39۔ سورۃ الزمر: تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


39۔ سورۃ الزمر کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ
ا - سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ سابق سورۃ … سورۃ ص … کے مثنیٰ کی حیثیت رکتھی ہے۔ جس مضمون پر سابق سورۃ ختم ہوئی ہے اسی مضموکن سے اس کا آغاز ہا ہے۔ سورۃ ص کے آخر میں فرمایا ہے کہ یہ قرآن دنیا والوں کے لئے ایک عظیم یاد دہانی ہے، لوگوں کو یاد دلا رہا ہے کہ آخرت شدنی ہے اور سب کی ایک ہی رب حقیقی کے آگے پیش ہونا ہے تو جو لوگ آج اس کو جھٹلا رہے ہیں وہ بہت جلد اس کی صداقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ اب اس سورۃ کی تلاوت کیجیے تو اس کا آغاز بھی اسی مضموکن سے ہوتا ہے کہ خدائے عزیز و حکیم نے یہ کتاب نہایت اہتمام سے اس لئے اتاری ہے کہ لوگوں نے اللہ کی توحید کے بارے میں جو اختلافات پیدا کر رکھے ہیں ان کا فیصلہ کر دے تاکہ حق واضح ہوجائے اور جو لوگ اپنے فرضی دیویوں دیوتائوں کے بل پر آخرت سے نچنت بیٹھے ہیں وہ چاہیں تو وقت آنے سے پہلے اپنی عاقبت کی فکر کرلیں۔ اسی پہلو سے اس میں توحید کے دلائل بھی بیان ہوئے ہیں، شرک اور شرکاء کی تردید بھی فرمائی گی ہے اور قایمت کے دن مشرکین کا جو حشر ہوگا اس کی تصویر بھی کھینچی گئی ہے۔ سورۃ کی بنیاد توحید پر ہے اور اسی تعلق سے اس میں قیامت کا بھی بیان ہوا ہے۔ یہ سورۃ اس گروپ کی ان سورتوں میں سے ہے جو کشمکش حق و باطل کے اس دور میں نازل ہوئی ہیں جب ہجرت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ چنانچہ بعد کی سورتوں میں یہ مضمون باللہ ریج واضح ہوتا گیا ہے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(4-1) خدائے عزیز و حکیم نے یہ کتاب توحید و شرک کے قضیہ کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک قول فیصل کی حیثیت سے اتاری ہے تو لوگ اللہ واحد ہی کی عبادت و اطاعت کریں۔ عبادت و اطاعت کا حقیقی سزا وار وہی ہے۔ جو لوگ دوسرے معبودوں کو خدا کے تقرب کا ذریعہ بنائے بیٹھے ہیں اگر وہ اس کتاب پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو اللہ ان کے درمیان قیامت ے دن فیصلہ فرمائے گا اور وہ یاد رکھیں کہ اللہ جھوٹوں اور ناشکروں کو بامراد نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے ارفع ہے کہ وہ اپنے لئے بیٹے بیٹیاں بنئاے۔ وہ بالکل یکتا اور ساری کائنات کو کنٹرول کرنے کے لئے کافی ہے ۔
(٥-٨) یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے غایت اور حکمت کے ساتھ پیدا کی ہے۔ رات اور دن کی آمد و شد، سورج اور چاند کی گردش اس کے حکم سے ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور سای نے اس کی پرورش کا سامان کیا ہے، وہی خالق وہی رب اور وہی اپنی تمام کائنات کا علم رکھنے والا او اس کا مالک ہے تو لوگ اس کو چھوڑ کر کہاں بھٹکے جا رہے عیں ! لوگ یاد رکھیں کہ اللہ لوگوں کی بندگی اور شکر گزاری کا محتاج نہیں ہے بلکہ لوگ ہی اس کے محتاج ہیں۔ سب کی واپسی خدا ہی کی طرف ہوتی ہے اور اس دن کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں بنے گا۔ خدا سب کے بھیدوں سے خود واقف ہے اور وہ سب کا کچاچٹھا ان کے سامنے رکھ دے گا۔ لوگں کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو خدا کو پکارتے ہیں لیکن جب وہ مصیبت دور ک ردیتا ہے تو اس کو اس طرح نظر انداز کر دیتے ہیں گویا کبھی اس سے کوئی واسطہ تھا ہی نہیں ۔
