سورۃ الاعراف : زمانہ نزول اور مباحث - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


نام : اس سورۃ کا نام اعراف اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کی آیات ٤٦۔ ٤٧ میں اعراف اور اصحاب کا ذکر آیا ہے۔ گویا اسے”سورہ اعراف“ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ”وہ سورۃ جس میں اعراف کا ذکر ہے۔“

زمانہ نزول :


اس کے مضامین پر غور کرنے سے بیّن طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول تقریباً وہی ہے جو سورۃ انعام کا ہے۔ یہ بات تو یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ یہ پہلے نازل ہوئی ہے یا وہ۔ مگر انداز تقریر سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ہے یہ اسی دور سے متعلق۔ لہذٰا اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے کے لیے اس دیباچہ پر ایک نگاہ ڈال لینا کافی ہوگا جو ہم نے سورۃ انعام پر لکھا ہے ۔

مباحث :


اس سورۃ کی تقریر کا مرکزی مضمون دعوت رسالت ہے ساری گفتگو کا مدّعا یہ ہے کہ مخاطبوں کو خدا کے فرستادہ پیغمبر کی پیروی اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ لیکن اس دعوت میں انذار (تنبیہ اور ڈراوے) کا رنگ زیادہ نمایا پایا جاتا ہے، کیونکہ جو لوگ مخاطب ہیں، (یعنی اہل مکّہ) انہیں سمجھاتے سمجھاتے ایک طویل زمانہ گزر چکا ہے اور ان کی گراں گوشی، ہٹ دھرمی اور مخالفانہ ضد اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ عنقریب پیغمبر کو ان سے مخاطبہ بند کر کے دوسروں کی طرف رجوع کرنے کا حکم ملنے والا ہے۔ اس لیے تفہیمی انداز میں قبول رسالت کی دعوت دینے کے ساتھ ان کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جو روش تم نے اپنے پیغمبر کے مقابلہ میں اختیار کر رکھی ہے ایسی ہی روش تم سے پہلے کی قومیں اپنے پیغمبروں کے مقابلہ میں اختیار کر کے بہت برا انجام دیکھ چکی ہیں۔ پھر چونکہ ان پر حجت تمام ہونے کے قریب آگئی ہے اس لیے تقریر کے آخری حصّہ میں دعوت کا رخ ان سے ہٹ کر اہل کتاب کی طرف پھر گیا ہے اور ایک جگہ تمام دنیا کے لوگوں سے عام خطاب بھی کیا گیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اب ہجرت قریب ہے اور وہ دور جس میں نبی کا خطاب تمام تر اپنے قریب کے لوگوں سے ہوا کرتا ہے، خاتمہ پر آلگا ہے۔


دوران تقریر میں چونکہ خطاب کا رخ پہود کی طرف بھی پھر گیا ہے اس لیے ساتھ ساتھ دعوت رسالت کے اس پہلو کو بھی واضح کردیا گیا ہے کہ پیغمبر پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ منافقانہ روش اختیا کرنے، اور سمع و طاعت کا عہد استوار کرنے بعد اسے توڑ دینے، اور حق اور باطل کی تمیز سے واقف ہوجانے کے بعد باطل پرستی میں مستغرق رہنے کا انجام کیا ہے۔


سورہ کے آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو حکمت تبلیغ کے متعلق چند اہم ہدایات دی گئی ہیں اور خصوصیّت کے ساتھ انہیں نصیحت کی گئی ہے کہ مخالفین کی اشتعال انگیزیوں اور چیرہ دستیوں کے مقابلہ میں صبر و ضبط سے کام لیں اور جذبات کے ہیجان میں مبتلا ہو کر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو اصل مقصد کو نقصان پہنچانے والا ہو ۔

(تفہیم القرآن جلد دوم ، مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ )