103۔ سورۃ العصر: تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

سورہ کا مضمون، سابق سورۃ سے تعلق اور ترتیب بیان


سابق سورہ… التکاثر… میں ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی گئی ہے جو ساری عمر اسی دنیا کے مال و متاع جمع کرنے کی فکر میں گنوا بیٹھتے ہیں یہاں تک کہ موت کی گھڑی آجاتی ہے اور انہیں یہ سچنے کی فرصت کبھی نہیں ملتی کہ یہ عمر عزیز اللہ تعالیٰ نے انہیں کس مقصد بلند کی خاطر عطا فرمائی اور وہ اس کو کس بوالہوسی دبے حاصلی میں برباد کر بیٹھے۔ اگر وہ جانتے کہ ایک دن تمام نعمتوں کی طرح زندگی کی عظیم نعمت سے متعلق بھی ان سے سوال ہوگا کہ اس کو انہوں نے کس کام میں صرف کیا تو وہ ہرگز یہ حماقت نہ کرتے کہ جس چیز سے وہ ابدی بادشاہی حاصل کرسکتے تھے اس کو دنیا کے خزف ریزے جمع کرنے اور اپنے لئے ابدی لعنت کا سامان کرنے پر قربان کر دیتے۔ اب اس سورۃ میں بتایا ہے کہ زندگی کی اصل قدر و قیمت کیا ہے ؟ کیا چیز اس کو ابدی فلاح کی ضامن بناتی ہے اور کیا چیز اس کو دائمی خسران میں تبدیل کر دیتی ہے ؟ کس طرح انسان اس کو اپنے لئے رحمت بنا سکتا ہے اور کس طرح یہ آپ سے آپ اس کے لئے نقمت اور عذاب بن جاتی ہے اگر وہ اس کو رحمت بنانے کی کوشش نہ کرے ۔

اس حقیقت کو سمجھانے کے لئے اس میں زمانہ کی قسم بطور شہادت کھائی گئی ہے کہ انسان غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں اصل سرمایہ جو اسے حاصل ہے بس وہ تھوڑا سا وقت ہے جو مہلت حیات کی حیثیت سے اس کے حصہ میں آیا ہے۔ اس کو صحیح استعمال کر کے وہ زندگی بخشنے والے کا پسندیدہ بندہ بھی بن سکتا اور ’’ راضیۃ مرضیۃ‘‘ کا مقام بھی حاصل کرسکتا ہے اور اسی کو غلط کاموں میں ضائع کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے کو دوزخ کے عذاب کا سزاوار بھی بنا سکتا ہے۔ اس کی فطرت یہ ہے کہ ایک شمشیر دودم ہے۔ اس کو انسان نے اگر اپنے حق میں استعمال نہ کیا تو یہ آپ سے آپ اس کے ابدی دشمن……شیطان…… کے حق میں استعمال ہوگا۔ اس کا بہت تھوڑا سا حصہ یعنی صرف حاضر ہے جو اس کے اختیار میں ہے جس میں وہ کوئی تصرف کرسکتا ہے، باقی یا تو ماضی بن چکا جو کسی قیمت پر بھی واپس نہیں مل سکتا یا مستقبل کے پردوں میں چھپا ہوا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کتنا ہے اور ہے بھی یا نہیں اور ہے تو وہ اپنے ساتھ کیا احوال و مسائل اور کیا تقاضے و مطالبے رکھتا ہے۔ جو وقت آتا ہے وہ اپنے مطالبے اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ انسان حاضر کے فرض کو مستقبل پر ٹال سکے ۔

اس اہم حقیقت کی طرف توجہ دلانے کے بعد وہ صحیح طریقہ بتایا ہے جس کو اختیار کرنے والے اپنی مہلت حیات سے صحیح فائدہ اٹھاتے اور اس حیات چند روزہ کے بدلے حیات جاوداں پاتے ہیں۔ اگرچہ یہ طریقہ صرف چند لفظوں میں بتایا گیا ہے لیکن ایسے جامع اور حکیمانہ اسلوب میں بتایا گیا ہے کہ انسان تدبر کرے تو اس کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں زندگیوں سے متعلق اس پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں جو اسے ادا کرنے ہیں اور جن کے ادا کرنے ہی پر اس کی ابدی فلاح کا انحصار ہے ۔

غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کا بھی اصل مقصد اسی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنا اور انسان کی شخصی و اجتماعی زندگی کو آخرت کے نصب العین کے تحت منظم کرنا ہے۔ گویا جو بات قرآن کی ایک سو چودہ سورتوں میں سمجھائی گئی ہے وہ اس سورۃ کی تین آیتوں میں سمو دی گئی ہے۔ اسی حقیقت کی طرف حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں اشارہ فرمایا ہے کہ ’’ اگر لوگ تنہا اسی سورۃ۔ العصر۔ پر غور کریں تو ان کے لئے کفایت کرے‘‘۔