41۔ سورہ حم السجد ۃ (فصلت) : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی



41۔  سورہ  حم السجد ۃ (فصلت)  کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ
ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
اس سورۃ کا بھی اصل مضمون سابق سورۃ کی طرح توحید ہی ہے۔ اس میں توحید کے دلائل بھی بیان ہوئے ہیں اور ان لوگوں کو اتذار بھی کیا گیا ہے جو قرآن کی دعوت توحید کی مخالفت کر رہے تھے۔ ساتھ ہی ان ایمان والوں کو ابدی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے جو مخالفوں کی تمام مخالفانہ سرگرمیوں کے علی الرغم، توحید پر استوار رہیں گے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ تمہارے دشمن خواہ کتنا ہی جاہلانہ رویہ اختیار کریں لیکن تم ان کی جہالت کا جواب صبر و بردباری سے دینا۔ یہی طریقہ بابرکت اور اسی میں تمہاری دعوت کی کامیابی مضمر ہے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(١۔ ٨) سورۃ کی تمہید، جس میں یہ بات واضح فرمائی گئی ہے کہ خدائے رحما ن و رحیم نے اہل عرب پر یہ عظیم احسان فرمایا کہ قرآن کو عربی زبان میں ان کے لئے نذیر و بشیر بنا کر اتارا۔ اس احسان کا حق یہ تھا کہ لوگ اس کی قدر کرتے لیکن یہ نہایت رعونت سے اس نعمت کو ٹھکرا رہے ہیں اور ایمان لانے کے بجائے اس عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے۔ ان کے اس مطالبہ کے جواب میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ ان کو بتا دو کہ مجھے جس توحید کی وحی ہوئی تھی وہ میں نے تم کو پہنچا دی، رہا عذاب کا معاملہ تو یہ چیز میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں ایک بشر ہوں، خدا نہیں ہوں ۔
اہل ایمان کو استغفار و استقامت کی تلقین اور اجر دائمی کی بشارت اور مشرکین کو ابدی تباہی کی وعید جو ایمان و انفاق کے بجائے محض اپنے مزعومہ شفعار کے بل پر آخرت سے بالکل نچنت بیٹھے تھے ۔
(٩۔ ١٢) اس کارخانۂ کائنات میں جو قدرت و حکمت، جو رحمت و ربوبیت اور جو نظم و اہتمام کار فرما ہے وہ شاہد ہے کہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل یا مختلف دیوتائوں کی بازی گاہ یا رزم گاہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک خدائے عزیز و حلیم کی منصوبہ بندی سے وجود میں آیا ہے اس وجہ سے جو لوگ شرکاء و شفعاء کے بل پر خدا اور آخرت سے غافل ہیں وہ صرف اپنی شامت کے منتظر ہیں ۔
(١٣۔ ١٨) قریش کو تہدید و عید کہ اگر تم رسول کی دعوت کی تکذیب ہی پر تل گئے ہو تو رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں کے انجام سے دوچار ہونے کے لئے بھی تیار ہو جائو۔ تم سے پہلے عاد و ثمور نے بھی تمہاری ہی روش اختیار کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب نے ان کو تباہ کردیا اور یاد رکھو کہ قوت و شوکت میں وہ تم سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھے ۔
(١٩۔ ٢٤ ) مشرکین جو اپنے شریکوں کی شفاعت کی امید لئے بیٹھے ہیں یاد رکھیں کہ قیامت کے دن ان کے کان، آنکھ اور ہاتھ پائوں خود ان کے خلاف گواہی دیں گے اور کسی کی شفاعت ان کے کچھ کام نہیں آئے گی۔ اس دن ان پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ سب سے زیادہ ان کی تباہی کا سبب یہ چیز ہوئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس وہم میں مبتلا رہے کہ اس کو بندوں کے سارے اعمال کی خبر نہیں ہوتی۔ اس دن ان کے لئے امید کے سارے دروازے بند ہوجائیں گے۔ ان کا واحد ٹھکانا دوزخ ہوگا۔ اگر وہ معافی کی درخواست کریں گے تو ان کو معافی نہیں ملے گی۔
