا اثبات تجرباتی علم (سائنس) سے ہوا ہو اور جس کا ادراک عہدِ رسالت یا زمانۂ نزولِ وحی میں انسانی علمی وسائل کے ذریعے ممکن نہ رہا ہو‘‘۔

۲- ’’اس سے مراد جدید ثابت شدہ اور مستقل سائنسی اکتشافات کے ذریعے قرآن کریم میں وارد حقائق کا اثبات کرنا ہے، ایسے دلائل کے ذریعے جو قطعی اور یقینی ہوں اور جن پر ماہرین کا اتفاق ہو‘‘۔

۳- ’’اس سے مراد وحی کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہونے والے علم الٰہی کی سچائی کا اظہار ہے، جس سے اس کا امر واقعہ ہونا ثابت ہوجائے اور کوئی شخص اس کی نسبت حضرت محمد ﷺ یا آپ کے زمانے کے کسی انسان کی طرف نہ کرسکے‘‘۔

    یہ تینوں تعریفیں صحیح اور قابلِ قبول ہیں، لیکن ان میں صحیح ترین اور دقیق ترین اول الذکر تعریف معلوم ہوتی ہے۔

قرآن کا سائنسی اعجاز – چند حقائق


    بعض قرآنی آیات کو علمی (سائنسی) قرار دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دیگر آیات، جن کا ان علوم سے تعلق نہیں ہے، ان کے علمی ہونے کی نفی کی جارہی ہے۔ بلکہ اس سے مراد تجرباتی علم ہے، تاکہ اس سے فلسفیانہ ، معاشرتی اور اخلاقی علوم خارج ہوجائیں، اس لیے کہ قرآن ان علوم کی مبادیات پر مشتمل ہے اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، کسی انسان کا گھڑا ہوا نہیں ہے۔ 

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کریم میں سائنسی اعجاز کا مسئلہ دو بنیادی حقیقتوں پر قائم ہے:

  • اول یہ کہ سائنسی اعجاز بذاتِ خود مقصود نہیں ہے۔
  • دوم یہ کہ قرآن کریم کتابِ ہدایت ہے اور اس ہدایت کے ذرائع میں سے وہ اہم علمی و سائنسی دلائل بھی ہیں جو کتابِ عزیز کی آیات میں پائے جاتے ہیں۔

    اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم اس حیثیت سے بھی معجزہ ہے کہ وہ ایسے علمی حقائق پر مشتمل ہے جن کا انکشاف عہدِ نزول قرآن کے بعد کے زمانوں میں ہوا ہے۔ اس سے قطعی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ ان حقائق کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ علماء کا یہ اتفاق اجمالی طور پر ہے۔ رہی تفصیل تو اس میں ان کے درمیان کسی قدر اختلاف ہے، اس کا سبب علوم و معارف، سائنسی ایجادات اور حقائقِ علوم سے واقفیت میں ان کا تفاوت ہے۔

    قرآن کریم کا مطالعہ کرنے اور اس کی آیات کا تتبّع کرنے والا بہت سی ایسی آیات پاتا ہے (بعض محققین نے ان کی تعداد نوسو (۹۰۰) سے زائد بتائی ہے) جن میں اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی سنتوں اور نظام اور اپنی مخلوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عنایات کا بیان ہے، اس لیے قرآنی مطالعات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس اہم پہلو کی جانب اپنی توجہ مبذول کریں اور قرآن کریم کے ان عظیم او ردقیق حقائق کو واشگاف کریں جو ایک ایسے امّی شخص کی زبان سے ظاہر ہوئے ہیں جسے ان علوم کی ادنیٰ واقفیت بھی نہیں تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے ان علوم کو اس ذاتِ گرامی سے حاصل کیا ہے جو آسمان اور زمین کے تمام اسرار سے واقف ہے۔ ارشادِ باری ہے:

        
        قُلْ أَنزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ إِنَّہُ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْماً۔ (الفرقان:۶)

ان سے کہو کہ اسے نازل کیا ہے اس نے جو زمین اور آسمان کا بھید جانتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔
شیخ مصطفی صادق الرافعیؒ فرماتے ہیں:
’’قرآن میں کائناتی اور سائنسی آیات کی موجودگی اس کے ایک دوسرے اعجاز کی دلیل ہے۔ اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ زمانہ بحث و دلیل پر قائم علمی رخ پر رواں دواں ہے اور انسانیت اپنے عہدِ عروج میں اسی راہ پر گام زن ہے اور مذہب بہت جلد عقلی بنیادوں پر استوار ہوگا۔ قرآن میں اس پہلو کی رعایت زمانہ میں اس کے وجود میں آنے سے چودہ صدیوں پہلے ، غیب سے ظاہر ہونے والی کھلی شہادت ہے، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ پھر اگر صبح روشن ہوگئی ہو ، لیکن بعض لوگ سورہے ہوں، انھیں صبح کا پتا نہ چلا ہو تو یہ ان کی نیند کا قصور ہے، بعض دوسرے لوگ ہیں جو اندھے پن میں مبتلا ہیں، جس کی بنا پر وہ صبح کو دیکھنے پر قادر نہیں، لیکن بہ ہر حال یہ حقیقت ہے کہ صبح نمودار ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

         فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِہِ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْْہَا۔ (الانعام: ۱۰۴) ۵؎

اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اٹھائے گا۔
موجودہ صورت حال
    اس زمانے میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی اور نئی ایجادات اور سائنسی اکتشافات کی کثرت کے سبب بہت سی ایسی تالیفات منظر عام پر آئی ہیں، جن میں قرآن کی سائنسی تفسیر بیان کی گئی ہے اور بہت سے شائقینِ علم ان تالیفات کی جانب مائل ہوئے ہیں۔

    اسی طرح مسلمانوں کو اس اندازِ تفسیر یا اس وجہِ اعجاز میں ایک مناسب میدان ہاتھ لگا ہے، جس کے ذریعے وہ مؤثر انداز میں اسلام کی دعوت پیش کریں اوراس بات پر دلیل قائم کریں کہ قرآن انسانی کلام نہیں، بلکہ وحیِ الٰہی ہے اور وہ ایک حکیم و حمید ذات کی جانب سے نازل ہوا ہے، اس زمانے میں جب عربوں کی زبان دانی کم زور پڑگئی ہے اور وہ قرآن کریم کے اعجازِ بیان کو محسوس کرنے پر قادر نہیں رہ گئے ہیں، دوسری طرف یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ جدید (سائنسی) اعجاز عرب اور غیر عرب دونوں کو مخاطب کرسکتا ہے۔

    یہ اہلِ قلم اور مفکّرین آیاتِ قرآنی کی اپنی سائنسی تفسیروں کو ’قرآن کے سائنسی اعجاز‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں، جسے وہ اس زمانے میں قرآن کے وجوہِ اعجاز میں سب سے مشہور وجہ سمجھتے ہیں۔ چند سال پہلے سعودی عرب میں ایک بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جس کا نام ہیئۃ الاعجاز العلمی فی القرآن والسنۃ ہے۔ اس بورڈ کی جانب سے قرآن و سنت میں اعجاز کے موضوع پر بہت سی کتابیں شائع ہوئی ہیں اور بہت سی کانفرنسیں منعقد کی گئی ہیں، اسی طرح اس نے مشرق و مغرب کے، مختلف علوم و فنون کے مشہور ماہرین، محققین اور سائنس دانوں سے، قرآن کا سائنسی اعجاز نمایاں کرنے میں مدد لی ہے، البتہ بعض علماء اس قسم کے اعجاز کے سلسلے میں تحفّظ رکھتے ہیں، اس لیے کہ اس موضوع پر لکھنے والے بعض لوگوں کی کتابوں میں ایسی بے بنیاد اور غیر معتدل باتیں آگئی ہیں جو قرآن کی عظمت سے میل نہیں کھاتی ہیں۔

