46۔ سورۃ الاحقاف: تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


46۔ سورۃ الاحقاف کا تعارف اور اس کے مطالب کا تجزیہ
-1 سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ اس گروپکی آخری مکی سورۃ ہے۔ اس کے بعد تین سورتیں مدنی ہیں جن میں انہی وعدوں اور وعیدوں کی تکمیل ہے جن کا پچھلی مکی سورتوں میں ذکر ہوا ہے۔ اس کا قرآنی نام وہی ہے جو پچھلی سورۃ کا ہے اور اس کی تمہیں بھی بعینہ وہی ہے جو پچھلی سورۃ کی ہے۔ اس میں مخالفین قرآن کو نہایت آشکار الفاظ میں آگاہ کیا گیا ہے کہ قرآن جس روز قیامت سے تم کو خبردار کر رہا ہے وہ ایک امر شدنی ہے۔ شرک و شفاعت کے بل پر اگر تم اس انداز کو نظر انداز اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک مفتری قرار دے رہے ہو تو یاد رکھو کہ تمہارے ان ادہام کے حق میں عقل و نقل کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ برعکس اس کے یہ قرآن ایک ایسی چیز ہے جس کی شہادت اس کے نزول سے پہلے ہی بنی اسرائیل کے ایک عظیم شاہد نے بھی دی ہے اور اس کی پیشین گوئیاں تورات میں بھی موجود ہیں جن کا یہ ٹھیک ٹھیک مصداق ہے اس وجہ سے تمہیں یہود اور نصاریٰ کی شہ سے بھی کسی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے، یہ لوگ تو خود اپنے رسولوں اور اپنے صحفیوں کو جھٹلا رہے ہیں ۔
اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہایت واضح الفاظ میں تسلی دی ہے کہ ان مخالفین کی ذرا پروا نہ کرو۔ تمہاری ذمہ داری لوگوں تک اس کتاب کو پہنچا دینے کی ہے۔ اس پر ایمان وہی لوگ لائیں گے جن کی طبیعت میں سلامت روی، حق شناسی اور عاقبت بینی ہے۔ ان لوگوں سے کسی خیر کی امید نہ رکھو جو بالکل مادر پدر آزاد ہیں۔ تم جو چیز پیش کر رہے ہو اس کی اثر آفرینی کا حال تو یہ ہے کہ راہ چلتے جنوں کے کان میں بھی اس کے کلمات پڑ گے ہیں تو وہ بھی اس پر فریضتہ ہوگئے ہیں۔ اگر ان لوگوں پر اس کا اثر نہیں پڑ را ہے تو یہ اس کلام کی کوئی خرابی نہیں بلکہ ان کے دلوں ہی کی خرابی ہے۔ تم صبر کے ساتھ اپنا کام کرو اور ان کو ان کے انجام کے حوالہ کرو جس کے ظہور میں اب زیادہ دیر نہیں ہے ۔
ب - سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(14-1) قرآن خدائے عزیز و حکیم کا نازل کیا ہوا صحیفہ ہے لیکن جو لوگ آخرت کے منکر ہیں وہ اس سے اعراض کر رہے ہیں، حالانکہ یہ دنیا کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم غایت و مقصد کے ساتھ اس کو پ یدا کیا ہے اس وجہ سے ضروری ہے کہ ایک دن اس کی مدت پوری اور اس کا انجام ظاہر ہو۔ ان لوگوں کا عاتماد اپنے شرکاء و شفعاء پر ہے۔ ان کا گمان ہے کہ قیامت ہوئی تو وہ ان کو بچا لیں گے حالانکہ ان شرکاء کے حق میں نہ کوئی نقلی دلیل موجود ہے نہ عقلی یہ لوگ ان سے لو لگائے بیٹھے ہیں اور ان کو خبر بھی نہیں کہ کوئی ان کی پرستش کر رہا ہے اور ان کو مدد کے لئے پکار رہا ہے۔ وہ قیامت کے دن کے مددگار ہونے کے بجائے الٹے ان کے دشمن ہوں گے یہ قرآن کے دلائل سے مرعوب ہو کر اس کو سحر کہتے اور پیغمبر کو مفتری قرار دیتے ہیں۔ ایسے ہٹ دھرم منہ لگافے کے قابل نہیں۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ ان لوگوں کو بتا دو کہ میں دنیا میں پہلا رسول نہیں ہوں، مجھ سے پہلے بھی رسول آ چکے ہیں۔ میں بھی انہی خصوصیات و صفات کے ساتھ آیا ہوں جن خصوصیات و صفات کے ساتھ وہ آئے۔ ان کو آگاہ کر دو کہ یہود و نصاریٰ کے چکمے میں آ کر اگر تم میری مخلافت کر رہے ہو تو اس کے انجام بد کو اچھی طرح سوچ لو۔ بنی اسرائیل کا ایک عظیم شاہد میری گواہی دے چکا اور مجھ پر ایمان لا چکا ہے اور تورات کی پیشین گوئیوں کا بھی میں مصداق ہوں۔ اگر میرے اوپر غریب لوگ ایمان لائے ہیں تو اس کو بہانہ بنا کر اپنے کو اللہ کی رحمت سے محروم نہ کرو۔
