83۔ سورۃ المطففین : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ سابق سورۃ ……الانفطار…… کا تکملہ و تتمہ ہے۔ دونوں کا عمود بنیادی طور پر ایک ہی ہے۔ سورۂ انفطار کے آخر میں ابرار اور فجار کی جو تقسیم ہے اس سورۃ میں اسی کی تفصیل ہے۔ صرف استدلال کی بنیاد دونوں میں الگ الگ ہے۔ سابق سورۃ میں استدلال اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے ہے جو خود انسان کی خلقت کے اندر نمایاں ہیں۔ اس سورۃ میں استدلال اس فطرت سے ہے جو فاطر نے انسان کے اندر ودیعت فرمائی ہے ۔
اس استدلال کی تقریر بالا جمال یوں ہے کہ انسان بالطبع عدل اور خیر کو پسند کرنے والا اور ظلم و شر سے نفرت کرنے والا ہے۔ اس کی یہ پسند اور ناپسند اس بات کی شہادت ہے کہ فاطر فطرت عدل اور ظلم یا بالفاظ دیگر عادل اور ظالم میں فرق و امتیاز کرنے والا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ نیک اور بد دونوں اس کے نزدیک یکساں ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ انسان کی فطرت میں نیک اور بد میں یہ امتیاز کیوں رکھتا ؟
رہا یہ سوال کہ انسا جب طبعاً نیکی پسند ہے تو وہ بدی کیوں کر گزرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بدی اس وجہ سے نہیں کرتا کہ یہی اس کو طبعاً مرغوب ہے۔ طبعاً تو اس کو مرغوب نیکی ہی ہے لیکن بسا اوقات نفس کے دوسرے داعیات سے وہ مغلوب ہو کر، اپنی فطرت کے خلاف بدی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ اگر بد ی اور ناانصافی اس کو طبعاً مرغوب ہوتی تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ کوئی اس کے ساتھ ناانصافی کرتا تو وہ اس پر بھی راضی رہتا لیکن ہر شخص دیکھتا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہی شخص جو دوسروں کے لئے ناپ اور تول میں بے ایمانی کرتا ہے جب دوسرے اس کے ساتھ یہی معاملہ کرتے ہیں تو وہ چیختا اور فریاد کرتا ہے ۔
قرآن نے اس سورۃ میں انسان کی اسی فطرت کو شہادت میں پیش کر کے یہ تذکیر فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ خود عادل ہے اور اس نے اپنے بندوں کے اندر بھی عدل اور خیر کی محبت و ودیعت فرمائی ہے اس وجہ سے لازمی ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جس میں ان لوگوں کو بھرپور انعام دے جو اپنی فطرت کے اس نور کی قدرکریں اور ان لوگوں کو سزا دے جو اس کی بے حرمتی کریں ۔
قیامت کے حق میں یہ طریق استدلال قرآن نے جگہ جگہ اختیار کیا ہے اور ہم برابر اس کی وضاحت کرتے آ رہے ہیں۔ خاص طور پر سورۂ قیامہ میں ’ نفس لوامہ‘ کی قسم اور ’ بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ۔ ولو القی معاذیرہٗ ‘(القیمۃ۔ ٧٥ : ١٤۔ ١٥) (بلکہ انسان خود اپنے اوپر حجت ہے اگرچہ وہ کتنے ہی عذرات تراشے) کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب کی ترتیب اسی طرح ہے :
(١۔ ٦) ان لوگوں کے حال پر افسوس جو اپنے لئے تو چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہونے پائے لیکن جب وہ دوسروں سے معاملہ کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ حالانکہ عدل پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جو بات وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتے دوسروں کے لئے بھی پسند نہ کریں ان کا یہ رویہ شاہد ہے کہ وہ اس عظیم دن کی توقع نہیں رکھتے جس دن لوگ اپنے رب کے حضور میں پیشی کے لئے اٹھائے جائیں گے ۔
(٧۔ ١٧) ان فجار کے انجام کی تفصیل جنہوں نے جزاء و سزا کے دن کو جھٹلایا زندگی خدا کی نافرمانی میں گزاری ۔
(١٨۔ ٢٨ ) ابرار کے انجام کا بیان جو روز جزا پر ایمان لائے اور جنہوں نے زندگی اس سے ڈرتے ہوئے گزاری ۔
(٢٩۔ ٣٦) اس انقلاب حال کی تصویر جو ایک دن سب کے سامنے آنے والا ہے۔ آج کفار اپنے حال میں مگن ہیں اور اہل ایما ن کا مذاق اڑا رہے ہیں، اس دن اہل ایمان اپنی فیروزمندی پر شادمان ہوں گے اور کفار کا مذاق اڑائیں گے ۔