2۔ سورۃ البقرہ : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود :۔ اس سورۃ کا مرکزی مضمون دعوت ایمان ہے۔ ایمان کی طرف اشارہ تو، جیسا کہ ہم نے بیان کیا، سورۃ فاتحہ میں بھی ہوچکا ہے لیکن وہ اجمالی ایمان ہے جو جذبہ شکر کی تحریک اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و رحمت کی نشانیوں کے مشاہدہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سورۃ میں اس اجمال نے تفصیل کا رنگ اختیار کرلیا ہے۔ اس میں نہایت واضح طور پر قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ گویا سورۃ فاتحہ میں ایمان باللہ کا ذکر ہے اور سورۃ بقرہ میں ایمان بالرسالت کا۔ ایمان کی اصلی حقیقت ایمان بالرسالت ہی سے وجود پذیر ہوتی ہے۔ اگر ایمان بالرسالت موجودنہ ہو تو مجرد ایمان باللہ ہماری زندگی کو اللہ کے رنگ میں نہیں رنگ سکتا۔ زندگی پر اللہ کا رنگ اسی وقت چڑھتا ہے جب ایمان باللہ کے ساتھ ساتھ ایمان بالرسالت بھی پایا جائے۔ ایمان بالرسالت پیدا ایمان باللہ ہی سے ہوتا ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پہلی چیز اس دوسری چیز ہی کا ایک بالکل فطری نتیجہ ہے۔ ایمان باللہ سے بندہ کے اندر خدا کی ہدایت کے لیے ایک پیاس اور ایک تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ یہی پیاس اور تڑپ ہے جس کا اظہار سورۃ فاتحہ میں "اھدنا الصراط المستقیم" کی دعا سے ہورہا ہے۔ اسی دعا کے جواب میں یہ سورۃ بقرہ قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی دعوت دے رہی ہے۔ گویا بندے کو بتایا جا رہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی بندگی کے حق کو تسلیم کرچکنے کے بعد اس کے راستہ کی تلاش ہے تو اس کتاب پر اور اس رسول پر ایمان لآ جس پر یہ کتاب اتری۔ اس حقیقت کی روشنی میں اگر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ سورۃ فاتحہ اگرچہ بظاہر ایک نہایت چھوٹی سی سورۃ ہے، لیکن فی الحقیقت وہ ایک نہایت ہی عظیم الشان سورۃ ہے۔ کیونکہ اس کے تنے سے پہلی ہی شاخ جو پھوٹی ہے وہی اتنی بڑی ہے کہ ہماری ساری زندگی پر حاوی ہوگئی ہے۔ اس سے ہماری اس بات کی تصدیق ہوتی ہے جس کی طرف ہم نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں اشارہ کیا ہے کہ پورا قرآن درحقیقت اسی سورۃ فاتحہ کے تخم سے پیدا ہوا ہے اور یہ اسی شجرہ طیبہ کے برگ و بار ہیں جو قرآن کے پورے تیس پاروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ب۔ سورۃ میں خطاب :۔ اس سورۃ میں اصل خطاب تو یہود سے ہے۔ لیکن ضمناً اس میں جگہ جگہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو، مسلمانوں کو، اور بنی اسمعیل کو بھی مخاطب کیا گیا ہے۔ یہود کو مخاطب کر کے ان کے ان تمام مزعومات و توہمات کی تردید کی گئی ہے جن کے سبب سے وہ اپنے آپ کو پیدائشی حقدارِ امامت و سیادت سمجھے بیٹھے تھے اور کسی ایسے نبی پر ایمان لانا اپنی توہین سمجھتے تھے جو ان کے خاندان سے باہر امی عربوں میں پیدا ہوا ہو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے جگہ جگہ آپ کو صبر و استقامت کی نصیحت کی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت جو دعا کی تھی آپ اس دعا کے مظہر ہیں۔ مخالفین کی تمام حاسدانہ سرگرمیوں کے علی الرغم آپ کی دعوت کامیاب ہوکے رہے گی اور اللہ تعالیٰ آپ کے دین کو غالب کرے گا۔ مسلمانوں سے خطاب کر کے یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلق پر اپنے دین کی حجت تمام کرنے کے لیے ان کو ایک مستقل امت کی حیثیت سے مامور کیا ہے اور اپنی آخری شریعت کا ان کو امین بنایا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اس امانت کی قدر کریں اور اس کے حامل بنیں تاکہ وہ خلق کے رہنما اور اپنے بعد والوں کے لیے نمونہ اور مثال بن سکیں۔ اسی ضمن میں ان کو جگہ جگہ یہود کی ان حاسدانہ سرگرمیوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے، ان کو ورغلانے اور ان کو آخری بعثت کی نعمتوں سے محروم کرنے کے لیے ان کی طرف سے ظاہر ہو رہی تھیں۔ بنی اسماعیل کو مخاطب کر کے ان کے سامنے اصل دینِ ابراہیمی ان تمام بدعتوں اور خرابیوں سے پاک کر کے پیش کیا گیا ہے جو مشرکین اور یہود نے اس میں پیدا کردی تھیں اور ساتھ ہی ان پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنا آخری نبی تمہارے اندر سے اٹھایا، اور تمہیں ایک امت مسلمہ بنانا چاہا، تم اس احسان کی قدر کرو اور یہودیوں کی حاسدانہ چالوں کے چکر میں نہ پھنسو۔ ورنہ تم پرائے شگون پر خود اپنی ناک کٹوا بیٹھو گے ۔
ج۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :۔سورۃ کے مطالب کا تفصیلی تجزیہ تو اس وقت سامنے آئے گا جب ہم آیات کے مناسب حصوں کو الگ الگ لے کر ان کی تفسیر کریں گے لیکن یہاں بھی ہم اس کے مطالب کا ایک سرسری جائزہ پیش کیے دیتے ہیں۔ اس سے سورۃ کے عمود کے ساتھ اس کے ہر حصہ کا تعلق بھی سمجھنے میں مدد ملے گی اور سورۃ پر بحیثیت مجموعی ایک اجمالی نظر بھی پڑجائے گی۔ ہمارے نزدیک مضامین کی تقسیم کے لحاظ سے یہ سورۃ ایک تمہید، چار ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے۔

