62۔ سورۃ الجمعۃ : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

سورۂ صف اور سورۂ جمعہ کے عمود میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ صرف اسلوب بیان اور نہج استدلال دونوں کے الگ الگ ہیں۔ سابق سورۃ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیشین گوئی کاحوالہ ہے۔ اس میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی طرف اشارہ ہے۔ بنی اسماعیل کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ان کو جس عظیم نعمت سے نوازا ہے اس کی قدر کریں۔ یہودیوں کی حاسدانہ سازشوں کا شکار ہو کر اپنے کو اس فضل عظیم سے محروم نہ کر بیٹھیں۔ اسی ذیل میں مسلمانوں کے ایک گروہ کو ملامت فرمائی ہے کہ اس نے دنیوی کاروبار کے طمع میں جمع اور رسول کا احترام ملحوظ نہیں رکھا۔ اگر تجارت کی طمع لوگوں کو جمعہ کے احترام اور رسول کی موعظت سے زیادہ عزیز ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس بیع و شراء کی حقیقت نہیں سمجھی جو وہ اپنے رب سے کرچکے ہیں (جس کا ذکر سابق سورۃ میں ہوچکا ہے) ساتھ ہی اس ناقدری کے انجام سے بھی آگاہ فرمایا ہے کہ یہ روش اختیار کر کے یہود اللہ کی شریعت سے محروم ہوگئے۔ مسلمان فلاح چاہتے ہیں تو ان کی تقلید سے بچیں ۔

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

(١۔ ٤) بنی اسماعیل کو یہ یاددہانی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر جو رسول مبعوث فرمایا وہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا مظہر ہے۔ یہ ایک عظیم فضل ہے جو اللہ نے تم کو جاہلیت کی تاریکی سے نکالنے کے لیے تم پر فرمایا ہے۔ اس نعمت عظمی کی قدر کرو، یہودیوں کی حاسدانہ سازشوں کے شکار ہو کر ان کی تمنا بر آنے کا سامان نہ کرو۔ (٥۔ ٨) یہو د کے اس دعوے کی تردید کہ وہ اللہ کی برگزیدہ امت ہیں، ان کے سوا کوئی اور قوم نبوت و رسالت کے شرف کی حق دار نہیں ہو سکتی۔ ان کی ان نالائقیوں کی طرف اشارہ جن کے سبب سے وہ اللہ کی ہدایت سے محروم اور امامت کے منصب سے معزول ہوئے ۔

(٩۔ ١١) مسلمانوں کی ایک غلطی پر جو جمعہ اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطبہ کے احترام کے معاملے میں، کچھ لوگوں سے صادر ہوئی، گرفت۔ اگرچہ یہ غلطی بظاہر معمولی نظر آتی ہے لیکن اس نے ایک بہت بڑی کمزوری کی نشان دہی کی تھی کہ ابھی مسلمانوں کے ایک گروہ نے دین کی اس حقیقت کو نہیں سمجھا کہ جو شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت و جنت کے عوض اپنی جان اور اپنے مال کو فروخت کر کا ہوتا ہے۔ یہ بات اس کے ایمان کے منافی ہے کہ کسی اور دنیوی کا روبار کی طمع اس کو اللہ اور رسول سے بے پروا کر دے۔ یہ یہود کے نقش قدم کی پیروی ہے جس سے مسلمانوں کو سابق سورۃ میں روکا گیا ہے۔ یہود نے اسی طرح کی غلطی کا ارتکاب سبقت کے معاملہ میں کیا تو اللہ نے ان پر لعنت کر دی ۔