42۔ سورہ الشوری : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


42۔ سورہ الشوری  کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ
ا - سورۃ کا عمود اور زمانہ نزول
اس سورۃ کا بھی مرکزی مضمون توحید ہی ہے۔ اسی کے تحت قیامت سے بھی ڈرایا گیا ہے اس لئے کہ توحید کی اصلی اہمیت اسی وقت سامنے آتی ہے جب اس بات پر ایمان ہو کہ انصاف کا ایک دن لازماً آنے والا ہے اور اس دن ہر شخص کو سابقہ اللہ واحد و قہار ہی سے پیش آئے گا، کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ اس کی پکڑ سے کسی کو بچا سکے یا اس کے اذن کے بغیر اس کے سامنے زبان ہلا سکے ۔
استدلال کی بنیاد اس میں دعوت انبیاء کی تاریخ پر ہے کہ آدم و نوح سے لے کر اب تک تمام انبیاء نے اسی دین توحید کی دعوت دی اور ان کو بھی اللہ نے اسی طرح وحی کے ذریعہ سے تعلیم دی جس طرح یہ قرآن وحی کیا جا رہا ہے مختلف حلقوں نے دین کے معاملہ میں جو اختلاف کیا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے رسولوں نے الگ الگ دینوں کی تعلیم دی بلکہ اس کی وجہ صرف باہمی عداوت و رقابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحیح علم آجانے کے باوجود مختلف گروہوں نے اپنی ضد اور اپنی برتری قائم رکھنے کے زعم میں حق سے اختلاف کیا اور اس طرح لوگ مختلف گروہوں اور حلقوں میں بٹتے گئے۔ یہ قرآن اسی اختلاف کو مٹانے کے لئے ایک میزان حق بن کر نازل ہوا ہے۔ اگر لوگ اس میزان کے فیصلہ کو قبول نہیں کریں گے تو اب قیامت کی میزان عدل لوگوں کا فیصلہ کرے گی ۔
ورہ کے مطالب پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکی دور کے آخر میں ہجرت سے متصل زمانے میں نازل ہوئی ہے چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے قریش کے لیڈروں کو اس میں جو خطاب ہے اس کی نوعیت و داعی خطاب کی ہے، گویا ان سے متعلق پیغمبر کی جو ذمہ داری تھی وہ پوری ہوگئی۔ اب ذمہ داری لوگوں کی اپنی ہے۔ اگر انہوں نے یہ ذمہ داری اب بھی محسوس نہ کی تو اس کے نتائج کے لئے تیار رہیں۔ اسی طرح مسلمانوں سے متعلق اس میں جو باتیں فرمائی گئی ہیں ان سے مترشح ہوتا ہے کہ اب وہ ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جس میں ان کو ایک ہئیت اجتماعی کی شکل میں اپنے فرائض ادا کرنے ہیں جس کے تقاضے پورے کرنے کے لئے انہیں تیار رہنا چاہئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس میں بار بار یہ تسلی دی گئی ہے کہ تمہاری ذمہ داری لوگوں کو واضح طور پر حق ہپنچا دینے کی تھی وہ تم نے پوری کر دی۔ لوگوں کے دلوں میں ایمان اتار دینا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ اب ان کا کا معاملہ اللہ کے حوالے کرو۔ اس ضمن میں بعض اعتراضات کے جواب بھی دیئے گئے ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر مخالفین کی طرف سے کئے گئے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(10-1) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے یہ حقیقت واضح فرماگئی ہے کہ جس دین توحید کی وحی اللہ نے تم پر کی ہے۔ اسی دین کی وحی اس نے تم سے پہلے آنے والے رسولوں پر بھی کی اور روحی کا طریقہ بھی وہی ہے جو اس سیپہلے اختیار کیا گیا۔ اللہ کی ذات بہت بلند اور عظیم ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ آسمان اس کی خشیت سے پھٹا جا رہا ہے اور فرشتے برابر اس کی تسبیح اور اہل زمین کے لئے استغفار میں سرگرم ہیں جن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں اللہ ان کو دیکھ رہا ہے۔ ان کے ایمان کی ذمہ داری تمہایر اوپر نہیں ہے۔ اللہ نے جو عربی قرآن تم پر اتارا ہے اس کے ذریعہ سے اہل مکہ اور اس کے اطراف کے لوگوں کو اس دن سے آگاہ کر دو جس دن وہ سب کو اکٹھا کرے گا اور پھر ایمان لانے والوں کو جنت میں اور کفر کرنے والوں کو دوزخ میں داخل کرے گا۔ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری تمہارے اوپر نہیں ہے۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں اللہ تعالیٰ کی جو سنت ہے وہ تبدیل نہیں ہو سکتی۔ ہدایت وہی پائیں گے جو اس کے سزاوار ٹھہریں گے ۔
(20-11) آسمان و زمین کا خالق خدا ہی ہے، ان کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اولاد اور رزق خدا ہی بخشتا ہے۔ اس کی خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اسی دین توحید کی تعلیم تمام نبیوں نے دی اور اسی پر قائم رہنے اور اس میں اختلاف نہ پیدا کرنے کی انہوں نے برابر تلقین کی۔ جن لوگوں نے اس میں اختلاف پیدا کیا انہوں نے خدا کی طرف سے صحیح علم آجانے کے بعد، محض باہمی عناد اور تعصب کے سبب سے پیدا کیا۔ اگر اللہ نے اس جھگڑے کے فیصلہ کے لئے ایک وقت نہ مقرر کرلیا ہوتا تو ان کا فیصلہ فوراً کردیا جاتا۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ تم اسی دین انبیاء کی دعوت دو اور اسی پر جمے رہو اور لوگوں کو آگاہ کر دو کہ اللہ نے جو کتاب میزان عدل بنا کر اتاری ہے میں اس پر ایمان لایا ہوں اور مجھے یہ ہدایت ہوئی ہے کہ اسی میزان عدل کے ذریعہ سے تمہارے درمیان فیصلہ کروں۔ جو لوگ اس کے بعد بھی تم سے جھگڑیں ان کے لئے عذاب شدید ہے۔ انہیں متنبہ کر دو کہ قیامت کو بہت دور نہ سمجھیں۔ اللہ نے جو مہلت بخشی ہے اس سے فائدہ اٹھا لیں ورنہ یاد رکھیں کہ اللہ نہایت مہربان بھی ہے اور نہایت منتقم و قہار بھی۔ اگر وہ لوگوں کو، ان کے طغیان و فساد کے باوجود مہلت دیتا ہے تو اپنی سنت کے مطابق دیتا ہے۔ اس مہلت کے بعد وہ ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ مستحق ہوگا ۔
(26-21) اگر انہوں نے کچھ شرکاء ایجاد کئے ہیں جنہوں نے اللہ کے رسولوں کے لائے ہوئے دنی سے کوئی الگ دین ان کے لئے ایجاد کیا ہے تو یہ دین اور اور ان کے یہ شرکاء قیامت کے دن کچھ بھی ان کے کام آنے والے نہیں بنیں گے۔ اس دن مشرکین اپنے انجام پر اپنے سرپیٹیں گے۔ اس دن کی کامیابی صرف ایمان اور عمل صالح والوں کے لئے ہوگی۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کی ان لوگوں کو بتا دو کہ میں تمہاری ہدایت کے لئے جو اتنا فکرمند ہوں تو اس لئے نہیں کہ میں تم سے کسی صلہ کا طالب ہوں بکلہ یہ محض قرابت ہے جو تمہارے لئے مجھے بے چین کئے ہوئے ہے۔ اگر تم ایمان لائو گے تو اس کا صلہ تم خود پائو گے۔ اگر یہ لوگ تمہاری وحی کو افتراء بتاتے ہیں تو تمہارے اطمینان کے لئے یہ چیز بس ہے کہ تم جانتے ہو کہ یہ چشمہ فیض تمہارے انر خدا نے جاری کیا ہے، اگر وہ چاہے تو ابھی اس کو بند کر دے، پھر تم کسی طرح بھی اس کو جاری نہیں کرسکتے۔ علاوہ ازیں دیکھنے کی چیز اس کے اثرات اور اس کی برکات ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے باطل کو مٹا اور حق کو سربلند کر رہا ہے۔ یہ لوگ جو کچھ بھی کہیں اسکی پروا نہ کرو جن کے اندر صلاحیت ہے وہ اس کو لبیک کہہ رہے ہیں۔ تمہارے اطمینان کے لئے یہ کافی ہے ۔