(آیت 1 تا 39) یہ حصہ تمہیدی ہے۔ اس میں پہلے تو یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس کتاب پر کون لوگ ایمان لائیں گے، کون لوگ ایمان نہیں لائیں گے، پھر ایمان نہ لانے والوں کی رکاوٹیں اور ان کی ذہنی الجھنیں بیان ہوئی ہیں جن میں وہ قرآن کے نزول کے بعد مبتلا ہوگئے تھے۔ اسی ضمن میں بنی اسمعیل کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان پر اللہ کی اس کتاب نے حجت تمام کردی ہے، اب ان کی شامت ہی ہے جو یہودی فتنہ پردازوں کے چکموں میں آکر وہ اپنے آپ کو اس نعمت عظمیٰ سے محروم کر بیٹھیں۔ یہ تمہیدی حصہ آدم کی خلافت اور شیطان کی حاسدانہ مخالفت کی سرگزشت پر ختم ہوتا ہے۔ آدم اور شیطان کی یہ سرگزشت ایک آئینہ ہے جس میں اس تمام مخالفت اور موافقت کی پوری تصویر سامنے آجاتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور قرآن کی دعوت سے اٹھ کھری ہوئی تھی۔ فرشتوں کا آدم کی خلافت پر اعتراض کرنا اور اپنے اعتراض کا جواب پا جانے کے بعد مطمئن ہوجانا مثال ہے ان لوگوں کی مخالفت کی جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کے بعض پہلو نہ سمجھنے کے سبب سے شروع شروع میں آپ کی رسالت کے بارہ میں متردد یا اس کے مخالف رہے لیکن چونکہ یہ لوگ نیک دل اور حق پسند تھے، حاسد اور ہٹ دھرم نہ تھے، اس وجہ سے جونہی ان پر اصل حقیقت واضح ہوگئی وہ آپ کے حامی اور مددگار بن گئے۔ اس کے برخلاف شیطان کی مخالفت مثال ہے ان لوگوں کی مخالفت کی جو غرورِ نسب، غرورِ جاہ یا حسد کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کر رہے تھے۔ مثلاً یہود اور سرداران قریش اس طرح کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت اصل حقیقت کے واضح ہونے سے دور نہیں ہوتی بلکہ اور زیادہ بڑھ جایا کرتی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کی صداقت جتنی ہی زیادہ واضح ہوتی گئی، اتنی ہی ان لوگوں کی عداوت بھی بڑھتی گئی۔ اس تصویر میں یہود اور ان کے ہم نواؤں پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ آدم کی خلافت کے خلاف جس نوعیت کا غم و غصہ اور حسد ابلیس کو تھا اسی نوعیت کا غم و غصہ اور حسد اللہ کے آخری رسول کے خلاف تم کو ہے۔ اور ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح کردی گئی ہے کہ جس طرح ابلیس کے غم و غصہ کے علی الرغم آدم کی خلافت قائم ہو کے رہی۔ اسی طرح تمہاری دشمنی اور تمہارے حسد کے علی الرغم نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت قائم ہو کے رہے گی۔

