40۔ سورہ المؤمن ( غافر ) : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


40۔ سورہ المؤمن (  غافر )  کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ
ا۔ سورۃ کا عمود
گروپ کی پچھلی سورتوں کی طرح اس سورۃ کی بنیاد بھی توحید پر ہی ہے۔ قرآن کے دوسرے اصولی مطالب بھی اس میں زیر بحث آئے ہیں لیکن اصلاً نہیں بلکہ ضمناً توحید کے لوازم و مقتضیات کی حیثیت سے آئے ہیں ۔
اس کا قرآنی نام حٰمٓ ہے اور یہی نام اس کے بعد کی چھ سورتوں کا بھی ہے۔ یہ ساتوں حوا میم کے نام سے مشہور ہیں اور اپنے ناموں کی طرح اپنے مطالب میں بھی مشترک ہیں۔ یہ تمام سورتیں دعوت کے اس دور سے تعلق رکھنے والی ہیں جب تو حید و شرک کی بحث نے اتنی شدت اختیار کرلی تھی کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر مکہ میں عرصہ ٔ حیات تنگ ہونے لگا تھا۔ ہجرت کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ پچھلی سورتوں میں بھی گزر چکا ہے۔ اب اس میں اور آگے کی سورتوں میں وقت کے یہ حالات بالتدریج نمایاں ہوتے جائیں گے اور ان کے تقاضے سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ٔ نصرت و حمایت بھی بالکل واضح ہوتا جائے گا۔ جو مسلمان اس وقت حالات سے نبرد آزما تھے ان کی اس میں حوصلہ افزائی کی گئی ہے، جو خطرات میں تھے ان کو تسلی دی گئی ہے اور جو دعوت کے ساتھ ہمدردی رکھنے کے باوجود کسی مصلحت سے، اب تک کھل کر اس کی حمایت کے لئے میدان میں نہیں اترے تھے ان کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ مصلحتوں سے بے پروا ہو کر وہ کلمہ ٔ حق کی سربلندی کے لئے اٹھ کھڑے ہوں، اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہوگا ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(١۔ ٦) اس کتاب کی تنزیل اس خدا کی طرف سے ہے جو غالب و مقتدر بھ ہے اور علیم بھی۔ گناہوں کو بخشنے والا، توبہ کو قبول کرنے والا بھی ہے اور سخت پاداش والا اور صاحب قدرت و اختیار بھی۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اسی کی طرف سب کو لوٹنا اور اسی کے آگے سب کو پیش ہونا ہے۔ اس قرآن کی مخالفت میں کج بحثی وہی لوگ کر رہے ہیں جو جزا و سزا کے منکر ہیں۔ اس وقت اس ملک میں یہ لوگ جو دندنا رہے ہیں اس سے کسی کو غلط فہمی نہ ہو۔ ان سے پہلے جو تو میں گزر چکی ہیں ان کی تاریخ سبق آموزی کے لئے کافی ہے۔ ان قوموں نے بھی اسی طرح اپنی کج بحثیوں سے حق کو پسپا کرنے اور رسولوں کو شکست دینے کی کوشش کی لیکن قبل اس کے کہ وہ اللہ کے رسول پر ہاتھ ڈالیں ان کو عذاب نے آ پکڑا۔ اسی طرح ان متمردین پر بھی اللہ کا قانون عذاب صادق ہوچکا ہے اور یہ اپنے طغیان و فساد کی پاداش میں جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں ۔
(٧۔ ٩) جو لوگ فرشتوں کی سفارش کے بل پر خد ا اور اس کے روز جزا سے بے پروا بیٹھے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کے مقرب فرشتے خدا کے باغیوں کے سفارشی نہیں ہیں بلکہ وہ ہر وقت خدا کی حمد و تسبیح میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ اللہ پر ایمان رکھتے اور ان اہل ایمان کے لئے برابر استغفار کرتے رہتے ہیں جو اپن گمراہیوں سے توبہ کر کے خدا کے راستہ کی پیروی کریں ۔
(١٠۔ ١٢) قیامت کے دن مشرکین جس طرح اپنے جرم کا اقرار اور خدا سے فریاد کریں گے اور ان کی فریاد کے جواب میں خدا کی طرف سے ان پر ج پھٹکار ہوگی، اس کی طرف اجمالی اشارہ ۔
(١٣۔ ٢٠ ) تمام رحمت اور نقمت اللہ ہی کے اختیار میں ہے اس وجہ سے بندگی اور اطاعت کا حق دار وہی ہے۔ وہ بہت بلند رتبہ اور عالی مقام ہے۔ اس کے بھیدوں سے کوئی واقف نہیں ہوسکتا۔ قیامت کے دن تنہا وہی مالک ہوگا اور مشرکوں کی سفارش کوئی نہیں کرسکے گا ۔
(٢١۔ ٢٢ ) تاریخ کی شہادت کہ جن قوموں نے توحید کی دعوت دینے والے رسولوں کو جھٹلایا ان پر اللہ کا عذاب آیا اور جب ان پر عذاب آیا تو ان کے مزعومہ شرکاء ان کے کچھ کام نہ آسکے۔ قریش کو تنبیۃ کہ یہی حشر تمہارا بھی ہونا ہے اگر تم نے انہی کی روش اختیار کی ۔
(٢٣۔ ٥٥ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی سرگزشت کا ایک خاص حصہ جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) اور قریش کو مندرجہ ذیل امور کی یادہانی کی گئی ہے ۔
oقریش کو یہ تنبیہ کہ قوت و صولت میں فرعون اور اس کی قوم کے لوگ تم سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھے، لیکن جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی تکذیب کی پاداش میں ان پر عذاب آیاتو کوئی چیز بھی ان کے کام آنے والی نہ بن سکی ۔
۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو یہ یاد دہانی کہ دعوت حق کے مخالفین کے ہاتھوں جو آزمائشیں پیش آ رہی ہیں، صبر و عزیمت کے ساتھ، ان کو برداشت کرو۔ اگر تم اپنے موقف حق پر ڈٹے رہے تو بالآخر کامیابی تمہی کو حاصل ہوگی ۔
۔ اس سرگزشت کے ذیل میں خاندان فرعون کے ایک مرد مومن کا کردار بھی بیان ہوا ہے، جو قریش کے لیڈروں کے لئے بھی نہایت سبق آموز ہے اور ان لوگوں کے لئے بھی نہایت ہمت افزا ہے جو دعوت حق سے ہمدردی رکھنے کے باوجود اب تک اس کے اظہار و اعلان میں ہچکچا رہے تھے ۔
(٥٦۔ ٨٥) توحید اور قیامت کے آفاقی و انفسی دلائل کا حوالہ۔ قریش کو نہایت کھلے الفاظ میں انداز اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) سے نہایت قطعی الفاظ میں فتح و نصرت کا وعدہ ۔