    اس موضوع پر لکھنے والے جن غلطیوں کا شکار ہوئے ہیں ان میں سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے آیات قرآنی کی تفسیر میں بہت سے ان سائنسی نظریات پر بھروسہ کرلیا ہے جو ابھی قطعی طور پر ثابت شدہ نہیں ہیں اور دوسری جانب انھوں نے صحیح احادیث و روایات کو قبول کرنے سے اعراض کیا ہے، الفاظِ قرآنی کے مدلول سے بھی وہ واقف نہیں ہیں اور قطعی دلائل سے ثابت شدہ عقائد کی وہ کوئی پروا نہیں کرتے۔ مزید خرابی اس سے پیدا ہوئی کہ اس قسم کے موضوعات پر بہت سے ایسے لکھنے والے میدان میں آگئے جنھیں نہ اسلامی علمی ورثہ سے کوئی خاص واقفیت تھی اور نہ وہ سائنسی علوم میں مہارت رکھتے تھے، اس بنا پر مارکیٹ میں ایسی کتابیں اور تحقیقات آگئیں جن میں سے بہت سوں پر نظر ثانی اور اصلاح کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ درازؒ لکھتے ہیں:

’’جوش میں آکر بعض نئے مفسرین نے اس طریقہ کو استعمال کرنے میں اس حد تک مبالغہ سے کام لیا کہ خود ایمان خطرہ میں پڑگیا، اس لیے کہ اس سے یا تو نص کے مفہوم پر اعتماد میں کمی آتی ہے، کہ اس سے ایسی باتیں مستنبط کی جاتی ہیں جن کے، قرآنی الفاظ اور جملے متحمل نہیں ہوتے، یا سائنس دانوں کی آرائ، یہاں تک کہ ان کے باہم متضاد مفروضات یا وہ نظریات جن کی صحت کو ثابت کرنا دشوار ہوتا ہے، ان پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرلیا جاتاہے‘‘۔ ۶؎

    سید قطب شہیدؒ فرماتے ہیں:
’’قرآنی اشارات کو سائنس کے جدید اور ہمہ آں متغیر نظریات پر محمول کرنے کی کوشش منہجی اعتبار سے بنیادی غلطی ہے۔ ساتھ ہی اس میں تین باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جو قرآن کی عظمت و جلال کے شایانِ شان نہیں ہیں:
اول: اندرونی احساسِ شکست، جس کی بنا پر بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ سائنس کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ قرآنی بیانات کو سائنس کے ذریعے ثابت کرنے یا ان پر سائنس سے استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ قرآن اپنے موضوع پر کامل اور اپنے بیان کردہ حقائق کے سلسلے میں فائنل کتاب ہے اور سائنس کا حال یہ ہے کہ اس میں کل تک جو چیز ثابت تھی آج اس کی تردید ہوجاتی ہے۔
دوم:  قرآن کے مزاج اور اس کے مقصدِ بعثت کے بارے میں غلط فہمی، جب کہ قرآن علی الاطلاق ایسی آخری حقیقت ہے جو انسانی وجود کی ایسی تشکیل کرتی ہے جو اس کائنات کے مزاج اور اس کے الٰہی ناموس سے ہم آہنگ ہو ، تاکہ انسان اور کائنات میں کوئی ٹکراؤ نہ ہو، بلکہ انسان کا کائنات سے قریبی تعلق استوار ہوجائے، وہ اس کے بعض اسرار جان لے اور اس کے بعض مظاہر کو اپنے کارِ خلافت میں استعمال کرسکے۔
سوم:  نصوصِ قرآن کی بہ تکلّف اور دور از کار تاویل، کہ قرآنی آیات کو من چاہے معانی کا جامہ پہنایا جائے اور ان کے ساتھ ایسے سائنسی مفروضات اور نظریات کے پیچھے دوڑا جائے جو ثابت شدہ اور دائمی نہیں ہیں، بلکہ ہر دن ان میں نئی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہے۔۷؎
    لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سائنس کے ذریعے کائنات، زندگی اور انسان کے بارے میں جن حقائق کا انکشاف ہوا ہے ان سے آیاتِ قرآنی کے فہم میں فائدہ نہ اٹھایا جائے، بلکہ ضروری ہے کہ آفاق و انفس میں سائنس کے ذریعے اللہ کی جن نشانیوں کا انکشاف ہورہا ہے ان پر ہم غور کریں۔ اس سے اس حکم الٰہی کی بھی تعمیل ہوگی جو اس نے اپنی آیات میں تدبر کرنے اور کائنات میں غورو فکر کرنے کے سلسلے میں دیا ہے۔

سائنسی تفسیر کے مخالفین

    امام ابو اسحاق شاطبیؒ ان لوگوں میں سر فہرست ہیں جنھوں نے اس پہلو پر اعتراض کیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ سلفِ صالح یعنی صحابہ و تابعین قرآن اور اس کے علوم و معارف سے سب سے زیادہ باخبر تھے اور ہمیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کسی نے اس موضوع پر کچھ بھی گفتگو کی ہو۔ ضروری ہے کہ فہم قرآن کے سلسلے میں مدد حاصل کرنے میں اس پر اکتفا کیا جائے جس کا علم خاص طور پر عربوں کی طرف منسوب ہو۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ فہمِ شریعت کے معاملے میں ’امیّیّن ‘ یعنی عرب، جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا ہے، ان کے درمیان معروف امور کی پیروی کی جائے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں اظہارِ خیال کرنے والے کے لیے درست نہیں ہے کہ ان میں بہ تکلّف ایسے معانی مستنبط کرے جن کی عربوں کی زبان میں گنجائش نہ نکلتی ہو، بلکہ اس سے شایانِ شان یہ ہے کہ وہ بھی اتنا ہی آگے جائے جتنا عرب گئے تھے اور وہیں پر رک جائے جہاں عرب رک گئے تھے‘‘ وہ مزید فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے لوگ قرآن میں اظہارِ خیال کرنے کے معاملے میں اس حد سے تجاوز کرگئے ہیں، چنانچہ انھوں نے اس میں متقدمین و متاخرین کے تمام قابل ذکر علوم، مثلاً طبیعیات ، تعلیمات اور منطق وغیرہ کو اس میں شامل کردیا ہے‘‘۔۸؎

ان مخالفین میں سے ابوحیان اندلسیؒ بھی ہیں، جنھوں نے اپنی تفسیر میں امام رازیؒ پر تنقید کی ہے کہ وہ اپنی تفسیر اور دیگر کتابوں میں مختلف علوم کو جمع کرتے ہیں اور کسی موضوع پر بحث کرتے ہوئے ایک علم سے دوسرے علم کے دائرہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے:

’’ان کا یہی معاملہ علوم کے سلسلے میں ہے۔ وہ مختلف علوم کو خلط ملط کردیتے ہیں۔ بحث کرتے کرتے ایک علم سے دوسرے علم میں جاپہنچتے ہیں۔ ہمارے استاذ علامہ ابوجعفر احمد بن ابراہیم بن الزبیر الثقفیؒ کہا کرتے تھے:  ’’جب تم دیکھو کہ کوئی شخص بحث و تحقیق یا تصنیف و تالیف میں ایک فن سے دوسرے فن میں پہنچ جاتا ہو تو جان لو کہ یا تو اس کا سبب اس فن میں اس کی کم علمی ہے یا اس کے ذہن میں مباحث پوری طرح واضح نہیں ہیں، اسے موضوع کا بہ خوبی ادراک نہیں ہے اور وہ گمان کرتا ہے کہ باہم مختلف چیزیں مماثل ہیں‘‘۔ ۹؎