 (آیت 39 تا 121) اس حصہ میں بنی اسرائیل کو تصریح کے ساتھ مخاطب کر کے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اس نبی امی پر ایمان لائیں جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں خود ان کے اپنے صحیفوں میں بھی موجود ہیں۔ پھر ان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ جس دعوت حق کی تائید و حمایت میں سبقت کرنے کے لیے ان سے تورات میں عہد لیا جا چکا ہے، دنیا پرستی اور حسد میں مبتلا ہو کر اس کی مخالفت کے لیے سبقت نہ کریں۔ نیز اس ذلیل مقصد کے لیے حق اور باطل کو باہم گڈ مڈ کرنے کا جو کاروبار انہوں نے جاری کر رکھا ہے اس سے باز آئیں اور اس جہاد نفس میں صبر اور نماز سے مدد حاصل کریں۔ 

(40-46)۔ اس کے بعد یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ خدا کے ہاں عزت و تقرب کا ذریعہ ایمان اور عمل صالح ہے نہ کہ کسی خاص خاندان یا کسی خاص گروہ سے وابستہ ہونا۔ یہود اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ ان کو جو عزت و عظمت حاصل ہوئی ہے وہ حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب کی اولاد میں ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ اس غلط فہمی کے سبب سے ان کا سارا اعتماد ایمان اور عمل صالح کے بجائے محض اپنی خاندانی اور گروہی نسبت پر رہ گیا تھا۔ اور یہ غرہ ان کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے میں بہت بڑی رکاوٹ بن گیا تھا۔ یہاں ان پر واضح کیا گیا ہے کہ تمام فضل و کرم اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، جو فضل بھی تم پر ہوا ہے اسی کی طرف سے ہوا ہے اور جو فضل بھی ہوگا اسی کی طرف سے ہوگا۔ اس نے تم پر فضل بھی بڑے بڑے کیے ہیں اور تمہاری ناشکریوں پر تم کو سزائیں بھی بار بار دی ہیں۔ اس وجہ سے خاندان اور نسب کی نسبتوں کے بجائے اللہ کی طرف رجوع کرو اور اوہام میں مبتلا ہو کر حقائق سے منہ نہ موڑو۔

(47-63)۔ یہود کو تنبیہ : اس کے بعد یہود کی عہد شکنیوں کی پوری تاریخ بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے کس کس طرح خدا سے کیے ہوئے عہد و پیمان اور خدا کے دئیے ہوئے احکام توڑے ہیں اور عہد شکنی اور غداری کے لیے کیسی مجرمانہ ذہنیت شروع ہی سے ان کے اندر پرورش پاتی رہی ہے۔ نیز ان کے وہ اوہام اور وہ مشاغل بھی بیان ہوئے ہیں جن میں مبتلا ہوجانے کے سبب سے ان کی نگاہوں میں خدا اور اس کی شریعت اور اس کی کتاب کی کوئی قدر سرے سے باقی ہی نہیں رہ گئی تھی۔ یہ ساری تفصیل یہود پر یہ واضح کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے کہ اگرچہ وہ کتاب الٰہی کے حامل ہونے کے مدعی ہیں لیکن فی الحقیقت انہوں نے اس کتاب کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے تام عہد و پیمان انہوں نے توڑ ڈالے ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے منصب امامت سے معزول کرے اور یہ امانت ان کے حوالہ کرے جو اس کے اہل ہوں۔

 (64۔121)۔ (122-162) حضرت ابراہیم کی سرگزشت :۔ اس باب میں حضرت ابراہیم کی سرگزشت کا وہ حصہ بیان ہوا ہے جو خانہ کعبہ کی تعمیر نیز ایک امت مسلمہ کے قیام اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی دعا سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی ذریت کا دین اسلام تھا، نہ کہ یہودیت و نصرانیت، اسی اسلام کی دعوت کے لیے اللہ ت عالیٰ نے ایک امت وَسَط پیدا کی ہے۔ اس امتِ وسط کا قبلہ دعائے ابراہیمی کے بموجب مسجد حرام ہے نہ کہ بیت المقدس۔ بیت المقدس کی طرف اس کا نماز پڑھنا محض ایک عارضی معاملہ تھا چنانچہ اس کا قبلہ بدل دیا گیا۔ اس کے بعد ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ یہ قبلہ چونکہ ابھی مشرکین کے قبضہ میں ہے، اس وجہ سے اس کو حاصل کرنے کے لیے اہل ایمان کو جان اور مال کی قربانیاں بھی دینی پڑیں گی۔ اور اس جہاد میں کامیابی اللہ تعالیٰ کی مدد سے حاصل ہوگی۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہ مدد صبر اور نماز کے ذریعے سے حاصل ہوگی۔ اس ساری سرگزشت کے سنانے سے مقصود چونکہ یہ واضح کرنا ہے کہ حضرت ابراہیم نے جس پیغمبر اور جس امت کے لیے دعا کی تھی وہ یہی ہیں، انہی کی دعوت اصل ملت ابراہیمی کی دعوت اور انہی کا قبلہ اصل قبلہ ابراہیمی ہے۔ اس وجہ سے اس میں خانہ کعبہ اور مروہ وغیرہ سے متعلق یہود کی وہ تمام تحریفات بھی بے نقاب کی گئی ہیں جو انہوں نے اپنے صحیفوں میں اس خیال سے کی تھیں کہ خانہ کعبہ اور مروہ کی قربان گاہ کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تعلق کی ہر شہادت ریکارڈ سے حذف کردیں۔ (