(36-27) اگر یہ لوگ اپنی دنیوی برتری کو اپنے برحق ہونے کی دلیل بنائے بیٹھے ہیں تو ان کو بتا دو کہ آخرت کی نعمتوں کے مقابل میں اس دنیا کی بڑی سے بڑی دولت کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو شیطان کے فنتوں سے بچانا چاہا اس وجہ سے دنیا کے طالبوں کو بھی ا تنا ہی دیتا ہے جتنا اس کے مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے ورنہ وہ ان کو پوری ڈھیل دے دیتا کہ وہ اس دنیا میں سے جتنا چاہیں اپنے دامن بھر لیں … اللہ کی ڈھیل سے کسی کو غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہئے۔ ہر چیز اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ جب چاہے لوگوں کو پکڑ سکتا ہے لیکن وہ لوگوں کی ناشکری اور ان کے طغیان کے باوجود ان سے درگزر کرتا ہے۔ انسان کی روزمرہ کی زندگی میں جو تجربات و مشاہدات ہوتے رہتے ہیں اگر کوئی دیدہ بنیاد رکھتا ہو تو انہی کے اندر دیکھ سکتا ہے کہ انسان ہر وقت خدا کی مٹھی میں ہے۔ اگر خدا حفاظت نہ کرے تو انسان کے تمام وسائل اس کی حفاظت سے قاصر ہیں۔ کافروں کو جو کچھ حاصل ہوت ہے وہ عارضی وفاقی ہے۔ خدا کیہاں ابدی بادشاہی ان لوگوں کو حاصل ہوگی جو ایمان لائیں گے اور خدا پر بھروسہ رکھیں گے ۔
(43-37) اہل ایمان کی حقیقی صفات کا بیان اور ان کو چند خاص ہدایات جو موجودہ اور آئندہ پیش آنے والے حالات میں ان کی رہنمائی اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآن ہونے کے لئے ضروری تھیں۔ قرینہ دلیل ہے کہ اس دور میں کفار کی تعدیاں بھی بہت بڑھ گئی تھیں اور مسلمان بھی ایک جماعت اور تنظیم کی شکل اختیار کرہے تھے اس وجہ سے ان کو ضروری ہدایات سے آگاہ کردیا گیا تاکہ اس نازک دور میں ان کا کوئی قدم غلط نہ اٹھ جائے ۔
(53-44) خاتمہ سورۃ جس میں پہلے مخالفین کو تنبیہ ہے۔ اس کے بعد ان کو دوت ہے کہ اب بھی موقع ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کر کے اپنی عاقبت سنوار لو۔ اگر یہ وقت نکل گیا تو پھر یہ کبھی واپس آنے والا نہیں ہے۔ اس کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین صبر ہے کہ اگر یہ لوگ تمہاری بات نہیں سن رہے ہیں تو ان کا پیچھا چھوڑو، تمہارے اوپر جو ذمہ داری تھی وہ تم نے ادا کر دی، ان کے دلوں میں ایمان اتار دینا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ انسان کی تنک ظرفی کا حال یہی ہے۔ اگر اللہ اس کو اپنی رحمت سے نوازتا ہے تواتراتا اور اکڑتا ہے اور اگر اس کے اعمال کی پاداش میں اس کو کوئی مصیبت پیش آجائے تو مایوس اور ناشکرا بن جاتا ہے۔ ان لوگوں کو اپنی مزعومہ شریکوں پر بڑا ناز ہے لیکن خدا کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے غرور کے سبب یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ خدا ان سے رو درود ہو کر بات کرے تو ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے سے بات کرتا ہے صرف وحی کے ذریعہ ہی سے کرتا ہے اور اس کے خاص طریقے ہیں۔ اسی طرح کی وحی اس نے تم پر بھی کی ہے اور یہ تم پر اور تمہارے واسطہ سے لوگوں پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہوا ہے ورنہ اس سے پہلے نہ تم کتاب سے آشنا تھے اور نہ ایمان کی تفصیلات اور اس کے مطالبات سے ۔