سورۃ الانعام : زمانہ نزول، شان نزول، و مباحث - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


نام :  اس سورۃ کے رکوع ١٦ و ١٧ میں بعض انعام (مویشیوں) کی حرمت اور بعض کی حلت کے متعلق اہل عرب کے توہمات کی تردید کی گئی ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام ”اَلانعام“ رکھا گیا ہے۔


زمانہ نزول :


ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ پوری سورۃ مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی۔ حضرت معاذ بن جَبَل کی چچازاد بہن اسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ ”جب یہ سورۃ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہو رہی تھی اس وقت آپ اونٹنی پر سوار تھے، میں اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھی اور بوجھ کے مارے اونٹنی کا یہ حال ہو رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ہڈیاں اب ٹوٹ جائیں گی“۔ روایات میں اس کی بھی تصریح ہے کہ جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات کو آپ نے اسے قلمبند کرا دیا۔

اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مکی دور کے آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہوگی۔ حضرت اسماء بنت یزید کی روایت بھی اسی کی تصدیق کرتی ہے۔ کیونکہ موصوفہ انصار میں سے تھیں اور ہجرت کے بعد ایمان لائیں۔ اگر قبول اسلام سے پہلے محض بر بناء عقیدت وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مکہ حاضر ہوئی ہوں گی تو یقینًا یہ حاضری آپ کی مکی زندگی کے آخری سال ہی میں ہوئی ہوگی۔ اس سے پہلے اہل یثرب کے ساتھ آپ کے تعلقات اتنے بڑھے ہی نہ تھے کہ وہاں سے کسی عورت کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ممکن ہوتا۔ 


شان نزول :


”زمانہ نزول متعین ہوجانے کے بعد ہم بآسانی اس پس منظر کو دیکھ سکتے ہیں جس میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے۔ اس وقت اللہ کے رسول کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے بارہ سال گزر چکے تھے۔ قریش کی مزاحمت اور ستم گری و جفاکاری انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اسلام قبول کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ظلم و ستم سے عاجز آکر ملک چھوڑ چکی تھی اور حَبَش میں مقیم تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائد و حمایت کے لیے نہ ابو طالب باقی رہے تھے اور نہ حضرت خَدِیجہ، اس لیے ہر دنیوی سہارے سے محروم ہو کر آپ شدید مزاحمتوں کے مقابلہ میں تبلیغ رسالت کا فرض انجام دے رہے تھے۔ آپ کی تبلیغ کے اثر سے مکہ میں اور گرد و نواح کے قبائل میں بھی صالح افراد پے در پے اسلام قبول کرتے جا رہے تھے، لیکن قوم بحییثیت مجموعی ردو انکار پر تلی ہوئی تھی۔ جہاں کوئی شخص اسلام کی طرف ادنیٰ میلان بھی ظاہر کرتا تھا اسے طعن و ملامت، جسمانی اذیت اور معاشی و معاشرتی مقاطعہ کا ہدف بننا پڑتا تھا۔ اس تاریک ماحول میں صرف ایک ہلکی سی شعاع یثرب کی طرف نمودار ہوئی تھی جہاں سے اوس اور خزرج کے بااثر لوگ آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کرچکے تھے اور جہاں کسی اندرونی مزاحمت کے بغیر اسلام پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔ مگر اس حقیر سی ابتداء میں مستقبل کے جو امکانات پوشیدہ تھے انہیں کوئی ظاہر بیں آنکھ نہ دیکھ سکتی تھی۔ بظاہر دیکھنے والوں کو جو کچھ نظر آتا تھا وہ بس یہ تھا کہ اسلام ایک کمزور سی تحریک ہے جس کی پشت پر کوئی مادی طاقت نہیں، جس کا داعی اپنے خاندان کی ضعیف سی حمایت کے سوا کوئی زور نہیں رکھتا، اور جسے قبول کرنے والے چند مٹھی بھر بےبس اور منتشر افراد اپنی قوم کے عقیدہ و مسلک سے منحرف ہو کر اس طرح سوسائیٹی سے نکال پھینکے گئے ہیں جیسے پتے اپنے درخت سے جھڑ کر زمین پر پھیل جائیں ۔

مباحث :


ان حالات میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے اور اس کے مضامین کو سات بڑے بڑے عنوانات پر تقسیم کیا جا سکتا ہے :


(١) شرک کا ابطال اور عقیدہ توحید کی طرف دعوت،


(٢) عقیدہ آخرت کی تبلیغ اور اس غلط خیال کی تردید کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے،


(٣) جاہلیت کے ان توہمات کی تردید جن میں لوگ مبتلا تھے،


(٤) ان بڑے بڑے اصول اخلاق کی تلقین جن پر اسلام سوسائیٹی کی تعمیر کرنا چاہتا تھا،


(٥) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی دعوت کے خلاف لوگوں کے اعتراضات کا جواب،


(٦) طویل جدوجہد کے باوجود دعوت کے نتیجہ خیز نہ ہونے پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں کے اندر اضطراب اور دل شکستگی کی جو کیفیت پیدا ہو رہی تھی اس پر تسلی،


(٧) منکرین اور مخالفین کو ان کی غفلت و سرشاری اور نادانستہ خود کشی پر نصیحت، تنبیہ اور تہدید۔


لیکن خطبہ کا انداز یہ نہیں ہے کہ ایک ایک عنوان پر الگ الگ یکجا گفتگو کی گئی ہو۔ بلکہ خطبہ ایک دریا کی سی روانی کے ساتھ چلتا جاتا ہے اور اس کے دوران میں یہ عنوانات مختلف طریقوں سے بار بار چھڑتے ہیں اور ہر بار ایک نئے انداز سے ان پر گفتگو کی جاتی ہے۔


