58۔ سورۃ المجادلۃ : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

 ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

سابق سورۃ کا خاتمہ اہل کتاب کے اس اعتراض کے جواب پر ہوا ہے جوانہوں نے جہاد کے خلاف اٹھایا۔ اس اعتراض سے تعرض کی ضرورت ظاہر ہے کہ اس وجہ سے پیش آئی کہ مخالفین کے یہ اعتراضات منافقین اٹھالیتے اور پھر ان کو چپکے چپکے مسلمانوں کے اندر پھیلانا شروع کردیتے کہ ان کے عقیدہ کو متزلزل اور ان کے جوش جہاد کو سرد کریں۔ اس سورۃ کے زمانہ نزول میں معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کی یہ سرگرمیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ یہ صورت حال داعی ہوئی کہ اس خفیہ پر اپیگنڈا کا سد باب کیا جائے چنانچہ اس سورۃ میں منافقین کی اس طرح کی حرکتوں پر نہایت شدت کے ساتھ گرفت بھی کی گئی اور اس کی سد باب کے لیے بعض ضروری تدبیریں احتیاط کرنے کی بھی مسلمانوں کو ہدایت فرمائی گئی۔ ساتھ ہی ایک نہایت موثر عملی مثال سے یہ سبق بھی لوگوں کو دیا گیا کہ اگر کسی کو اسلام کے سبب سے زندگی میں کوئی مشکل پیش آئے تو اس کو نہایت خلوص کے ساتھ اللہ و رسول کے سامنے عرض کرے۔ امید ہے کہ اس کی مشکل حل ہونے کی کوئی راہ اللہ تعالیٰ کھول دے گا۔ رہے وہ لوگ جو کسی فرضی یا واقعی مشکل کو بہانہ بنا کر اسلام کے خلاف پر اپیگنڈے کی مہم شروع کر دیتے ہیں وہ در حقیقت اللہ اور رسول کے خلاف محاذجنگ کھولنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ یاد رکھیں کہ وہ ذلیل ہو کے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ غلبہ اور سرفرازی صرف اللہ اور اسکے رسولوں کے لیے ہے ۔

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

(١۔ ٤) ایک مومنہ کے ایک واقعہ کا حوالہ جس کو دین کے معاملہ میں ایک نہایت سخت مشکل پیش آئی لیکن اس نے دین سے بدگمان و مایوس ہونے کے بجائے اپنی مشکل، نہایت خلوص و اعتماد کے ساتھ، اللہ و رسول کے سامنے پیش کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی مشکل حل کرنے کی راہ کھول دی اور لوگوں کے سامنے اس کے اس مومنانہ اور شائستہ طریقہ کو بطور مثال پیش کیا کہ دین کے سبب سے کوئی مشکل کسی کو پیش آئے تو اس کے حل کا صحیح طریقہ یہ ہے نہ کہ وہ جو منافقین نے اختیار کیا ہے کہ شریعت کی جس بات کو اپنے نفس پر گراں محسوس کرتے ہیں اس کو اللہ و رسول کے خلاف خفیہ معاندانہ پر اپیگنڈے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں ۔
(٥۔ ٨) ان لوگوں سے اظہار بیزاری جو اللہ و رسول پر اعتماد کرنے کے بجائے دین کے خلاف محاذ آرائی میں سرگرم تھے۔ برابر دین کے خلاف پر اپیگنڈا اور سرگوشیاں کرتے پھرتے، رسول کی توہین کرتے اور اللہ کی ڈھیل کو اپنے رویہ کی صحت کی دلیل سمجھے بیٹھے تھے، ان کو متنبہ فرمایا گیا کہ یہ دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے جس کی شہادت تاریخ میں موجود ہے اور آخرت میں بھی ان کا حصہ جہنم ہے جو ساری کسر پوری کر دے گی ۔
(٩۔۔۔ ١٠) مسلمانوں کو گناہ، تعدی اور رسول کے خلاف سرگوشی کی ممانعت اور نیکی و پرہیز گاری کے لیے سرگوشی کی ہدایت، ساتھ ہی یہ اطمینان دہانی کہ منافقین ان کے خلاف جو سرگوشیاں کرتے پھر رہے ہیں ان کو وہ خاطر میں نہ لائیں، اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کسی کی سرگوشی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اہل ایمان کے شایان شان رویہ یہ ہے کہ اس طرح کی باتوں سے مبتلائے رنج و تشویش ہونے کے بجائے اپنے رب پر بھروسہ رکھیں۔ اللہ مفسدین کے شر سے ان کو محفوظ رکھے گا ۔
(١١۔ ١٢) مجلس نبوی کے آداب و احترام کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت اور اس کو نجوسی کی جگہ بنانے کی ممانعت ساتھ ہی نجوی کی بڑھتی ہوئی بیماری کو روکنے کے لیے مجلس نبوی سے متعلق بعض ہنگامی احکام کا اعلان۔ (٣١)۔ ہنگامی ضرورت پوری ہوجانے کے بعد وقتی حکم کی منسوخی کا اعلان اور اس امر کی ہدایت کہ عبادات میں سے ان چیزوں کا خاص طور پر اہتمام کیا جائے جو اس بیماری کے سدباب کے لیے نافع ہیں جس کے لیے ہنگامی قانون نافذ کیا گیا تھا ۔
(٤١، ٢٢ )۔ منافقین کے اصل مرکز وفاداری کی نشان دہی کہ وہ اللہ کے مغضوب یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ یہ محض اپنے قول اور اپنی قسموں کے بل پر مسلمانوں کے ساتھ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے دل اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ہیں، یہ مال و اولاد کی محبت میں گرفتار ہیں۔ شیطان نے ان کو اللہ کے خوف اور اس کی یاد سے غافل کردیا ہے اور یہ اس کی پارٹی میں شامل ہو کر اللہ کے رسول کے خلاف محاذ آرائی میں سرگرم ہیں۔ یہ لوگ بالآخر نامراد ہوں گے۔ اللہ کا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ غلبہ اللہ اور اس کے رسولوں کے لیے ہے۔ سچے اہل ایمان صرف وہی ہیں جو اللہ و رسول کے دشمنوں سے خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی اور اہل قبیلہ ہی کیوں نہ ہوں، بالکل قطع علائق کرلیں اللہ انہی لوگوں سے راضی ہے۔ یہی اللہ کی پارٹی ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں ۔