(٢٥۔ ٢٩ ) گمراہ لیڈروں اور ان کے گمراہ پیروئوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں جمع کرے گا۔ قرآن کی دعوت توحیدکی مخالفت میں انہوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کیا، اس بات کا انجام اس دن ان کے سامنے آئے گا۔ اس وقت وہ ایک دوسرے پر لعنت کریں گے اور گمراہ ہونے والے عوام اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گے کہ اے رب ! انسانوں اور جنوں میں سے جنہوں نے بھی ہمیں گمراہ کیا ہے تو ان کو ہمیں دکھا کر ہم ان کو اپنے پائوں سے روند ڈالیں ۔
(٣٠۔ ٣٢) جو لوگ تمام مخالفتوں اور سازشوں کے علی الرغم توحید پر جمے رہیں گے قیامت کے دن ان کے پاس فرشتے اللہ تعالیٰ کی ابدی رحمت و نعمت کی بشارت لے کر آئیں گے ۔
(٣٣۔ ٣٦) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی کہ تم نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ دعوت لے کر اٹھے ہو۔ اگر جاہل لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں تو ان کی جہالت کا مقابلہ شرافت اور عفو و درگزر سے کرو۔ اگرچہ یہ کام نہایت مشکل ہے لیکن یہ نہایت اعلیٰ حکمت ہے جو ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں اور نصیبہ ور درحقیقت وہی لوگ ہیں۔ اس وجہ سے تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے لئے یہی روش زیبا ہے۔ اور اگر کبھی شیطان کی وسوسہ اندازی سے اس کی کوئی خلاف ورزی ہوجائے تو فوراً اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے ۔
(٣٧۔ ٤٠ ) ابتدائے سورۃ میں توحید اور معاد کی جو دلیل بیان ہوئی ہے بعض دوسرے دلاء آفاق سے اس کی تائید اور ان لوگوں سے اظہار بزاری، جو ان واضح آیات کے بعد بھی توحید اور آخرت کی مخالفت کر رہے تھے ۔
(٤١۔ ٤٤ ) قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اہل عرب پر جو احسان فرمایا اور جس کی طرف سورۃ کی تمہید میں اشارہ گزر چکا ہے، اس کی تائید ایک نئے اسلوب سے۔ قرآن کی شان اور اس کی عظمت کے بیان کے ساتھ ساتھ قرآن کے خلاف اہل کتاب کے القاء کئے ہوئے ایک اعتراض کا جواب اور مکذبین کی اصل بیماری کی نشان دہی ۔
(٤٥۔ ٤٦ ) یہود کے القاء کئے ہوئے اس سوال کا جواب کہ جب قرآن تورات کو آسمانی کتاب تسلیم کرتا ہے تو اس کے ہوتے ہوئے کسی اور آسمانی کتاب کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
(٤٧۔ ٥١ ) جو لوگ آخرت کا مذاق اس وجہ سے اڑا رہے تھے کہ اس کا ظہور نہیں ہو رہا ہے یا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تاریخ نہیں متعین کرسکتے، ان کو جواب اور جو لوگ اپنے مزعومہ شرکاء و شفعاء کے بل پر آخرت سے نچنت تھے ان کو تنبیہ کہ اس دن سب اپنے شریکوں سے برأت کا اعلان کریں گے۔ علاوہ ازیں قیامت کے لئے جلدی مچانے والوں کی تنک ظرفی پر اظہار افسوس کہ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ذرا سا خدا کی گرفت میں آجاتے ہیں تو فوراً بلبلا اٹھتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کو ذرا ڈھیل دے دیتا ہے تو شیخی بگھارنے اور عذاب کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں ۔

(٥٢۔ ٥٤ ) خاتمہ ٔ سورۃ جس میں تکذیب قرآن کے ہولناک انجام کی طرف اشارہ اور اس بات کی تہدید ہے کہ اب قرآن کی صداقت کی نشانیاں آفاق و انفس میں ظاہر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر چیز اس کے قبضہ ٔ قدرت میں ہے۔ جو لوگ شک میں مبتلا ہیں وہ عنقریب سب کچھ آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