60۔ سورۃ الممتحنہ : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

پچھلی سورتوں میں منافقین کو اہل کتاب، بالخصوص یہود سے قطع تعلق کا حکم دیا گیا ہے اور یہ منافقین تھے بھی، جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں، بیشتر اہل کتاب ہی میں سے ہے۔ اس سورۃ میں مشرکین مکہ سے قطع تعلق کا حکم دیا گیا ہے اور خطاب خاص طور پر ان لوگوں سے ہے جو اسلام میں داخل بھی تھے اور دین کی خاطر انہوں نے ہجرت بھی کی تھی لیکن اہل مکہ سے رشتہ و برادری کے جو تعلقات تھے۔ اس کی زنجیریں ابھی انہوں نے نہیں تھوڑی تھیں اس وجہ سے امتحان کے مواقع پر ان سے ایسی کمزوریاں صادر ہوجاتیں جو ایمان و اخلاص کے منافی ہوتیں۔ گویا نفاق کی بیخ کنی یا تطہیر مومنین جو تمام مسجات کا مشترک مضمون ہے وہی مضمون اس سورۃ کا بھی ہے۔ بس یہ فرق ہے کہ اس میں روئے سخن ان مسلمانوں کی طرف ہے جنہوں نے ہجرت تو کی لیکن ہجرت کی اصل ابراہیمی حقیقت ابھی ان پر اچھی طرح واضح نہیں ہوئی تھی۔ ان کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوۂ حسنہ کی یاددہانی فرمائی گئی ہے کہ اگر ہجرت کی برکات سے متمتع ہونا چاہتے ہو تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح اپنے سابق ماحول سے ہر قسم کا تعلق منقطع کر کے کلیۃً اللہ اور رسول سے وابستہ ہو جائو ۔

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

(١۔ ٣) جو کمزور مسلمان ہجرت کے بعد مشرکین مکہ سے خفیہ روابط موذت قائم رکھے ہوئے تھے۔ ان کو تنبیہ کہ جنہوں نے تم کو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے گھروں سے اس جرم میں نکالا ہے کہ تم اللہ پر ایمان لائے اس نے محبت کی پینگیں نہ بڑھائو۔ تم تو ان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہو اور ان کا حال یہ ہے کہ اگر ان کا قابو تم پر چل جائے تو ان کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ جس طرح بھی ممکن ہو وہ تم کو مرتد کر کے چھوڑیں یاد رکھو کہ اپنے عزیز انہ تعلقات کی پاسداری میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بے وفائی کرو گے تو قیامت کے دن یہ رشتے تمہارے کام آنے والے نہیں بنیں گے اس دن تمام رشتے ناتے ختم ہوجائیں گے ۔
(٤۔ ٧) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ ہجرت کی یاددہانی اور اس سے سبق حاصل کرنے کی ہدایت کہ وہ اپنی پوری قوم سے اپنی ابدی بیزاری کا اعلان کر کے اٹھے کہ جب تک تم لوگ اللہ واحد پر ایمان نہ لائو گے اس وقت تک میرا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس ضمن میں اس دعائے ابراہیمی کی تلقین جو انہوں نے ہجرت کی آزمائشوں میں ثابت قدمی کے لیے فرمائی اور اس امر کی بشارت کہ کیا عجب کہ جن لوگوں سے تم کو آج قطع علائق کا حکم دیا جا رہا ہے وہ کل اسلام سے مشرف ہو کر تم سے گلے ملیں ۔

(٨۔ ٩) اس امر کی وضاحت کہ ممانعت ان لوگوں کے ساتھ دوستی بڑھانے کی کی جا رہی ہے جنہوں نے تمہارے ساتھ جنگ کی ہے اور رسول کو اور تم کو تمہارے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنے کی ممانعت نہیں کی جا رہی ہے جنہوں نے اس طرح کی کوئی زیادتی نہیں کی ہے۔ (١٠۔ ١١) ان عورتوں کے باب میں جو مکہ سے ہجرت کر کے آئیں یہ ہدایت کہ فجرد اس بناء پر کہ وہ آگئی ہیں، ان کو اپنے اندر شامل نہ کرلیا جائے بلکہ ان کے ایمان و اسلام کی تحقیق کی جائے۔ جب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ فی الواقع انہوں نے اسلام ہی کی خاطر ہجرت کی ہے تب ان کو اپنے اندر شامل کیا جائے۔ اسی طرح جو مشرکات مسلمانوں کے عقد میں ہیں ان کو بھی اپنے عقد میں باندھے رکھنا جائز نہیں ہے بلکہ وہ آزاد کر دی جائیں اور آپس میں مہروں کا تبادلہ کرلیا جائے ۔

(١٢) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی کہ آپ کے پاس جوعورتیں اسلام کی خاطر آئیں اور خالص اسلامی زندگی بسر کرنے کا عہد کریں، ان سے بیعت لے لیا کریں ۔
(١٣) آخر میں مسلمانوں کو تنبیہ کو نہ یہود سے دوستی بڑھائو نہ کفار سے، ان دونوں کا حشر ایک ہی ہے، ان کی بنیادیں بالکل کھوکھلی ہوچکی ہیں ۔