موجودہ دور میں سائنسی تفسیر کے مخالفین میں امین الخولی، محمد عزہ دروزہ، عباس محمود العقاد، صبحی صالح، سید قطب اور محمد حسین ذہبی قابلِ ذکر ہیں۔ ڈاکٹر ذہبی نے اس پر متعدد پہلوؤں سے اعتراض کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’ اول: لغوی پہلو سے : زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے قرآنی الفاظ کی دلالتیں بدل گئی ہیں اور ان میں توسّع آگیا ہے۔ تو کیا یہ بات قرینِ عقل ہوگی کہ الفاظِ قرآن کے فہم میں ہم بھی اتنے ہی توسّع سے کام لیں اور ان سے وہ معانی مستنبط کریں جنھیں جدید اصطلاحات کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔

دوم : بلاغی پہلو سے: بلاغت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بات مطابقِ حال کہی جائے ۔ سائنسی تفسیر سے قرآن کی بلاغت کو ضرر پہنچتا ہے، اس لیے کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں جن لوگوں کو مخاطب بنایا گیا اگر وہ ان معانی سے ناواقف تھے جنھیں تفسیر میں بیان کیا جاتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ انھیں وہ بتانا چاہتا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن غیر بلیغ ہے، اس لیے کہ اس نے مخاطبین کے حالات کی رعایت نہیں کی اور اگر وہ ان معانی کو جانتے تھے تو کیوں عربوں کی علمی ترقی نہیں ہوئی، جب کہ قرآن میں اولین و آخرین کے تمام علوم پائے جاتے تھے۔

سوم: اعتقادی پہلو سے: اگر ہم ان لوگوں کا مسلک اختیار کرلیں جو قرآن سے ہر چیز مستنبط کرنے لگتے ہیں اور اس کو تمام علوم کا سرچشمہ بنادیں تو قرآن کے سلسلے میں مسلمانوں کے عقیدہ کو ہم مشکوک بنادیں گے۔ اس لیے کہ سائنسی علوم کے قواعد و نظریات دائمی اور اٹل نہیں ہیں۔ اگر ہم قرآن سے سے جدید سائنسی نظریات مستنبط کرنے لگیں، پھر یہ نظریات غلط قرار پاجائیں تو اس سے قرآن کریم پر مسلمانوں کا اعتقاد متزلزل ہوجائے گا، اس لیے کہ قرآن کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے کہ کل اس کی جو بات صحیح تھی وہ آج غلط ہوسکتی ہے‘‘۔ ۱۰؎

    سائنسی تفسیر پر اعتراض کرنے والے اور بھی بعض دلائل پیش کرتے ہیں، طوالت کے اندیشہ سے ہم انھیں ذکر نہیں کررہے ہیں۔

سائنسی تفسیر کے مؤیّدین

        جو حضرات قرآن کی سائنسی تفسیر کی تائید کرتے ہیں ان کے نقطہ ہائے نظر میں کچھ اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض مبنی بر اعتدال ہیں تو بعض میں غلو پایاجاتا ہے۔ ہرایک کی اپنی دلیلیں ہیں۔ سائنسی تفسیر کے زبردست مؤیّدین میں امام ابوحامد الغزالیؒ ہیں۔ انھوں نے احیاء العلوم میں لکھا ہے:

 ’’وہ نظریات اور معقولات جن کے فہم میں غورو فکر کرنے والوں کو دشواری اور ان کے درمیان اختلاف ہوا ہے، قرآن میں ان کی طرف اشارے اور دلالتیں پائی جاتی ہیں۔ مخصوص اہلِ فہم ہی ان کا ادراک کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ استنباطات ظاہرِ تفسیر سے ٹکراتے نہ ہوں، وہ اسے مکمل کرتے ہوں نہ کہ اس کا بدل ہوں‘‘۔

        مؤیّدین میں امام فخر الدین رازیؒ بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی تفسیر میں مختلف طبیعیاتی علوم، فلکیات اور علم نجوم وغیرہ کی تفصیلات ذکر کی ہیں۔ ان میں امام زرکشیؒ بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب البرہان فی علوم القرآن میں ایک خاص فصل قائم کی ہے جس کا عنوان یہ ہے ’’فی القرآن علم الاولین والآخرین‘‘ یعنی قرآن میں قدیم و جدید زمانوںکے تمام علوم ہیں۔

    علامہ سیوطیؒ نے نقل کیا ہے کہ ابوالفضل المرسیؒ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:

 ’’قرآن میں اوّلین و آخرین کے علوم جمع ہیں۔ ان کا علم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کو تھا، پھر اس نے اپنے رسول کو ان سے باخبر کیا (سوائے کچھ چیزوں کے جن کا علم اس نے اپنے پاس محفوظ رکھا ہے) پھر ان سے کبارِ صحابہ مثلاً خلفائے اربعہ، حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن عباسؓ وغیرہ نے اخذ کیا، یہاں تک کہ بعض صحابہ کہا کرتے تھے: ’’اگر اونٹ کو باندھنے والی کوئی رسّی بھی کھوجائے تو میں اسے کتاب اللہ میں پالوں گا‘‘، پھر ان سے تابعین نے اخذ کیا، اس کے بعد ہمتیں پست ہوگئیں، عزائم میں فتور آگیا، اہل علم ان علوم و فنون کے حامل نہ رہے جن سے صحابہ و تابعین بہرہ ور تھے‘‘۔ ۱۱؎

    خود امام سیوطیؒ کے نقطۂ نظر کی وضاحت ان کے اس اقتباس سے ہوتی ہے:

’’اللہ کی کتابِ عزیز میں ہر چیز پائی جاتی ہے۔ رہے مختلف علوم تو ان کے ہر باب اور ہر مسئلے کی اصل قرآن میں پائی جاتی ہے۔ اس میں عجیب و غریب مخلوقات اور آسمانوں، زمین، افق اعلیٰ اور زیرِ زمین پائی جانے والی چیزوں کا بیان، ابتدائے تخلیق کی تفصیل، مشہور پیغمبروں اور فرشتوں کے نام اور گزشتہ قوموں کے حالات مذکور ہیں‘‘۔ ۱۲؎

    مؤیّدین میں امام ابن قیّمؒ بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی تصنیف کتاب الفوائد المشوّق الی علوم القرآن و علم البیان کے مقدمے میں لکھا ہے:

’’قرآن کے ایک ایک حرف سے حکمت کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔۔۔ اس کی ہر سورت سے اوائل و اواخر کے علوم کا اظہار ہوتا ہے‘‘۔ ۱۳؎    آگے لکھتے ہیں: ’’قرآن ہر علم و حکمت کا سرچشمہ ہے‘‘ ۔ ۱۴؎

        سائنسی تفسیر کی حمایت کرنے والے نمایاں متاخرین میں شیخ طنطاوی جوہری بھی ہیں۔ ان کی تفسیر " جواہر القرآن " قرآن کریم کی سائنسی تفسیر کی نمائندہ کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے عجائباتِ کائنات، اسرارِ علوم اور سائنسی مفروضات کی خاصی بڑی مقدار شامل کردی ہے۔ وہ اپنی تفسیر کی بنیاد عموماً ان سائنسی اصولوں اور مفروضات پر رکھتے ہیں جو عصر حاضر کی تحقیقات سے حاصل ہوئے ہیں اور آیتِ قرآنی کی تشریح و توضیح کرتے کرتے ان سائنسی اصولوں اور مفروضات کو بیان کرنے لگتے ہیں۔ بسا اوقات وہ آیات قرآنی میں پائے جانے والے سائنسی اشارات کاموازنہ سائنس کے اصولوں سے کرنے لگتے ہیں اور تائید میں مختلف علومِ کائنات کے ماہر مغربی سائنس دانوں کی آراء پیش کرنے لگتے ہیں۔