مکی زندگی کے ادوار :


یہاں چونکہ پہلی مرتبہ ناظرین کے سامنے ایک مفصل مکی سورۃ آرہی ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر ہم مکی سورتوں کے تاریخی پس منظر کی ایک جامع تشریح کردیں تاکہ آئندہ تمام مکی سورتوں کو، اور ان کی تفسیر کے سلسلہ میں ہمارے اشارات کو سمجھنا آسان ہوجائے۔


جہاں تک مدنی سورتوں کا تعلق ہے، ان میں سے تو قریب قریب ہر ایک کا زمانہ نزول معلوم ہے یا تھوڑی سی کاوش سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ ان کی تو بکثرت آیتوں کی انفرادی شان نزول تک معتبر روایات میں مل جاتی ہے۔ لیکن مکی سورتوں کے متعلق ہمارے پاس اتنے مفصل ذرائع معلومات موجود نہیں ہیں۔ بہت کم سورتیں یا آیتیں ایسی ہیں جن کے زمانہ نزول اور موقع نزول کے بارے میں کوئی صحیح و معتبر روایت ملتی ہو۔ کیونکہ اس زمانہ کی تاریخ اس قدر جزئی تفصیلات کے ساتھ مرتب نہیں ہوئی ہے جیسی کہ مدنی دور کی تاریخ ہے۔ اس وجہ سے مکی سورتوں کے معاملہ میں ہم کو تاریخی شہادتوں کے بجائے زیادہ تر ان اندرونی شہادتوں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جو مختلف سورتوں کے موضوع، مضمون اور انداز بیان میں، اور اپنے پس منظر کی طرف ان کے جلی یا خفی اشارات میں پائی جاتی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی شہادتوں سے مدد لے کر ایک ایک سورة اور ایک ایک آیت کے متعلق یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فلاں تاریخ کو، یا فلاں سنہ میں فلاں موقع پر نازل ہوئی ہے۔ زیادہ صحت کے ساتھ جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک طرف ہم مکی سورتوں کی اندرونی شہادتوں کو، اور دوسری طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی کی تاریخ کو آمنے سامنے رکھیں اور پھر دونوں کا تقابل کرتے ہوئے یہ رائے قائم کریں کہ کون سی سورۃ کس دور سے تعلق رکھتی ہے۔


اس طرز تحقیق کو ذہن میں رکھ کر جب ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ دعوت اسلامی کے نقطہ نظر سے ہم کو چار بڑے بڑے نمایاں ادوار پر منقسم نظر آتی ہے :


پہلا دور، آغاز بعثت سے لے کر اعلان نبوت تک، تقریبًا ٣ سال، جس میں دعوت خفیہ طور سے خاص خاص آدمیوں کو دی جارہی تھی اور عام اہل مکہ کو اس کا علم نہ تھا۔


دوسرا دور، اعلان نبوت سے لے کر ظلم و ستم اور فتنہ (Persecution) کے آغاز تک، تقریبًا ٢ سال، جس میں پہلے مخالفت شروع ہوئی، پھر اس نے مزاحمت کی شکل اختیار کی، پھر تضحیک، استہزاء، الزامات، سب و شتم، جھوٹے پروپیگنڈا اور مخالفانہ جتھہ بندی تک نوبت پہنچی، اور بالآخر ان مسلمانوں پر زیادتیاں شروع ہوگئیں جو نسبتًہ زیادہ غریب، کمزور اور بےیار و مددگار تھے۔


تیسرا دور، آغاز فتنہ (سن ٥ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے لے کر ابو طالب اور حضرت خدیجہ (رض) کی وفات (سن ١٠ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تک، تقریبًا پانچ چھ سال۔ اس میں مخالفت انتہائی شدت اختیار کرتی چلی گئی، بہت سے مسلمان کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبش کی طرف ہجرت کر گئے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے خاندان اور باقی ماندہ مسلمانوں کا معاشی و معاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور آپ اپنے حامیوں اور ساتھیوں سمیت شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے۔


چوتھا دور، سن ١٠ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر سن ١٣ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تقریبًا ٣ سال۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے لیے انتہائی سختی و مصیبت کا زمانہ تھا۔ مکہ میں آپ کے لیے زندگی دوبھر کر دی گئی تھی، طائف گئے تو وہاں بھی پناہ نہ ملی، حج کے موقع پر عرب کے ایک ایک قبیلہ سے آپ اپیل کرتے رہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دے مگر ہر طرف سے کو را جواب ہی ملتا رہا۔ اور ادھر اہل مکہ بار بار یہ مشورے کرتے رہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیں یا قید کردیں یا اپنی بستی سے نکال دیں۔ آخر کار اللہ کے فضل سے انصار کے دل اسلام کے لیے کھل گئے اور انکی دعوت پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔


ان میں سے ہر دور میں قرآن مجید کی سورتیں نازل ہوئی ہیں۔ وہ اپنے مضامین اور انداز بیان میں دوسرے دور کی سورتوں سے مختلف ہیں۔ ان میں بکثرت مقامات پر ایسے اشارات بھی پائے جاتے ہیں جن سے پس منظر کے حالات اور واقعات پر صاف روشنی پڑتی ہے۔ ہر دور کی خصوصیات کا اثر اس دور کے نازل شدہ کلام میں بہت بڑی حد تک نمایاں نظر آتا ہے۔ انہی علامات پر اعتماد کر کے ہم آئندہ ہر مکی سورۃ کے دیباچہ میں یہ بتائیں گے کہ وہ مکہ کے کس دور میں نازل ہوئی ہے۔

(تفہیم القرآن جلد اول ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )