43۔ سورۃ الزخرف : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


43۔ سورۃ الزخرف کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ
ا - سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ، سابق سورۃ کے مثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس وجہ سے دونوں کے عمود میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ گروپ کی دوسری سورتوں کی طرح اس کا بھی مرکزی مضمون توحید ہی ہے اور اس توحید ہی کی اہمیت واضح کرنے کے لئے اسی میں قیامت کا بھی ذکر ہوا ہے۔ خاص طور پر ملائکہ کی الوہیت اور ان کی شفاعت کے تصور کا ابطال اس میں فصیل سے ہے اور قریش کے اس دعوے کی تردید کی گئی ہے کہ وہ جس دین شرک کے پیرو ہیں یہ ان کو حضرت ابراہیم سے وراثت میں ملا ہے۔
سابق سورۃ میں قرآن کی عظمت ایک خاص پہلو سے نمایاں کی گئی تھی اس میں اس کے بعض دوسرے پہلو نمایاں کر کے قریش کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر محض دولت دنیا کے غرور میں تم نے اس عظیم نعمت کی قدر نہ کی تو یاد رکھو کہ پیغمبر کے اوپر ذمہ داری صرف اس حق کو پہنچا دینے کی ہے۔ اس کی تکذیب کے نتائج کی ذمہ داری خود تمہارے اوپر ہوگی ۔
قرآن پر نفس وحی کے پہلو سے مخالفین کے جو اعتراضات تھے اور جن کو وہ اس کی تکذیب کا بہانہ بنا رہے تھے ان کے جواب پچھلی سورۃ میں دیئے گئے ہیں، اس سورۃ میں انبیائے سابقین کی دعوت کے ساتھ اس کی ہم آہنگی واضح فرمائی گی ہے کہ جس دین توحید کی دعوت یہ قرآن دے رہا ہے اسی کی دعوت تمام انبیاء نے دی ہے۔ جو لوگ اس کو جھٹال رہے ہیں وہ اپنے لئے اسی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں جس سے رسولوں ک تکذیب کرنے والی دوسری قومیں دو چار ہوئیں ۔
ب - سوروہ کے مطالب کا تجزیہ
(8-1) قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے قوم عرب پر جو احسان فرمایا اور اس کے ذریعہ سے ان پر اتمام حجت کا جو سامان کیا اس کا حوالہ اور اس بات کی یاد دہانی کہ اگر انہوں نے بھی اپین رسول کی تکذیب کی وہی روش اختیار کی جو ان سے پہلے کی قوموں نے اختیار کی تو اسی انجام سے دوچار ہونے کے لے تیار رہیں جس سے وہ دوچار ہوئیں اور یاد رکھیں کہ قوت و شوکت کے اعتبار سے وہ ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھیں ۔
(15-9) مخالین کے اس اعتراف کا حوالہ کہ آسمان و زمین کا خالق خدائے عزیز و علیم ہی ہے۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود انہوں نے خدا کے بندوں میں سے اس کے شریک بنا رکھے ہیں حالانکہ اس کائنات میں قدرت، ربوبیت اور حکمت کے جو آثار و شواہد ہر قدم پر موجو دہیں وہ خدا کی توحید اور قیامت پر گواہ ہیں ۔
( 25-16) ملائکہ کی الوہیت کے تصور کا ابطال دو مختلف پہلوئوں سے
ایک اس پہلو سے کہ یہ لوگ ملائکہ کہ خدا کی بیٹیاں مانتے ہیں درآنحالیکہ خود اپنے لیے بیٹیاں پسند نہیں کرتے۔ ایک چیز کو اپنے لیے پسند نہ کرنا اور اس کو خدا کی طرف منسوب کرنا صریح حماقت اور رب عزیز و جلیل کی اہانت ہے ۔
دوسرے اس پہلو سے کہ ملائکہ کو شریک خدا قرار دینے کی واحد دلیل ان کے پاس یہ ہے کہ ان کے باپ دادا ان کو شریک خدا مانتے رہے ہیں۔ حالانکہ کسی طریقہ کی صحت و صداقت کی یہ کوئیل دلیل نہیں ہے کہ یہ طریقہ ان کو اپنے باپ دادا سے ملا ہے یا تو وہ اللہ کی کسی کتاب کی سند پیش کریں یا عقل و فطرت سے کوئی دلیل لائیں ورنہ اسی انجام سے دوچار ہونے کے لئے تیار رہیں ج سے وہ قومیں دوچار ہوئیں جنہوں نے اس قسم کے لا طائل بہانوں کی آڑ لے کر اپنے رسولوں کی تکذیب کی ۔
(28-26) تاریخ کی روشنی میں مشرکین کے اس دعوے کی تردید کہ یہ دین شرک ان کے باپ دادا کی وراثت ہے۔ ان کے اصل جدامجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے اننی برآء مما تعبدون (میں ان چیزوں سے بری ہوں جن کو تم پوجتے ہو) کا یادگار کلمہ کہہ کر اپنی قوم کو چھوڑا اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو مکہ میں بسایا۔ ان کا یہ اعلان ہجرت ایک مقدس روایت کی حیثیت سے ان کی ذریت میں باقی رہا تو یہ کہنے کے کیا معنی کہ یر شرک ان کے باپ دادا کی وراثت ہے !
(45-29 ) مکذبین کی سرکشی کے اصل سبب کا بیان کہ یہ اپنی جہالت کے حق میں جو دلیلیں گھڑنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ محض سخن سازی ہے۔ اصل چیز جو ان کے لئے فتنہ بنی ہوئی ہے وہ ان کی دنیوی رفاہیت ہے حالانکہ خدا کی میزان میں اس رفاہیت کا کوئی وزن نہیں ہے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے اور یہ اس سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ شیطان نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔ اور یہ پٹی ان کی اس وقت کھلے گی جب اس کا کھلنا اور نہ کھلنا دونوں ہی بے سود ہوگا۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ تم اپنی دعوت حق پر جمے رہو۔ ہم ان کا انجام یا تو تمہاری زندگی ہی میں دکھا دیں گے یا تمہارے بعد یہ اس سے دوچار ہوں گے۔ تم جس دنی کی دعوت دے رہے ہو وہ دین حق یہی ہے، تمام انبیائکی ہشادت اسی کے حق میں ہے۔
(65-46) حضرات انبیاء علیہم السلام میں سے دو غیبوں … حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ … کی دعوت کا حوالہ کہ انہوں نے بھی بعینیہ اسی دین توحید کی دعوت دی۔ حضرت موسیٰ نے اپنی رسالت کے حق میں، فرعون اور اس کے اعیان کو ایک سے ایک بڑھ کر نشانیاں دکھائیں لیکن وہ کسی نشانی سے بھی قائل نہ ہوئے۔ ان کی تکذیب کا سبب بعینیہ یہی تھا جو قریش کے ان فراعنہ کی تکذیب کا ہے۔ بالآخر وہ کیفر کردار کو پہنچے، وہی انجام ان لوگوں کا بھی ہونا ہے ۔
اسی توحید کی دعوت حضرت عیسیٰ علیہ ا لسلام نے بھی دی۔ ان کا نام سنتے ہی قریش کے جھگڑالو تم سے مناظرہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ ان سے بہتر تو ہمارے ہی معبود ہیں گویا ان جاہلوں کے نزدیک قرآن ان کا ذکر خیر اس لئے کر رہا ہے کہ لوگ نصاریٰ کی طرح ان کو ابن اللہ مانیں۔ حالانکہ قرآن ان کو ابن اللہ کی حثیت سے نہیں پیش کر رہا ہے بلکہ اس حیثیت سے پیش کر رہا ہے کہ ان کی دعوت ان اللہ ھو ربی و ربکم قاعبدوہ (اللہ ہی میرا بھی رب ہے اور وہی تمہارا بھی رب ہے تو اسی کی بندگی کرو) کی دعوت تھی۔ ان کی اس دعوت حق میں اختلافات تو بعد والوں نے پیدا کئے ہیں اور وہ عنقریب اس کا انجام دیکھیں گے ۔
(89-66) خاتمہ سورۃ جس میں پہلے ان لوگوں کا انجام بیان ہوا ہے جو اس دعوت حق پر ایمان لائیں گے۔ پھر ان لوگوں کا اجنام بیان ہوا ہے جو اس کی تکذیب کریں گے۔ آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ ان ضدی لوگوں سے اعراض کرو۔ یہ خود اپنا انجام دیکھ لیں گے اور فرشتوں کی جس شفاعت کے بل پر اکڑ رہے ہیں اس کی حقیقت ان کے سامنے آجائے گی ۔
اس تجزیہ مطالب پر ایک نظر ڈلا کر دیکھ لیجیے کہ عمود کے ساتھ اس کے ہر جزو کا کیسا گہرا تعلق اور شروع سے لے کر آخر تک یہ پوری سورۃ کس طرح مربوط ہے۔ اب ہم اللہ کا نام لے کر سورۃ کی تفسیر تشروع کرتے ہیں۔ وبیدہ التوفیق