        اس تفسیر پر لوگوں نے بہت تنقید کی ہے۔ بعض حضرات نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے کسی بھی طور پر تفسیر کی کتاب نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس کے مؤلف نے اس میں بہت سی غیر ضروری تفصیلات شامل کردی ہیں اور اسے مختلف سائنسی علوم سے بھر دیا ہے۔ اس بنا پر یہ کتاب ایک سائنسی انسائیکلوپیڈیا کے مثل ہوگئی ہے، مزید برآں اس میں جو سائنسی باتیں درج کی گئی ہیں ان میں سے بہت سی محتاجِ ثبوت ہیں اور بہت سی اپنے حال پر باقی نہیں رہی ہیں۔ شیخ منّاع القطّان فرماتے ہیں:

’’ہماری نظر میں شیخ طنطاوی جوہری نے اس تفسیر کو لکھ کر بہت برا کیا، حالاں کہ وہ گمان کررہے ہیں کہ انھوں نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ ان کی تفسیر کو بہت سے اہل علم کے نزدیک مقبولیت نہیں ملی ہے، اس لیے کہ اس میں آیات سے دور دراز معانی مستنبط کرنے کے لیے بہت کھینچ تان کی گئی ہے۔ اسی لیے اس تفسیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں ہر چیز ہے سوائے تفسیر کے‘‘۔ ۱۵؎

    سائنسی تفسیر کے مؤیّدین میں سے شیخ طاہر ابن عاشورؒ بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی تفسیر التحریر والتنویر میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ تفسیر میں مختلف علوم سے استفادہ ضروری ہے، اس لیے کہ اس سے آیت کا معنیٰ مزید واضح اور روشن اور قرآن کا مدّعا مزید پختہ اور راسخ ہوجاتا ہے۔ فرماتے ہیں:

’’بسا اوقات سائنس کے بعض مسائل کا آیاتِ قرآنی کی تفسیر سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ان کو اسی طرح پیش کیا جاسکتا ہے جس طرح ہم کسی قرآنی دلیل کے اثبات کے لیے کوئی کلامی مسئلہ پیش کرتے ہیں۔

    مثلاً: "  آیت لَوْکَانَ فِیْہِمَا آلِہَۃٌ اِلاَّاللّٰہُ لَفَسَدَتَا۔ الانبیائ ' : ۲۲ (اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑجاتا) کی تشریح میں برہان التمانع اور آیت " وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ" ۔ الذاریات:۴۷ (آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور اہم اس کی قدرت رکھتے ہیں) کی تشریح میں مسألۃ المتشابہ سے بحث کرتے ہیں‘‘۔


    ابن عاشورؒ جب ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں جن میں آیات کی سائنسی تفسیر کی جاسکتی ہے تو ساتھ ہی وہ اس کی کچھ شرطیں بھی بیان کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’اس کے قابلِ قبول ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس میں ایجاز و اختصار کا طریقہ اپنایا جائے، سائنسی معلومات کا صرف خلاصہ بیان کیا جائے، بہت زیادہ تفصیل نہ ذکر کی جائے کہ وہی مقصود معلوم ہونے لگے‘‘۔

    آگے ابن عاشور نے امام شاطبیؒ کا، جو سائنسی تفسیر کے مخالفین میں سے ہیں، رد کیا ہے، ان کے دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:   ’’یہ بے بنیاد بات ہے۔ اس کی چھ دلیلیں ہیں۔ 

اول: جو کچھ انھوں نے کہا ہے اس کا تقاضا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن چاہتا ہے کہ عربوں کے حال میں کوئی تبدیلی نہ ہو، حالاں کہ یہ صحیح نہیں۔ 

دوم: قرآن کا مقصد دعوت اسلامی کی اشاعت ہے اور یہ رہتی دنیا تک باقی رہنے والا معجزہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس میں ایسی باتیں ہوں جو سائنسی ترقی کے زمانے کے لوگوں کی فہم کے مطابق ہوں۔ 

سوم: سلف نے کہا ہے کہ ’’قرآن ایسی کتاب ہے جس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوسکتے‘‘ اس سے ان کی مراد قرآن کے معانی سے ہے۔ اب اگر امام شاطبی کی بات صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے عجائبات اس کے معانی کے محصور ہوجانے کی وجہ سے ختم ہوگئے۔ 

چہارم: اس کا کمالِ اعجاز یہ ہے کہ اس کے الفاظ میں ایجاز ہونے کے باوجود اس کے معانی میں کثرت ہو کہ وہ کتابوں میں نہ سماسکیں۔ 

پنجم: ضروری ہے کہ مخاطبینِ اول نے آیاتِ قرآن کے معانیٔ اصلیہ سمجھ لیے ہوں۔ رہے زائد معانی تو ممکن ہے کہ انھیں کچھ لوگ سمجھ لیں اور کچھ نہ سمجھ پائیں۔ بسا اوقات جس تک بات پہنچائی جاتی ہے وہ بات پہنچانے والے سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے۔ 

ششم: وہ باتیں جن کا تعلق مقاصد قرآن سے ہے، ان کے بارے میں یہ چیز قابل تسلیم نہیں ہے کہ سلف ان کی تشریح میں ظاہر آیت پر توقف کرتے تھے، بلکہ ان میں انھوں نے خوب تشریح و توضیح سے کام لیا ہے اور مختلف علوم کی تفصیل پیش کی ہے۔ ان کی پیروی کرتے ہوئے ہم بھی ایسے علوم سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو مقاصد قرآن کی خدمت کرتے ہوں اور جن سے علوم اسلامی کی وسعت کا اظہار ہوتا ہو۔ ۱۶؎

        شیخ طاہر بن عاشورؒ نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اگرچہ اہم اور قیمتی ہے، لیکن اس سے امام شاطبیؒ کی باتوں کی بالکلیہ تردید نہیں ہوتی۔  

        اپنی تحریروں میں آیاتِ قرآنی کی سائنسی تفسیر کا اہتمام کرنے والوں میں شیخ رشید رضا، شیخ محمد مصطفی المراغی، محمد فرید وجدی، محمد احمد الغمراوی، حنفی احمد اور شیخ محمد متولی شعراوی وغیرہ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ہم ان حضرات کی تصنیفات اور ان کے افکار پر تفصیل سے بحث کرتے۔

        سائنسی تفسیر کے سلسلے میں اہل علم کا جو اختلاف ہے وہ اوپر گزرا۔ رہا سائنسی اعجاز تو اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے (سائنسی تفسیر اور سائنسی اعجاز میں فرق مقالہ کے شروع میں واضح کیا جاچکا ہے)۔

سائنسی اعجاز کے دلائل

اول: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  بَلْ کَذَّبُواْ بِمَا لَمْ یُحِیْطُواْ بِعِلْمِہِ وَلَمَّا یَأْتِہِمْ تَأْوِیْلُہُ یونس: ۳۹  اصل یہ ہے کہ جو چیز ان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا، اس کو انھوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پچّو) جھٹلادیا۔

        اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن بے شمار وجوہ سے معجزہ ہے۔ مگر انھوں نے، قبل اس کے کہ اس میں غور و فکر کرتے یا اس نے مستقبل کی جن چیزوں کی خبر دی ہے، ان کے پیش آنے کا انتظار کرتے، اول وہلہ میں اسے جھٹلادیا۔ یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ قرآن میں بعض ایسے حقائق پائے جاتے ہیں جو آئندہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ واضح ہوں گے۔

دوم: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ شَہِیْدٌ۔ (حم السجدۃ: ۵۳)     عن قریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی۔ یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟
اس آیت کی تشریح میں ابن کثیرؒ نے لکھا ہے:

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عن قریب ہم قرآن کے برحق اور منزّل من اللہ ہونے پر اپنے دلائل و براہین ان پر ظاہر کردیں گے۔ فی الآفاق سے مراد خارجی دلائل ہیں، مثلاً فتوحات، ممالک و مذاہب پر اسلام کا غلبہ اور فی انفسہم سے مراد داخلی دلائل ہیں یعنی غزوۂ بدر اور فتح مکہ جیسے واقعات۔ یہ مجاہد ، حسن اور سدّی کا قول ہے ۔۔۔ اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا جسم کن چیزوں سے مرکب ہے؟ اس میں کون کون سے مادے اور اخلاط پائے جاتے ہیں؟ اور اس سے کیسے افعال صادر ہوتے ہیں، جیسا کہ علم تشریح البدن میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی کاری گری کی حکمت واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کی فطرت میں کون سے اچھے اور برے اخلاق ودیعت کیے گئے ہیں؟ اور کس طرح وہ تقدیر الٰہی کے تابع محض ہوکر زندگی گزار رہے ہیں کہ اس سے ذرا بھی تجاوز نہیں کرسکتے‘‘۔ ۱۷؎
 سوم:  اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے:  ما من الأنبیاء نبیّ الا أعطی من الآیات ما مثلہ آمن علیہ البشر، وانما کان الذی اوتیتہ وحیاً أوحاہ اللہ الیّ، فأرجو ان اکون اکثرہم تابعاً یوم القیامۃ۔ ۱۸؎    اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء بھی بھیجے، ان میں سے ہر ایک کو ایسی نشانی دی جسے دیکھ کر لوگ ایمان لے آئے۔ لیکن اس نے مجھے جو نشانی عطا کی ہے وہ قرآن کی شکل میں ہے جسے اس نے میری طرف وحی کی ہے۔ اس بنا پر مجھے امید ہے کہ روزِ قیامت میرے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔

قرآن میں سائنسی اعجاز کے ضوابط

        سائنسی اعجاز کو نمایاں کرتے وقت چند اہم ضوابط کی پابندی ضروری ہے۔ وہ ضوابط درج ذیل ہیں:

اول:  یہ عقیدہ ہو کہ قرآن اول درجہ کی کتابِ ہدایت ہے، سائنس اور طبیعیات کی کتاب نہیں ہے ۔ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی ان کے خالق کی طرف رہ نمائی ہو، وہ زمین میں خلافت قائم کریں ، جس کی انھیں ذمہ داری سونپی گئی ہے اور عبادتِ الٰہی میں مشغول ہوں، جس کے لیے انھیں پیدا کیا گیا ہے۔ اس لیے آیاتِ کائنات سے متعلق قرآنی مطالعات کو اسی دائرے میں رہنا چاہیے اور اس پر کسی دوسرے پہلو کو ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ جائز نہیں کہ قرآن کے ساتھ کسی ایسی چیز کا اضافہ کردیا جائے جس کا وہ تقاضا نہ کرتا ہو اور نہ یہ صحیح ہے کہ کسی ایسی چیز کا انکار کردیا جائے جس کا وہ تقاضا کرتا ہو۔

دوم:  عربی زبان، جس میں قرآن کا نزول ہوا ہے، اس کی دلالتوں کی پابندی کی جائے، اس کے مفردات، تراکیب، اسالیب، عموم و خصوص، اطلاق و تقیید اور اجمال و بیان وغیرہ کو ملحوظ رکھا جائے، اس کے متعیّن قواعد کی رعایت کی جائے، مثلاً مطلق کو مقیّد پر اور عام کو خاص پر محمول کرنا، لفظ کے حقیقی معنیٰ مراد لینا، الاّ یہ کہ کسی وجہ سے مجازی معنیٰ لینا ضروری ہو، اور علومِ لغت اور اصولِ تفسیر میں سے ان چیزوں کو ضرور پیش نظر رکھا جائے جن پر معانیٔ آیات کا فہم موقوف ہو۔

سوم:  اعجازِ قرآن کی وضاحت میں دور دراز تاویلات سے احتراز کیا جائے، قوی دلیل کے بعد آیت کے ظاہری مفہوم سے انحراف نہ کیا جائے، اس لیے مناسب یہ ہے کہ قرآنی منہج کی پیروی کی جائے اور قرآنی نصوص سے وہ معانی نہ نکالے جائیں جو بہ ظاہر ان سے نہ نکلتے ہوں۔ اسی طرح مناسب یہ ہے کہ ہم قرآن کی تفسیر کو سائنس کی کتاب نہ بنادیں کہ اس کو مختلف سائنسی علوم سے بھر دیں اور اس معاملے میں حد اعتدال سے تجاوز کرجائیں۔

چہارم:  علمی مضامین کے اظہار میں قرآنی اسلوب کی لچک سے واقفیت حاصل کی جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ آیت کی تاویل میں کون کون سی توجیہیں قابلِ قبول ہوسکتی ہیں۔ اس لیے قرآن کے کسی لفظ یا عبارت کو سمجھنے کی کوشش کرتے وقت اس لفظ کی حقیقی اور مجازی دلالتوں اور عربی زبان میں اس کے استعمالات کی طرف ضرور رجوع کیا جائے، تاکہ اس میں جن معانی کی گنجائش نکل سکتی ہو، اس کی تفسیر کرتے وقت وہ ذہن میں واضح رہیں۔

پنجم:  کائنات اور انفس و آفاق سے متعلق آیاتِ الٰہی میں غورو خوض اور اللہ کی سنتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے علم و معرفت کے بارے میں قرآنی منہج کی پیروی کی جائے۔ چوںکہ کائنات کا نظام اللہ تعالیٰ کے طبیعی قوانین (سنن) پر قائم ہے اور وہ انہی کے مطابق کائنات کو چلارہا ہے اس لیے جو شخص ان طبیعی قوانین کو جان لے گا وہ اپنے فائدے کے لیے کائنات کو مسخّر کرسکے گا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق کے مطابق بہتر وسائلِ زندگی فراہم کرسکے گا اور مادی ترقی حاصل کرسکے گا ، خواہ وہ کسی بھی عقیدے کا ماننے والا ہو اور کیسی بھی زندگی گزارتا ہو۔

ششم:  تفسیر کرنے والا آیت کا مفہوم قرآن کی دیگر آیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرے، پھر سنتِ نبوی، پھر اقوال صحابہ، پھر اقوالِ تابعین سے رجوع کرے۔ اصطلاحی طور پر اسے ’تفسیر ماثور‘ کہتے ہیں، غرض یہ کہ تفسیر کے اصول و قواعد کو ملحوظ رکھے۔

ہفتم:  قرآن کے بیان کردہ حقائق کو محلِّ نظر نہ بنادیا جائے، بلکہ ضروری ہے کہ ان کو اصل قرار دیا جائے۔ پھر جو چیز اس کے موافق ہو اسے قبول کیا جائے اور جو چیز اس کے مخالف ہو اس کو رد کردیا جائے۔

ہشتم:  قرآن کی تفسیر سائنس کی صرف یقینی اور ثابت شدہ معلومات سے کی جائے، تفسیر آیات کے ضمن میں صرف سائنسی حقائق پر اکتفا کیا جائے اور ان سائنسی نظریات کی جانب توجہ نہ دی جائے جو ابھی حقائق کے درجے تک نہ پہنچے ہوں اور انھیں قطعاً ذکر نہ کیا جائے، اس لیے کہ کسی آیت کی تفسیر میں کسی ایسے سائنسی نظریہ کو پیش کرنا جس میں تبدیلی ہوسکتی ہو یا بعد میں وہ غلط ثابت ہوسکتا ہو، اس سے قارئین کے ذہن میں وہ نظریہ بیٹھ جائے گا اور بعد میں اس کے غلط ثابت ہوجانے کی صورت میں وہ آیت کے اپنے فہم کے بارے میں ذہنی الجھن اور انتشار کا شکار ہوں گے۔ ماضی میں ایسا ہوچکا ہے کہ کتب تفسیر میں اسرائیلیات کی بھرمار کے سبب بعض آیاتِ قرآنی کا مفہوم غلط سمجھ لیاگیا۔ ۱۹؎