(21-9) اللہ کے بجو بندے توحید پر ایمان لانے کے جرم میں اپنی قوم کے اشرار کے ہاتھوں ظلم و ستم کا ہدف بنے ہوئے تھے ان کو فوز و فالح کی بشارت اور یہ پیغام اپنے ایمان پر جمے رہو۔ اگر یہ زمین تمہارے اوپر تنگ کر دی گئی تو اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے۔ اپنی راہ میں ثابت قدم رہنے والوں کو اللہ بے حساب اجر دیتا ہے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے شرک اور مشرکین سے برأت کا اعلان۔ مشرکین کو عذاب کی وعید اور توحید پر قائم رہنے والوں کو کامیابی کی بشارت۔ آخر میں ان لوگوں کو تنبیہ جو اپنی دنیوی زندگی کے غرور میں قرآن اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا رہے تھے ۔
(٢٢-٣٥) پغیمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی کہ اس قرآن کی دعوت پر وہی لوگ ایمان لائیں گے جن کی فطرت کا نور زندہ ہے۔ جن کے دل سخت ہوچکے ہیں وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ وہ اسی انجام سے دوچار ہوں گے جس سے رسولوں کی تکذیب کرنے والی قومیں دوچار ہئیں۔ قرآن نے ہر پہلو سے توحید اور شرک کی حقیقت نہایت واضح طور پر بیان کر دی ہے۔ جو لوگ اب بھی اپنی منہ پر اڑے ہوئے ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔
(٣٦-٥٢ ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اطمینان دہانی کہ اگر یہ لوگ تم کو اپنے معبودوں سے ڈرا رہے ہیں تو ان کو بتا دو کہ میری حفاظت کے لئے اللہ کافی ہے وہ جس رحمت سے مجھے بہرہ مند کرنا چاہے گا کوئی مجھے اس سے محروم نہیں کرسکتا اور اگ روہ کوئی ضرر پہنچانا چاہے گا تو کوئی دوسرا اس سے مجھے بچا نہیں سکتا۔ پس تم اپنی جگہ کا مکرو، میں اپنی جگہ کام کرت اہوں۔ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ۔
اس امر کی وضاحت کہ زندگی اور موت تمام تر اللہ ہی کے قبضے میں ہے تو جو لوگ باطل شفاعت کی امید پر جی رہے ہیں انہیں بتا دو کہ شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ ان لوگوں کا معاملہ اللہ کے حوالے کر دو۔ اس کے لئے دعا کی تلقین ان کی تدبیر ان کے کچھ کام نہ آسکی۔ یہی حشر انکا بھی ہوتا ہے۔ رزق و فضل سب اللہ کا عطیہ ہے اس وجہ سے ہر ایک پر اللہ ہی کا شکر واجب اور یہی توحید کا تقاضا ہے ۔
(61-53) لووگں کو یہ تذکیر کہ خدا سے مایوس ہو کر دوسرے شرکاء و شفعار کا دامن پکڑنا جائز نہیں ہے بلکہ ہر حالت میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے، وہ بڑا ہی غفور رحیم ہے۔ پس خدا کی پکڑ سے پہلے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیں اور سا بہترین کتاب پر ایمان لائیں جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کی ہدایت کے لئے اتاری ہے ورنہ ایک دن وہ ایمان کی حسرت کریں گے اور اپنی محرومی پر اپنے سرپیٹیں گے لیکن وقت گزر جانے کے بعد ان کے لئے یہ چیز کچھ نافع نہیں ہوگی ۔
(٦٢-٧٥) خاتمہ سورۃ جس میں پہلے یہ وضاحت فرمائی گئی ہے کہ عبادت کا حقدار صرف اللہ تعالیٰ ہے وہی ہر چیز کا خالق ہے اور سای کے اختیار میں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں اس کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے مشرکین کو خطاب کر کے یہ اعلان فرما رہے کہ تم لوگ مجھے غیر اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہو حالانکہ میری طرف اور مجھ سے پہلے تمام نبیوں کی طرف یہی وحی آئی ہے کہ جو اللہ کا شریک ٹھہرائے گا اس کے تمام عمل حبط ہوجائیں گے۔ اس کے بعد مشرکین کو ملامت کہ ان لوگوں نے خدا کی شان بالکل نیں پہچانی۔ یہ فرضی معبودوں کی شفاعت کے بل پر جی رہے ہیں حالانکہ جس وقت صور پھونکا جائے گا سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور پھر جب دوبارہ پھونکا جائے گا تو سب اٹھ کھڑے ہوں گے۔ زمین خدا کے نور سے چمک اٹھے گی۔ دفتر کھولا جائے گا، نبیوں اور گواہوں کی طلبی ہوگی اور لوگں کے درمیان بالکل انصاف کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا۔ اس کے بعد اہل دوزخ اور اہل جنت کے حالات کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