44۔ سورہ الدخان : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


44۔ سورہ الدخان کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ

ا - سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
اس سورۃ کا قرآنی نام دہی ہے جو سابق سورۃ کا ہے اور اس کی تمہید بھی اصل مدعا کے اعتبار سے تقریباً وہی ہے جو سابق سورۃ کی ہے۔ البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ سابق سورۃ میں توحید کے دلائل کا پہلو نمایاں ہے اور اس میں توحید کے دلائل کے بجائے انذار کا پہلو غالب ہے۔ پوری سورۃ پر تدبر کی نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ اس میں قرآن اور رسالت کا اثبات اس پہلو سے ہے کہ قرآن منکرین کو جس انجام کی خبر دے رہا ہے وہ دنیا میں بھی شدنی ہے اور آخرت میں بھی۔ تاریخ اس کی شہادت دے رہی ہے اور یہی عقل و فطرت کا تقاضا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سابق سورۃ کی آخری آیت میں یہ جو فرمایا ہے کہ فاصفح عنھم وقل سلام فسوف یعلمون (الزخرف :89) (ان کو نظر انداز کرو اور کہو میرا سلام لو، پس یہ عنقریب جان لیں گے) اس سورۃ میں اس تہدید کے دلائل و قرائن کی وضاحت ہے۔ گروپ کی آگی کی سورتوں میں یہ مضمون زیاہ واضح ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ گروپ کے آخر میں جو مدنی سورتیں ہیں ان میں قریش کے عزل اور اہل ایمان کی نفرت اور ان کے غلبہ کا بالکل قطعی الفاظ میں اعلان فرما دیا گیا ہے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(16-1) قرآن کی عظمت و شان اور اس کے اہتمام نزول کی طرف اشارہ کہ یہ مبارک لیلتہ القدر میں اتارا گیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے تمام امور مصلحت کی تقسیم ہوتی ہے۔ یہ خدائے سمیع و علیم کی رحمت و ربوبیت کے تقاضوں سے ظہور میں آیا ہے جس کے سوا کوئی رب نہیں اور مقصود اس کے اتارنے سے انذار ہے کہ جو لوگ غفلت میں پڑے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں وہ جاگیں اور جو دن آنے والا ہے اس کے لئے تیاری کریں۔ جو لوگ رسول کی صداقت کے لئے یہ شرط ٹھہراتے تھے کہ ان کو عذاب دکھا دیا جائے، ان کو تنبیہ کو عذاب دیکھ لینے کے بعد جو ایمان لایا جاتا ہے وہ سود مند نہیں ہوتا۔ اگر عذاب کے آنے میں اس وقت تاخیر ہو رہی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ عذاب کی دھمکی محض دھمکی ہے۔ اگر اللہ نے یہاں لوگوں کو مہلت دے بھی دی تو اس سے وہ خدا کے عذاب سے محفوظ نہیں ہوجائیں گے۔ ان کی پکڑ لازماً آخرت میں ہوگا اور یہ بالکل مبنی بر انصاف ہوگا۔ اہل کفر اپنی ناشکریوں کی سزا بھگتیں گے اور اہل ایمان اپنی نیکیوں کا پورا پورا صلہ پائیں گے اور یہی اصل کامیابی ہے نہ کہ وہ جس پر یہ نادان ریجھے ہوئے ہیں ۔

(59-58) خاتمہ سورۃ، جس میں اس احسان عظیم کے ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ ہے جو قرآن کو عربی مبین میں نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے قریش اور اہل عرب پر فرمایا۔ واضح رہے کہ قرآن کی عظمت کے بیان ہی سے اس سورۃ کا آغاز ہوا تھا اور اسی مضمون پر اس کا خاتمہ بھی ہوا ہے۔ اس میں قریش کو یہ تنبیہ ہے کہ ان پر اتمام حجت کے لئے اللہ نے اس کتاب کو تمام ضروری لوازم سے آرساتہ کر کے بھیجا ہے۔ اگر انہوں نے اس کی قدر نہ کی تو اس انجام سے دوچار ہونے کے لئے تیار رہیں جو رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے لئے مقدر ہے۔ آخری آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی بھی دی گی ہے کہ اگر یہ لوگ اس نعمت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے عذاب ہی کے منتظر ہیں تو تم بھی ان کے لئے اب اس روز بدہی کا انتظار کرو ۔