وہ امور جن کی رعایت ضروری ہے۔


        قرآن میں علومِ کائنات کی نسبت سے پانچ چیزوں کی رعایت ضروری ہے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ انھیں بیان کیا جارہا ہے:

اول:  قرآن نے ان علومِ کائنات کو اپنا موضوع نہیں بنایا ہے، اس لیے کہ وہ مختلف قوانین کے تابع ہیں اور ان کی تفصیلات میں اتنی باریکی اور غموض ہے کہ وہ عوام کے فہم سے بالاتر ہیں۔ پھر یہ کہ قرآن کے عظیم تر مقصد، کہ وہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو نجات دلانا اور اسے دنیا و آخرت کی سعادت سے ہم کنار کرنا چاہتا ہے، اس کے مقابلے میں یہ چیز بہت ہیچ ہے۔  

قرآن ہدایت اور اعجاز کی کتاب ہے، اس لیے مناسب نہیں کہ ہم ان حدود سے تجاوز کریں۔ وہ جب کائنات کی کسی چیز کا تذکرہ کرتا ہے تو اس کا مقصد ہدایت اور  مخلوق کو حق کی رہ نمائی ہوتا ہے، فلکیات، ہیئت، طبیعیات اور دیگر سائنسی علوم کے حقائق بیان کرنا اس کا مقصد نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس چیز کے لیے وہ نازل نہیں کیا گیا ہے۔
وہ لوگ جو قرآنی آیات کے ذریعے سائنسی معلومات کااستنباط کرتے ہیں وہ در حقیقت غلطی پر ہیں اور حدِّ اعتدال سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ قرآن نے اپنا مقصد نزول یہ قرار دیا ہے:

ہُدیً لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ (البقرۃ:۲)  ہدایت ہے پرہیزگار لوگوں کے لیے ۔

    قَدْ جَاء کُم مِّنَ اللّہِ نُورٌ وَکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۔ یَہْدِیْ بِہِ اللّہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُہُم مِّنِ الظُّلُمٰتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیْہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ (المائدۃ: ۱۵-۱۶)  تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہ نمائی کرتا ہے۔

    قرآن کی عظمت اس بات پر موقوف نہیں ہے کہ ہم اس کے لیے کوئی نیا کام گھڑلیں اور اسے ایسی ذمہ داری دے دیں جس کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں نازل کی ہے۔

دوم:  قرآن نے ان علوم کی طرف جو دعوت دی ہے وہ مظاہر کائنات میں غورو فکر اور دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے اوراس کی چیزوں سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضِ۔ (یونس: ۱۰۱) ان سے کہو ’’زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو‘‘۔
وَسَخَّرَ لَکُم مَّا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ جَمِیْعاً مِّنْہُ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَاٰیٰتٍ لَّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ۔ (الجاثیۃ: ۱۳)      اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمھارے لیے مسخّر کردیا۔ سب کچھ اپنے پاس سے ۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔

سوم:  قرآن نے ان مظاہر کائنات کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ہمیں یہ بھی بتادیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اوراس کی مشیّت کے تابع ہیں۔ اس نے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو انھیں معبود اور تاثیر و اقتدار کا مالک سمجھتے ہیں اور صراحت کی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے اقتدار کے تابع ہیں:

إِنَّ اللَّہَ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَکَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِہٖ۔ (فاطر: ۴۱)    حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دوسرا انھیں تھامنے والا نہیں ہے۔ 
وَمَا قَدَرُوا اللَّہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالْأَرْضُ جَمِیْعاً قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ۔ (الزمر: ۶۷)  ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے (اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دستِ راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔

چہارم:  قرآن جب ہدایتِ الٰہی کے سیاق میں کائنات کی کسی نشانی کاتذکرہ کرتا ہے تو اس کا بیان اس ذاتِ الٰہی کی طرف سے ہوتا ہے جو کائنات کے تمام علوم کااحاطہ کیے ہوئے ہے اور آسمانوں اور زمین کے تمام اسرار سے بہ خوبی واقف ہے اور جس سے زمین اور آسمان کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس چیز نے علوم کائنات سے دل چسپی رکھنے والے بعض لوگوں کو حیران اور ششدر کردیا ہے، وہ حدِّ اعتدال سے آگے بڑھ گئے ہیں اور انھوں نے علومِ کائنات کو علومِ قرآن میں سے سمجھ لیا ہے۔

پنجم:  قرآن نے کائنات کی نشانیوں کے بارے میں اظہار خیال کے لیے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ بہترین اسلوب ہے۔ اس میں بہ یک وقت تفصیل بھی پائی جاتی ہے اور اجمال بھی۔ وہ ہر نسل اور ہر قبیل کے انسانوں کو مخاطب کرتا ہے، ان کے سامنے پوری وضاحت کے ساتھ ہدایت اور اس کے دلائل پیش کرتا ہے اور جو کچھ بیان کرتا ہے، لوگ اپنی صلاحیتوں، دستیاب وسائل اور علوم و فنون کے مطابق کم و بیش اس کی جزئیات و تفاصیل اور دقائق سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ ۲۰؎

        میں سمجھتا ہوں کہ اس پہلو (یعنی کائنات اور انسان کے بارے میں سائنسی حقائق، جن کی طرف کتاب اللہ میں اشارے پائے جاتے ہیں) میں حقیقی اعجاز قرآن کے طرز تعبیر میں پایا جاتا ہے، یعنی ان امور میں جن کا تذکرہ سطور بالا میں کیا گیا، نہ کہ اس چیز میں جسے ہم سائنسی تفسیر کا نام دیتے ہیں، اس لیے کہ اس میں غلطی اور صحت دونوں کا امکان رہتا ہے۔ قرآن نے ان حقائق کو اس انداز سے بیان کیا ہے جو تمام زمانوں میں لوگوں کی سمجھ میں آجانے والے ہیں، یعنی قرآن کا اسلوب، نظم اور بیان ان علمی و سائنسی حقائق کے اظہار میں اس حد تک وسیع ہوگیا ہے کہ کسی زمانے کے انسان کو خطاب کرنے سے عاجز نہیں رہا ہے اور اس سے وہ معانی نہیں نکالے گئے ہیں جن کا وہ متحمل نہ رہا ہو۔

        یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ دنیا کے کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اس طرح ان چیزوں کو بیان کرسکے جس طرح قرآن نے بیان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان زمانوں میں سے ہر زمانے کے مطابق قرآن کو سمجھا گیا ہے اور اس کی تفسیر کی گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں، جو سائنسی ایجادات و اکتشافات کا زمانہ ہے، ایک خاص انداز سے قرآن کو سمجھنے اور اس کی تفسیر و تشریح کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کائنات اور انسان سے متعلق قرآنی اشارات کے سائنسی یا حقیقی مدلول کو سمجھنا تجربہ اور انسانی عمل پر موقوف ہے، جو زمانۂ نزولِ قرآن کے بعد کے زمانوں کا عمل ہے اور قرآن- جیسا کہ ہم جانتے ہیں- تمام زمانوں کے لیے ہے، یعنی اس کا مدار ان اشارت و ظواہر کے ساتھ تعامل کے سلسلے میں قرآنی منہج کی تطبیق یا غور و فکر اور مشاہدہ و تجربہ کے قرآنی حکم کی تعمیل پر ہے۔ ۲۱؎

        سائنسی تفسیر کے مؤیّدین اور مخالفین دونوں کے نقطہ ہائے نظر کی وضاحت کے بعد ہم کہیں گے کہ سائنسی تفسیر کا نہ تو مطلق انکار صحیح ہے اور نہ اس کی مطلق تائید کو درست قرار دیا جاسکتا ہے، بلکہ دونوں حقیقتوں کو جمع کرنا مبنی بر صواب رویّہ ہوگا، ایک قرآنی حقیقت جو یقینی نص کے ذریعے ثابت ہے اور دوسری سائنسی حقیقت جو قطعی تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعے پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے۔ اسی بنا پر تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم کا کسی سائنسی حقیقت سے ٹکراؤ نہ کبھی پہلے ہوا ہے اور نہ کبھی آئندہ ہوگا۔ ٹکراؤ اس وقت ہوتا ہے جب سائنسی حقیقت اور قرآنی حقیقت میں سے کوئی ایک خود ساختہ ہو۔

سائنسی تفسیر کی بعض مثالیں

پہلی مثال:  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَالسَّمَاء  بَنَیْْنٰہَا بِأَیْْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ۔ (الذاریات: ۴۷)  آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں جمال الدین الفندی نے لکھا ہے:

’’ یہ وسیع الاطراف مادی کائنات کروڑوں کہکشاؤں پر مشتمل ہے۔ ہر کہکشاں میں کروڑوں سورج اور ستارے ہیں اور ہر سورج یا ستارہ کے ماتحت بہت سے سیارے اور چاند ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فضا میں مختلف خصوصیات اور صلاحیتوں کی طاقتیں  (ENERGIES) اور شعاعیں  (RAYS) ہیں، یہ تمام چیزیں خالق کائنات کی قدرت کے تابع ہیں۔ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ابتداء میں جب کائنات پیدا کی تھی تو آسمان کو خوب وسیع کردیا تھا، چنانچہ کہکشاؤں کے ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہونے کے باوجود آسمان ان سب پر حاوی ہے۔     

  سائنسی پہلو سے دیکھا جائے تو کائنات کاحجم اب تک نہیں دریافت کیا جاسکا ہے۔ سائنس دانوں نے ستاروں کی چمک کے اعتبار سے ان کی درجہ بندی کی ہے، جو ستارے ننگی آنکھ سے قبّۂ آسمان میں دکھائی دیتے ہیں اور جن میں مختلف درجات کی چمک پائی جاتی ہے، ان کی تعداد چھ ہزار سے زائد نہیں ہے، لیکن جب فلکیاتی دور بینوں سے دیکھا گیا تو ماہرینِ فلکیات نے بتایا کہ ہماری یہ کہکشاں ایک ٹکیہ کے مثل ہے۔ ہمارا سورج اس کہکشاں کے مرکز سے تیس ہزار شمسی سال کی دوری پر ہے۔ اس کا قطر تقریباً ایک لاکھ شمسی سال اور اس کی موٹائی تقریباً چھ ہزار شمسی سال کے برابر ہے‘‘۔ ۲۲؎

دوسری مثال:  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ یُکَوِّرُ الَّیْْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیْْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِیْ لِأَجَلٍ مُسَمًّی أَلَا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ ۔ (الزمر:۵)   اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے۔ اُسی نے سورج اور چاند کو اس طرح مسخّر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقتِ مقرر تک چلا جارہا ہے۔ جان رکھو وہ زبردست ہے اور درگزر کرنے والا ہے۔

 

        امام راغبؒ نے لکھا ہے: ’’کَوَّرَ کے معنیٰ ہیں گھمانا اور لپیٹنا ، جیسے عمامہ کو لپیٹا جاتا ہے۔ اس سے اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ سورج کی گردش سے رات اور دن چھوٹے بڑے ہوتے ہیں‘‘۔ ۲۳؎
لسان العرب میں ہے: ’’تکویر اللیل والنہار کا مطلب یہ ہے کہ رات اور دن میں سے ہر ایک کو دوسرے سے ملادیا جائے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رات اور دن میں سے ہر ایک کو دوسرے پر چڑھادیا جائے۔ ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ایک کو دوسرے میں داخل کردیا جائے۔ یہ تینوں معانی قریب قریب ہیں‘‘۔ ۲۴؎
الصحاح میں ہے: یُکَوِّرُ الَّلیْلَ عَلَی النَّہَارِ کا مطلب یہ ہے کہ رات دن کو ڈھک لیتی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بتایا گیا ہے کہ رات بڑی ہوجاتی ہے، دن چھوٹا ہوجاتا ہے، تکویر کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے میں داخل ہوجائے۔ اس کی اصل تکویر العمامۃ ہے یعنی عمامہ کو لپیٹنا۔ اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی روشنی سمیٹ لی جائے گی اور اسے عمامہ کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ کُوِّرَتْ کے ایک معنی غُوِّرَتْ کے ہیں، یعنی اس کی روشنی اندر چلی جائے گی۔ ۲۵؎

سید قطبؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

’’یہ عجیب و غریب تعبیر ہے، جو اس میں غور و فکر کرنے والے کو مجبور کرتی ہے کہ ان معلومات کی طرف رجوع کرے جو زمین کے گول ہونے سے متعلق ماضی قریب میں دریافت ہوئی ہیں۔ باوجود یہ کہ میں نے اس تفسیر میں پوری کوشش کی ہے کہ قرآن کو انسان کے دریافت کردہ نظریات پر محمول نہ کروں، اس لیے کہ یہ نظریات غلط بھی ہوسکتے ہیں اور صحیح بھی، آج اگر یہ صحیح معلوم ہورہے ہیں تو کل یہ غلط ثابت ہوسکتے ہیں، جب کہ قرآن بر حق ہے، وہ بذات خود اپنی سچائی کی نشانی ہے، اس کی تائید و تصدیق کے لیے کم زور و ناتواں انسانوں کی تحقیقات و انکشافات کے حوالے پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود یہ قرآنی تعبیر مجھے مجبور کررہی ہے کہ میں زمین کے گول ہونے سے متعلق معلومات میں غور کروں، اس سے ایک ایسی مادی حقیقت کی تصویر کشی ہوتی ہے جو روئے زمین پر قابل مشاہدہ ہے۔ گول زمین سورج کے سامنے اپنے محور پر گردش کررہی ہے، اس کی گول سطح کا جو حصہ سورج کے سامنے ہوتا ہے اس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہاں دن ہوتا ہے، لیکن یہ حصہ ایک حال پر قائم نہیں رہتا، اس لیے کہ زمین گردش کررہی ہے اور جوں جوں اس کی حرکت جاری رہتی ہے وہ سطح جس پر دن تھا، اس پر رات چھانے لگتی ہے۔ زمین کی یہ سطح برابر ڈھکی رہتی ہے، پہلے دن کی روشنی کے ذریعے، پھر رات کی تاریکی کے ذریعے، کچھ عرصہ کے بعد دوسرے گوشے سے پھر دن کا آغاز ہوتا ہے جو رات پر چھاجاتا ہے۔ یہ حرکت برابر جاری رہتی ہے۔ آیت یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَ یُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیْلِ کے الفاظ سے شکل بھی نگاہ میں آجاتی ہے، مقام کی بھی تعیین ہوجاتی ہے اور زمین کی ماہیت اور اس کی حرکت کی نوعیت بھی طے ہوجاتی ہے۔ زمین کے گول ہونے اور اپنے محور پر گردش کرنے سے قرآنی تعبیر کی اچھی طرح وضاحت ہوجاتی ہے۔ یہ تفسیر کسی بھی دوسری تفسیر کے مقابلے میں ، جسے اس نظریہ کی روشنی میں نہ کیا گیا ہو، زیادہ دقیق تفسیر ہے‘‘۔ ۲۶؎

تیسری مثال:  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاَرْسَلْنَا الرِّیْحَ لَوَاقِحَ ۔ (الحجر: ۲۲)  بار آور ہواؤں کو ہم ہی بھیجتے ہیں۔

