98۔ سورۃ البینۃ : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

ا - سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

یہ سورۃ سابق سورۃ … القدر … کی مثنیٰ ہے۔ اس میں قرآن کی عظمت بیان ہوئی ہے اور اس میں یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین دونوں گٹھ جوڑ کر کے اس وقت قرآن کی تکذیب کے لئے جو اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ قرآن کے باب میں انہیں کوئی واقعی شب ہے بلکہ اس کا سبب محض ان کا استکبار ہے۔ وہ ظاہر تو یہ کر رہے ہیں کہ اگر ان کو کوئی کھلی ہوئی نشانی دکھا دی جائے تو وہ اس کو مان لیں گے لیکن یہ محض ان کا فریب ہے۔ کوئیبڑے سے بڑا معجزہ بھی ان کو قائل کرنے والا نہیں بن سکتا۔ یہ اس کو دیکھ کر بھی اپنے استکبار پر پردہ ڈالنے کے لئے کوئی بات بنا ہی لیں گے۔ اہل کتاب آج مشرکین کی جو پشت پناہی اور قرآن کی تکذیب کے لئے ان کو جو اعتراضات القاء کر رہے ہیں اگر اپنی تاریخ کے آئینہ میں اپنے کردار کو دیکھیں تو ان پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ جس طرح کے معجزے کا مطالبہ وہ آج کر رہے ہیں اسی قسم کے معجزوں کا مطالبہ ان کے پیشروئوں نے اپنے زمانے میں اپنے پیغمبروں سے کیا اور وہ ان کو دکھا بھی دیئے گئے ایمان لانے کے لئے اصل چیز اللہ کی خشیت ہے۔ جن کے اندر یہ خشیت موجود ہے وہ اس کتاب پر ایمان لائیں گے۔ رہے وہ جن کے دل پتھر ہوچکے ہیں وہ ایمان لانے والے نہیں خواہ ان کو کتنی ہی بڑی نشانی دکھا دی جائے ۔

ب۔ سورۃ کا زمانہ نزول

بعض مفسرین نے اس سورۃ کو مدنی قرار دیا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ ان لوگں کا ذہن اس طرف اس وجہ سے گیا کہ اس میں مشرکین مکہ کے ساتھ اہل کتاب کے رویہ کا بھی حوالہ ہے لیکن محض اتنی بات کی سورۃ کی مدنی قرار دینے کے لئے کافی نہیں ہے۔ سورتوں کے پچھلے گروپ آپ کی نظروں سے اگر گزر چکے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر گروپ کی آخری کی سورتوں میں مشرکین مکہ کے رویے کے ساتھ ساتھ اہل کتاب کے رویے کی طرف بھی اشارے ہوئے ہیں جو بالتدرید خفی سے جلی ہوتے چلے گئے ہیں ١ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکہ میں ایک نئی رسالت اور ایک نئی دعوت کا معاملہ ایسا معاملہ نہیں تھا جس سے اہل کتاب، بالخصوص یہود، بالکل غیر متعلق رہتے، ان کے علماء اپنے صحیفوں کی پیشین گوئیوں کی بنا پر ایک نئی بعثت کا اندیشہ پہلے سے رکھتے تھے پھر وہ اس نئی دعوت ک ونظر انداز کیسے کرسکتے تھے۔ البتہ شروع شروع میں انہوں نے اس کی مخالفت میں کوئی عملہ حصہ اس وجہ سے نہیں لیا کہ قریش کی مخاصمت کا انداز دیکھ کر انہوں نے خیال کیا کہ اس دعوت کو ختم کرنے کے لئے یہ خود ہی کافی ہیں لکین جب دیکھا کہ دعوت قریش کے علی الرغم دبنے کے بجائے بڑھ ہی رہی ہے تو انہوں نے بھی ان کی پشت پناہی شروع کر دی۔ اول اول تو انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ کچھ اعترضات و سوالات قریش کو سکھائے تاکہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھیں اور آپ کو زچ کرنے کی کوشش کریں۔ پھر اپنی مذہبی برتری کے زعم میں انہوں نے نبی کی شناخت کے لئے بعض خود ساختہ علامتیں مقرر کیں اور قریش کو مشورہ دیا کہ وہ نئے مدعی نبوت کو ان کی باتئی ہوئی کسوٹی پر رکھیں۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ ہمارے صحیفوں میں تو یہ ہدایت کی گی ہے کہ ہم اس وقت تک کسی نبی کی نبوت کی تصدیق نہ کریں جب تک اس کی پیش کی ہوئی قربانی کو کھانے کے لئے آسمان سے آگ نہ اترے۔ قرآن نے ان کی اس طرح کی شرارتوں کا جگہ جگہ حوالہ دیا یہ۔ اور یہ کام انہوں نے دعوت کے ابتداء دور ہی سے شروع کردیا تھ۔ اس وجہ سے جا بجا مکی سورتوں میں بھی ان کی طرف اشارہ ہوا۔ اس سورۃ میں بھی اسی نوعیت سے قریش کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کا ذکر فرمایا ۔

ج۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے :

(3-1) پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گی ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین قریش کے جو اشرار تمہارے در پے مخالفت ہیں، یہ گمان نہ کرو کہ کسی قیمت پر بھی وہ اپنی ہٹ سے باز آجائیں اور اس قرآن کو مان لیں گے۔ یہ تو اسی وقت مانیں گے جب آسمان سے کوئی فرشتہ صحیفے پڑھتا ہوا اترے اور وہ اس کو دیکھیں کہ وہ صحیفے لیے اتر رہا ہے ۔

(5-4) اس کے بعد اہل کتاب پر تعریض ہے کہ یہ ناہنجار لوگ آج رسول کی مخالفت کے جوش
١- ہم نے اپنی اس کتاب میں ان کی طرف ہر جگہ توجہ دلا دی ہے ۔

میں قریش کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں حالانکہ ان کی بدبختی کا یہ حال ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے معجزے دیکھے لیکن پھر بھی ان کو اللہ کے دین پر قائم رہنا نصیبنہ ہوا بلکہ یہ سب کچھ دیکھ کر اندھے بن رہے اور دین کی ان اساسات پر بھی متفق نہ رہ سکے جن میں کسی اختلاف کی بھی گنجائش نہیں تھی ۔

(8-6) آخر میں اہل کتاب اور قریش نے دونوں کے استکبا ر پر ضرب لگائی ہے کہ یہ اپنے کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اس وجہ سے رسول کی دعوت کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں حالانکہ یہ بدترین خلائق ہیں۔ یہ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ اللہ کے نزدیک درجہ صرف ان بندوں کے لئے ہے جو غیب میں رہتے اپنے رب پر ایمان لائیں اور عمل صالح کریں نہ کہ ان مغرروں کے لئے جو سب کچھ آنکھوں سے دیکھ لیں گے تب مانیں گے ۔