105۔ سورۃ الفیل : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

سورہ کا عمود، سابق سے تعلق اور ترتیب بیان
’ القارعۃ‘ سے لے کر ’ الھمزۃ‘ تک خاص بات جو قریش پر واضح فرمائی گئی ہے وہ یہی ہے کہ انہوں نے مال اور اولاد کے عشق میں مبتلا ہو کر اللہ اور بندوں کے حقوق تو تمام برباد کر دیئے ہیں لیکن یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسمٰعیل (علیہ السلام) کے وارث اور ان کے بتائے ہوئے گھر کے متولی ہیں۔ اب اس سورۃ اور اس کے بعد کی سورہ… قریش… ہیں، جو اس کی توام ہے، ان کو یہ تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ تمہیں اس سرزمین میں جو امن اور رزق حاصل ہے وہ تمہاری تدبیر و قابلیت اور تمہارے استحقاق کا کرشمہ نہیں بلکہ یہ تمام تر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور ان کے بنائے ہوئے اس گھر کی برکت کا ثمرہ ہے اس وجہ سے تم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس امن و رزق پر نازاں ہونے کے بجائے اس گھر کے خداوند کی بندگی کرو جس نے تمہیں بھوک میں کھلایا اور خطرہ سے نچنت کیا ہے۔ یہ مضمون آگے والی سورۃ میں یوں واضح فرما دیا گیا ہے : ’ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ۔ الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰ مَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ ۔‘‘ (قریش۔ ١٠٦ : ٣۔ ٤) (پس چاہئے کہ وہ اس گھر کے خداوند کی بندگی کریں جس نے ان کو بھوک میں کھلایا اور خطرے سے نچنت کیا) ان دونوں سورتوں میں بس یہ فرق ہے کہ سورۂ فیل میں ایک نہایت اہم شہادت اس امر کی پیش کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کی حفاظت کے لئے اپنی کیا شان دکھائی ہے اور سورۂ قریش میں یہ واضح کیا ہے کہ اس سرزمین کے باشندوں کے لئے رزق و فضل کی جو راہیں کھلی ہیں وہ اسی گھر کے واسطہ سے کھلی ہیں ۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس وقت حضرت اسمٰعیل (علیہ السلام) کو مکہ کی سرزمین میں بسایا ہے اس وقت یہ علاقہ امن اور رزق کے وسائل سے بالکل محروم تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان دونوں چیزوں کے لئے دعا کی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور ان کی ذریت کو یہ دونوں چیزیں حرم ہی کے واسطہ سے حاصل ہوئیں لیکن بعد میں لوگ اس حقیقت کو فراموش کر کے اپنی بدمستیوں میں کھو گئے۔ ان کی اس ناشکری پر قرآن نے ان کو جگہ جگہ تنبیہ فرمائی ہے جس کی وضاحت ہم کرتے آ رہے ہیں۔ اس گرو پ کی سورتوں میں سے سورۂ بلد میں بھی اس کے بعض اہم پہلو زیر بحث آئے ہیں، تفصیل مطلوب ہو تو اس پر ایک نظر ڈال لیجئے ۔

زیر نظر سورۃ میں قریش کو ابرہہ کی اس فوج کشی کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس نے بیت اللہ الحرام کو ڈھا نے کے ناپاک ارادے سے ساٹھ ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ، مکہ پر کی۔ ایک ایسے بھاری لشکر سے، بالخصوص جب کہ اس کا ہر اول دستہ ہاتھیوں پر مشتمل ہو، عربوں کے لئے میدان میں نکل کر عہدہ برآ ہونا آسان نہیں تھا اس وجہ سے انہوں نے پہاڑوں میں محفوظ ہو کر سنگ باری کی صورت میں اپنی مدافعت کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ یہ مدافعت ایک کمزور مدافعت تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید غیبی سے ان کی اسی کمزور مدافعت کو ابرہہ کے لشکر گراں کے لئے ایک قہر الٰہی بنا دیا اور وہ اس طرح تباہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا گوشت مکہ کی وادی میں چیلوں، کوئوں اور گدھوں کو کھلایا ۔