163 تا 242) یہ احکام وقوانین کا باب ہے۔ ملت مسلمہ کو جو شریعت عطا ہوئی ہے اس باب میں اس شریعت کے بنیادی قوانین بیان ہوئے ہیں۔ یہود یا مشرکین نے ان احکام میں جو تحریفات کردی تھیں یا جو بدعتیں شامل کردی تھیں اس باب میں ان بدعتوں اور تحریفات سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ان احکام کے بیان کرنے میں فقہی ترتیب ملحوظ نہیں ہے بلکہ وقت کے حالات اور تعلیم و تربیت کے مصالح نے جس ترتیب کا تقاضا کیا ہے وہ ترتیب ملحوظ ہے۔ بالاجمال یہ احکام یہ ہیں : 
توحید (163-176)۔ 
نماز اور زکوۃ (177)۔
 قصاص اور دیت (178-179)۔
 وصیت (180-182)۔ 
روزہ (183-187)۔ 
حرام خوری اور رشوت کی ممانعت (188)۔
 حج اور اس تعلق سے جہاد اور انفاق کے احکام کیونکہ اس وقت تک خانہ کعبہ پر مشرکین کا قبضہ تھا (189-218)۔
شراب اور جوئے کی ممانعت، یتامی کی اصلاح حال کے خیال سے ان کے معاملات کو اپنے معاملات کے ساتھ ملا لینے کی اجازت، مشرکات کے ساتھ نکاح کی ممانعت (219-221)۔ 
نکاح، طلاق، ایلاء، خلع، رضاعت، نان نفقہ زوجہ متوفی عنہا، مہر اور ازدواجی زندگی سے متعلق دوسرے مسائل (222-242) ۔

(آیات 243 تا 283) اس باب میں مرکز ملت ابراہیمی۔ خانہ کعبہ۔ کو کفار کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے مسلمانوں کو جہاد پر ابھارا گیا ہے۔ اس جہاد ہی کے مقصد سے انفاق کا جذبہ بھڑکایا گیا ہے۔ بنی اسرائیل نے اپنے قبلہ کو فلسطینیوں سے آزاد کرانے کے لیے جو جنگ لڑی اور جو مختلف پہلوؤں سے ہمارے غزوہ بدر سے مشابہ تھی، اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ پھر ایک جملہ معترضہ کے بعد انفاق پر مزید زور دیا گیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں مثالوں سے واضح فرمایا گیا ہے کہ کس طرح کے لوگ ہیں جن کو خدا تاریکی سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور کس طرح کے لوگوں کو تاریکیوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے بعد انفاق کی برکات، اس کے شرائط اس کی خصوصیات اور اس کے بعض اہم مصارف کی طرف اشارات ہیں اور ساتھ ہی جو چیز اس کی بالکل ضد ہے یعنی سود، اس کی حرمت بیان کی گئی ہے اور قرض کے لین دین میں جو احتیاط اسلامی نقطہ نظر سے ضروری ہے اس کے متعلق بعض احکام دیے گئے ہیں۔

(آیات 284 تا 286)۔ خاتمہ :۔ اس حصہ کی حیثیت سورۃ کے خاتمہ کی ہے۔ اس میں پہلے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔ وہ تمام کھلے اور ڈھکے کا حساب لے گا اور پھر جس کو چاہے گا بخشے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا۔ اس کے بعد یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ یہ کتاب جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی ہے کوئی اس کو مانے یا نہ مانے لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول اور اہل ایمان نے اس کو مان لیا ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کی دعا پر یہ سورۃ ختم ہوتی ہے۔ اس دعا کے لفظ لفظ سے کتاب الٰہی کے بارہ میں اس عظیم ذمہ داری کا احساس نمایاں ہو رہا ہے جس کو یہود اور نصاری سنبھال نہ سکے اور جو، اب اس امت پر ڈالی جا رہی ہے ۔

----------------------------------
(بحوالہ : تدبر قرآن مولانا امین  احسن اصلاحی