59۔ سورۃ الحشر : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

سابق سورۃ۔ المجادلۃ۔۔ میں فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں وہ بالآخرذلیل و خوار ہو کے رہیں گے، غلبہ اللہ اور اسکے رسولوں کے لیے ہے، اس سورۃ میں اسی دعوے کو بعض واقعات سے مبرہن فرمایا ہے جو اس دوران میں پیش آئے اور منافقوں کو آگاہ کیا ہے کہ اگر وہ آنکھیں رکھتے ہیں تو ان واقعات سے سبق لیں کہ جن دشمنوں کو وہ نا قابل تسخیر خیال کیے بیٹھے تھے اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو اجاڑ کر جلا وطنی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے اور ان کے حامیوں میں سے کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہ بنا۔ پوری سورۃ میں خطاب منافقین ہی سے ہے۔ آخر میں یہ بات بھی ان پر واضح فرما دی گئی ہے کہ ان کے شبہات و شکوک دور کرنے اور ان کے دلوں کے اندر گداز پیدا کرنے کے لیے اس قرآن میں اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ نازل کردیا جو ضروری ہے۔ اگر یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتارا جاتا تو وہ بھی اللہ کی خشیت سے پاش پاش ہوجاتا۔ اگر یہ تمہارے دلوں پر اثر انداز نہیں ہو رہا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں اور تم سزا وار ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ وہی معاملہ کرے جو تمہارے جیسے سنگ دلوں کے ساتھ وہ کیا کرتا ہے ۔

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

(١۔ ٤) یہود بنی نضیر کی جلا وطنی کی طرف اشارہ نقض عہد اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کی سازش کے جرم میں ان کو ان کے گھروں سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ پہلے تو وہ اس کی تعمیل پر راضی ہوگئے لیکن بعد میں اپنے بعض حلیفوں کو شہ مل جانے سے وہ اکڑ گئے۔ بالآخر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوج کشی کی اور ان کو جلا وطن ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان کو یہ اجازت دی گئی کہ اپنے جو سامان وہ اونٹوں پر لے جا سکتے ہیں لے جائیں، چنانچہ جو کچھ وہ لے جا سکے لئے گئے۔ بقیۃ سامان پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا۔ یہ لوگ جلا وطن ہو کر خیبر چلے گئے۔ یہ واقعہ ٤ ھ میں پیش آیا۔ منافقین کو اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ تم سمجھتے تھے کہ ان کو نکالا نہیں جا سکتا حالانکہ یہ نکلے اور اسی طرح نکلے کہ اپنے بنے ہوئے گھروں کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں اجاڑا۔ اللہ کے رسول کے مخالفین کا یہی حشر ہوا کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے ان کا سہارا لینے کی کوشش کی تو یہ اجڑے گھر کی دربانی ہوگی اور تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو ان کا ہوا ۔
(٥۔ ۔۔ ١) ایک جملہ معترضہ جس میں برسر موقع یہود اور منافقین کے بعض اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ جو انہوں نے بنی نضیر کے باغوں کے اجاڑنے اور اموال نے تقسیم سے متعلق اٹھائے نیز انصار اور مہاجرین کے اس سیر چشمانہ رویہ کی تحسین فرمائی گئی ہے جو منافقین کے برعکس انہوں نے اسوال فے کے معاملے میں اختیار کیا۔ (١١۔ ١٧) منافقین کی ایک اور شرارت کی طرف اشارہ، انہوں نے بنی نضیر کے جلا وطن ہوجانے کے بعد بنو قریظہ کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کر دی کہ ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہیں۔ اگر بنی نضیہ کی طرح آپ لوگ بھی نکالے گئے تو ہم بھی آپ کے ساتھ نکلیں گے اور اگر آپ پر حملہ ہوا تو ہم آپ کے ساتھ ہوکر لڑیں گے۔ قرآن نے آگاہ کیا کہ یہ محض زبان کے سو رہا ہیں نہ نکلنے میں ساتھ دینے والے ہیں نہ لڑنے میں۔ یہ وہی کریں گے جو شیطان کیا کرتا ہے کہ مجرم کو جرم پر ابھارتا ہے اور جب وہ جرم کر بیٹھتا ہے تو وہ اس سے برأت کا اعلان کر کے الگ ہوجاتا ہے۔ اگر ان کی شہ پر بنو قریظہ بھی نقص عہد کر بیٹھے تو ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو بنی نضیر کاہو چکا ہے۔ ۔
(١٨۔ ٢٤ ) خاتمہ سورۃ جس میں مسلمانوں کو عام طور اور منافقین کو خاص طور پر تنبیہ ہے کہ ہر وقت آخرت کو یاد رکھو۔ ان لوگوں کی طرح نہ بن جائو جو خدا کو بھلا کر اپنے مقصد وجود اور اپنے انجام سے غافل ہو بیٹھے۔ دوزخ والوں اور جنت والوں میں بڑا فرق ہوگا۔ اس فرق کو کوئی معمولی فرق گمان کر کے اس کو نظر انداز نہ کرو۔ آسمان و زمینکی کامیابی صرف اہل جنت کا حصہ ہوگی۔ یہ بھی یاد رکھو کہ تم پر اتمام حجت کے معاملے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی گئی ہے۔ یہ قرآن وہ چیز ہے کہ کسی پہاڑ پر بھی اتارا جاتا تو وہ خشیت الٰہی سے پا ش پاش ہوجاتا۔ اگر تمہارے دل اس سے اثر پذیر نہیں ہو رہے ہیں تو یہ قرآن کا قصور نہیں بلکہ تمہارے دلوں کا قصور ہے کہ وہ پتھروں سے بھی سخت ہیں۔ آخر میں اسمائے الٰہی کا حوالہ تاکہ اہل ایمان میں ان کے ذکر سے کامل تفویض و تسلیم، ضعفاء میں عزم و توکل اور منافقین کے اندر خوف و خشیت پیدا ہو، پھر سورۃ کا خاتمہ اسی آیت پر ہوا ہے جس سے اس کا آغاز ہوا ۔