(20-15) اس امر کا بیان کہ کس طرح کے لوگ اس قرآن پر ایمان لائیں گے اور کس طرح کے لوگ اس کی تکذیب کریں گے ۔
اس پر ایمان وہ لائیں گے جو ان حقوق کو پہچانتے ہیں جن کا شعور فطرت کے اندر ودیعت ہے۔ جو اپنے ماں باپ کے احسان شناس اور ان کے فرمانبردار رہے ہیں۔ جوانی کے دور میں اگرچہ جذبات کے غلبہ سے انہوں نے ٹھوکریں بھی کھائیں، لیکن اس طرح نہیں کہ گولے ہوں تو پھر اٹھنے کا نام ہی نہ لیا ہو بلکہ گرنے کے بعد سنبھلتے بھی رہے ہیں یہاں تک کہ جب وہ پختگی کے سن و سال یعنی چالیس سال کی عمر کو پہنچے تو انہوں نے صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا کہ اے رب، اب تو ہمیں سنبھلا کہ ہم تیرے انعامات کا شکر ادا کر سکیں جو تو نے ہم پر اور ہمارے ماں باپ پر کئے ہمیں عمل صالح کی توفیق بخش اور ہماری اولاد کو بھی صالح بنا ہم نے تیری طرف رجوع کیا اور تیرے فرماں برداروں میں سے بنتے ہیں۔ اس طرح کے سلیم الفطرت لوگوں کے گناہوں سے اللہ تعالیٰ در گزر فرمائے گا اور ان کو اہل جنت میں شامل کرے گا ۔
اس کو جھٹلانے والے وہ ہوں گے جنہوں نے اس کے بالکل برعکس مادر پدر آزاد زندگی گزاری۔ نہ ماں باپ کے حقوق انہوں نے پہچانے اور نہ خدا کے حقوق کا کبھی ان کو خیال آیا۔ اگر ماں باپ نے آخرت اور حساب کتاب سے ڈرایا تو انہوں نے جھڑک دیا کہ یہ سب اگلوں کے ڈھکو سلے ہیں، ہم اس طرح کی خرافات پر ایمان لانے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر مرنے کے بعد پھر زندگی ہے تو آخر بے شمار خلقت جو مرچکی ہے وہ زندہ ہو کر کیوں نہیں واپس آتی۔
مذکورہ دونوں قسم کے لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں ان کے اعمال کے اعتبار سے جزا یا سزا ہوگی۔ نیک اپنی نیکیوں کا بھرپور صلہ پائیں گے اور بد اپنی بدیوں کی سزا بھگتیں گے۔ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرے گا۔ وہ متکبرین جو قرآن کے خلاف اس بات کو دلیل بنائے ہوئے ہیں کہ اس کو غریبوں نے قبول کیا ہے وہ جب دوزخ میں جھونکے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم اپنے حصہ کی اچھی چیزیں دنیا میں لے چکے۔ اب یہاں تمہارے لئے ذلت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
(28-21) قریش کی تنبیہ کے لئے قوم عاد کی مثال کہ ان کو بھی تمہاری ہی طرح اللہ کی پکڑسے ڈرایا گیا لیکن انہوں نے اپنی قوت و صولت کے غرور میں اس کی کوئی پروانہ کی بالآخر اللہ نے ان کو ہلاک کردیا درآنحالیکہ وہ قوت و شوکت اور تعمیر و تمدن کے اعتبار سے تم سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھے لیکن ان کی ساری ذہانت و فطانت اللہ کے مقابل میں ان کے کچھ کام نہ آئی ۔
(32-29) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے قرآن سے متعلق جنوں کے ایک تاثر کا حوالہ کہ اگر قریش کے ناقدیر قرآن کی قدر نہیں کر رہے ہیں تو اس میں قرآن کا یا تمہارا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ یہ انہی کے دلوں کی خرابی کا نتیجہ ہے۔ قرآن کی تاخیر و تسخیر کا حال تو یہ ہے کہ جنوں کی ایک جماعت کے کان میں اس کی چند آیتیں پڑگئیں تو وہ اس پر اس طرح فریضتہ ہوگئے کہ اپنی قوم کے اندر وہ اس کے داعی بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔
(35-33) خاتمہ سورۃ کفار کے لئے تہدید و وعید اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و عزیمت کی تلقین کی ۔