     اس آیت کی تفسیر میں پہلے کے لوگ کہتے تھے کہ یہ تشبیہ ہے اس چیز کی کہ ٹھنڈی ہوائیں بادلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں، جس سے بارش ہوتی ہے اور جانوروں کے نَر مادہ کو بار آور کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب یورپ کے سائنس دانوں نے اس امر کا انکشاف کیا کہ ہوائیں بار آوری کا عمل براہ راست انجام دیتی ہیں اور دعوی کیا کہ یہ بات اس عہد سے پہلے کے لوگوں کو نہیں معلوم تھی تو قرآن سے واقف بعض لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ عربوں کو یہ بات معلوم تھی۔ مستشرق اجنیری ، جو گزشتہ صدی میں آکسفورڈ میں عربی زبان کا استاد تھا، اس نے کہا ہے: ’’اونٹ چرانے والوں کو اہل یورپ سے تیرہ صدیوں قبل معلوم تھا کہ ہوائیں درختوں اور پھلوں کو بارآور کرتی ہیں‘‘ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ کھجور کی کاشت کرنے والے اہل عرب عمل بار آوری سے واقف تھے، اس لیے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے نر کھجوروں کے شگوفوں کو مادہ کھجوروں پر چھڑکتے تھے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ بارآوری کا کام ہوائیں انجام دیتی ہیں، اسی وجہ سے اس عہد کے مفسرین نے اس آیت سے یہ بات نہیں سمجھی تھی، بلکہ اسے مجاز پر محمول کیا تھا۔ ۲۷؎


چوتھی مثال:  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَالأَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَأَلْقَیْْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ وَأَنبَتْنَا فِیْہَا مِن کُلِّ شَیْْء ٍ مَّوْزُونٍ۔ (الحجر: ۱۹)  ہم نے زمین کو پھیلایا، اس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی۔

 اس آیت میں لفظ ’’موزون‘‘ (ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار) بہت دقیق اور عجیب و غریب تعبیر ہے۔ علم کیمیا (CHEMISTRY) اور علم نباتات (BOTANY) کے ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ کوئی نبات جن عناصر پر مشتمل ہوتی ہے، ان میں سے ہر عنصر اس میں ایک متعین مقدار میں شامل ہوتا ہے۔ اس مقدار کا صحیح اندازہ ناپ تول کی دقیق ترین مشینوں سے، جن سے سینٹی گرام اور ملی گرام بھی ناپاجاتا ہے، کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہرنبات میں یہ عناصر ایک خاص تناسب سے رہتے ہیں ۔ آیت میں کل شئ (ہرچیز) کہا گیا ہے، جس میں انتہائی عموم پایا جاتا ہے اور اس کی صفت ’موزون‘ لائی گئی ہے۔ اس کے ذریعے ایسے فنّی سائنسی مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اس دور سے قبل کسی انسان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتے تھے اور جن کی تفصیلات کے لیے ایک ضخیم کتاب درکار ہے۔


حواشی و مراجع

۱؎    محمد حسین الذہبی، التفسیر والمفسرون، ادارۃ القرآن والعلوم الإسلامیۃ، کراچی، پاکستان، ۱۴۰۷ھ/ ۱۹۸۷ئ، ۲/۴۷۴
۲؎    فہد الرومی، اتجاہات التفسیر فی القرن الرابع عشر، رئاسۃ إدارۃ البحوث العلمیۃ و الافتاء والدعوۃ والإرشاد، سعودی عرب، ۱۴۰۷ھ/ ۱۹۸۶ئ، ۲/۵۴۹
۳؎    احمد عطا محمد عمر، الاتجاہ العلمی للتفسیر فی القرن العشرین، ایم اے ڈیزرٹیشن، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد، ۱۹۹۶- ۱۹۹۷ئ، ص۱۰
۴؎    الشیخ زندانی، المعجزۃ العلمیۃ فی القرآن، بحوث مؤتمر الاعجاز العلمی، بین الاقوامی اسلامی یو نی ورسٹی ، اسلام آباد
۵؎    مصطفی صادق الرافعی، اعجاز القرآن والبلاغۃ النبویۃ، مطبع و تاریخ طبع غیر مذکور، ص۱۳۱
۶؎    محمد عبداللہ دراز، مدخل الیٰ القرآن الکریم، دار القلم دمشق، ۱۴۱۹ھ/ ۱۹۹۸ئ، طبع دوم، ص۱۷۶
۷؎    سید قطب، فی ظلال القرآن، دارالشروق، ۱۴۰۸ھ/ ۱۹۸۸ئ، طبع / ۱۵، ۱/۱۸۲
۸؎    الشاطبی، الموافقات فی اصول الاحکام، تعلیق: محمد حسنین مخلوف، دارالفکر للطباعۃ والنشر، بیروت، ۲/۵۳
۹؎    ابوحیان الاندلسی، البحر المحیط، دارالفکر بیروت، ۱۴۰۳ھ/ ۱۹۸۳ئ، طبع دوم، ۱/۳۴۱
۱۰؎    ملاحظہ کیجیے التفسیر والمفسرون، ۲/۴۹۲ و مابعد
۱۱؎    جلال الدین السیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، منشورات رضی، بیدار عزیزی، ۱۳۴۳ھ، طبع دوم، ۴/۳۰
۱۲؎    حوالہ سابق، ۴/۳۸-۴۰ بہ تصرف
۱۳؎    شمس الدین ابوعبداللہ محمد المعروف بابن قیم الجوزیۃ، کتاب الفوائد المشوّق الی علوم القرآن وعلم البیان، تحقیق: السید محمد بدرالدین النعسانی، مطبعۃ السعادۃ مصر، ۱۳۲۸ھ، طبع اول، ص۵
۱۴؎    حوالہ سابق، ص۶
۱۵؎    الشیخ منّاع القطان، مباحث فی علوم القرآن، مکتبۃ وہبۃ القاہرۃ، ۱۴۱۰ھ/ ۱۹۹۰ئ، طبع ہفتم، ص۳۸۳ ( بہ تصرف)
۱۶؎    الطاہر بن عاشور، التحریر والتنویر، الدار التونسیۃ للنشر، ۱۹۸۴ئ، ۱/۴۵
۱۷؎    ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۵ھ/ ۱۹۸۵ئ، طبع اول ، ۴/۱۶۶
۱۸؎    صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کیف نزل الوحی، ۴۹۸۱، عن أبی ہریرۃ
۱۹؎    ملاحظہ کیجیے مصطفیٰ مسلم، مباحث فی اعجاز القرآن، دارالمنارۃ للنشر والتوزیع، جدۃ، سعودی عرب، ۱۴۰۸ھ/ ۱۹۸۸ئ، طبع اول، ص۱۷۱، صلاح الخالدی، اعجاز القرآن البیانی، دارعمار للنشر و التوزیع، عمان، الاردن، ۱۴۲۱ھ/ ۲۰۰۰ئ، طبع اول، ص۳۹۵
۲۰؎    الشیخ محمد عبدالعظیم الزرقانی، مناہل العرفان فی علوم القرآن، داراحیاء الکتب العربیۃ، عیسیٰ البابی الحلبی وشرکاؤہ، طبع سوم، سنۂ طبع غیر مذکور، ۲/۲۵۰  (بہ تصرف)
۲۱؎    عدنان محمد زرزور، مدخل الی تفسیر القرآن و علومہ، ص۲۳۴
۲۲؎    مصطفیٰ مسلم، مباحث فی اعجاز القرآن، ص۱۶۳، بہ حوالہ جمال الدین القندی، القرآن والعلم ، ص۲۱۳ (بہ اختصار)
۲۳؎    الراغب الاصفہانی، معجم مفردات الفاظ القرآن، تحقیق: ندیم مرعثلی، دارالکتاب العربی، بیروت، ص۱۶۵
۲۴؎    ابن منظور، لسان العرب، ۵/۱۵۶
۲۵؎    حوالہ سابق
۲۶؎    سید قطب، فی ظلال القرآن، ۵/۳۰۳۸