61۔ سورہ الصف : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔سورہ کا عمو د اور اس کا خطاب

اس سورۃ میں خطاب ان مسلمانوں سے ہے جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سمع و طاعت کا عہد کر چکنے کے بعد اللہ کی راہ میں جہاد سے جی چرا رہے تھے، ان کو متنبہ فرمایا ہے کہ اگر عہد اطاعت میں داخل ہو چکنے کے بعد تمہاری روش یہی رہی تو یاد رکھو کہ تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو یہود کا ہوا۔ انہوں نے اطاعت کا عہد کر چکنے کے بعد قدم قدم پر اپنے پیغمبر، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی۔ اس کج روی کی سزا ان کو یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل اس طرح کج کر دیے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہدایت سے محروم ہوگئے، چنانچہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس آخری نبی کی بشارت لے کر آئے اور نہایت کھلے ہوئے معجزات دکھائے تو انہوں نے سارے معجزات کو جادو قرار دیا اور ان کو جھٹلا دیا اور اب وہ اسلام کی مخالفت کے درپے ہیں حالانکہ اسلام انکے اور مشرکین دونوں کے علی الرغم، اس سر زمین کے تمام ادیان پر غالب آ کے رہے گا۔ اس کے بعد اس صحیح روش کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جو مسلمانوں کو اختیار کرنی چاہیے اور جو اس عہد کا لازمی تقاضا ہے جو اللہ کے رسول سے انہوں نے کیا ہے۔ ساتھ ہی ان کو اس فتح عظیم کی بشارت دی ہے جو مستقبل قریب میں حاصل ہونے والی ہے اگر وہ اس عہد پر مضبوطی سے قائم رہے۔ آخر میں ان کے سامنے ان لوگوں کا نمونہ رکھا ہے جنہوں نے حق کی طرف سبقت اور اس کی تائید و رفاقت کی نہایت اعلیٰ مثال قائم کی اور دعوت دی ہے کہ پیروی کے قابل نمونہ ان کا ہے نہ کہ یہود کا جو ہمیشہ کے لیے اللہ کی ہدایت سے محروم ہوئے ۔

ب۔ سابق سورتوں سے تعلق

غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جس طرح پچھلی مدنی سورتوں میں منافقین کا کردار بحث رہا ہے اس طرح اس سورۃ میں بھی انہی کے ایک گروہ کا کردار زیر بحث ہے۔ بس یہ فرق ہے کہ پچھلی سورتوں میں جن منافقین سے بحث ہے وہ اپنے نفس کی داخلی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ خارجی بندھنوں میں گرفتار تھے لیکن اس سورۃ اور اس کے بعد کی مدنی سورتوں میں ان منافقین سے بحث ہے جن کی کمزوریاں بیشتر داخلی ہیں۔ مثلاً اس سورۃ میں اور اس کے بعد سورۂ جمعہ میں جو اس کے مثنی کی حیثیت رکھتی ہے۔ حب مال و جان کی بیماری کی نشان دہی کی گئی ہے اور اس کو ان کے نفاق کا سبب بتایا گیا ہے۔ ساتھ ہی ان کے علاج کی تدابیر کی نشان دہی بھی فرمائی گئی ہے ۔
ج۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(١۔ ٤)۔ سورۃ کی تمہید جس میں ان لوگوں کو تنبیہ ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سمع و طاعت کا عہد کر چکنے کے باوجود اللہ کی راہ میں جہاد سے جی چرا رہے تھے۔ ان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ روش زیادہ مبغوض ہے کہ آدمی وفاداری کا عہد کرچکنے کے بعد اس سے فرار اختیار کرے۔ اس کو محبوب وہ بندے ہیں جو اس کے ساتھ باندھے ہوئے عہد کی خاطر جب وقت آئے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح صف بستہ ہو کر سرگرم پیکار ہوں ۔
(٥۔ ٩) ایمان و اطاعت کا عہد کر چکنے کے بعد جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد سے جی چراتے ہیں وہ در حقیقت یہود کے نقش قدم کے پیرو ہیں۔ وہ اسی انجام سے دو چار ہوں گے جس سے بہبود ہوئے۔ انہوں نے اپنے نبی کے ساتھ یہی روش اختیار کی۔ اطاعت کا عہد بڑے جوش و خروش سے کرتے لیکن جب امتحان کا وقت آتا تو بالکل پھسڈی ثابت ہوتے۔ ان کے اس رویہ کا شکوہ حضرت موسیٰ نے بڑے سوزددرد کے ساتھ کیا لیکن وہ اس روش سے باز نہ آئے۔ اس کج روی کی سزا اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق ان کو یہ دی کہ ان کے دل کج کر دیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہدایت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ چنانچہ ان کی یہی کج روی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے معاملے میں بھی ظاہر ہوئی۔ آپ کا ظہور تورات کی پشین گوئیوں کے مطابق ہوا۔ آپ نے نہایت شاندارمعجزے دکھائے اور دنیا کے آخری ہادی کے ظہور کی نہایت واضح الفاظ میں بشارت دی لیکن یہود کے دل اس قدر کج ہوچکے تھے کہ انہوں نے آپ کے سارے معجزات کو جادو کا کرشمہ بتایا اور آپ کی تکذیب کر دی اور اب اپنے جھوٹ اور افترار کے بل پر اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں، حالانکہ ان کی یہ ساری خاکبازی لا حاصل ہے۔ اسلام اللہ کا نور ہے اس کو یہ اپنے مونہوں کی پھونک سے نہیں بجھا سکتے وہ ان کے اور مشرکین دونوں کے علی الرغم تمام دلیوں پر غالب آ کر رہے گا ۔

(١٠۔ ١٣) کمزور مسلمانوں کو صحیح راہ اختیار کرنے کی تلقین کہ اب یہ تذبذب اور منافقت کی روش چھوڑ و۔ اللہ اور اس کے رسول پر سچا اور پکا ایمان لائو۔ دین کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو۔ قوز و فلاح کی راہ یہی ہے بشرطیکہ سمجھو۔ اگر یہ راہ اختیار کرو گے تو آخرت کی فلاح بھی حاصل ہوگی جو اصل کامیابی ہے اور اس دنیا میں بھی اللہ کی اس نصرت اور اس عنقریب ظاہر ہونے والی فتح سے سرفراز ہوگئے جس کی تمنا رکھتے ہو۔ (١٤) آخر میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے حواریین کی پیروی کی دعوت ہے۔ ابتداء میں یہود کی تقلید سے روکا ہے یہ آخر میں ان حق پرستوں کی پیروی پر ابھارا ہے جن کی سبقت الی الخیر سے اس فتح مندی کی راہ کھلی جو بالآخر اہل ایمان کے غلبہ پر منتہی ہوئی ۔