104 ۔ سورۃ الھمزۃ : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

یہ سورۃ سابق سورہ…… العصر…… کی مثنی ہے۔ دونوں کے مضمون میں نہایت واضح مناسبت، جو باول وہلہ سامنے آتی ہے، یہ ہے کہ سابق سورۃ میں فلاح پانے والے انسانوں کا کردار یہ بیان ہوا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق و صبر کی تلقین کرتے ہیں اور اس سورۃ میں اس کے بالکل ضد کردار یعنی ان نجیلوں کا کردار بیان ہوا ہے جو روپیہ گن گن کر رکھتے ہیں اور لوگوں کو ادائے حقوق پر ابھارنا تو درکنار، کسی کو اگر دیکھ پائیں کہ وہ ادائے حقوق پر ابھارنا تو درکنار، کسی کو اگر دیکھ پائیں کہ وہ ادائے حقوق کے معاملے میں عملاً و قولاً سرگرم ہے تو اپنے طعن و طنز اور ہمزولمز سے اس کا قافیہ تنگ کر دیتے ہیں اور ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا حوصلہ اتنا پست کر دیں کہ وہ بھی انہی کی طرح بے حس و بے غیرت بن کر رہ جائے تاکہ اس کی نجالت پر پردہ پڑا رہے اور اس کی دعوت و تلقین سے ن کے ضمیر کو خفت و ندامت کی اذیت سے دوچارنہ ہونا پڑے ۔

قرآن نے بخیل سرمایہ داروں کے اس کردار کی طرف جگہ جگہ اشارہ کیا ہے۔ مثلاً سورۂ توبہ میں فرمایا ہے :
اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُہْدَہُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْط سَخِرَ اللہ ُ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔
(التوبۃ۔ ٩ : ٧٩)
جو لوگ خوش دلی سے انفاق کرنے والے اہل ایمان پر ان کے صدقات کے باب میں نکتہ چینی کرتے ہیں اور جو غریب اپنی محنت و مزدوری ہی سے انفا ق کرتے ہیں تو ان پر پھبتیاں چست کرتے ہیں، اللہ نے ان کا مذاق اڑایا اور ان کے لئے ایک دردناک عذاب ہے ۔

اس آیت کے تحت ہم نے تدبر قرآن میں جو کچھ لکھا ہے۔ اس کا ضروری ہم یہاں نقل کئے دیتے ہیں تاکہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے ۔
’’ متطرع اور ’ مطوع‘ دونوں ایک ہی لفظ ہیں۔ ’ مطوع‘ اس کو کہتے ہیں جو صرف فرائض و واجبات ہی ادا کرلینے پر قناعت نہ کر بیٹھے بلکہ اپنی خوشی اور حوصلہ مندی سے نفلی نیکیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے ۔‘‘
’ لمز‘ کے معنی عیب لگنا، ہجو کرنا، مذمت کرنا ۔‘‘

’’ اوپر کی آیات میں یہ بیان ہوا ہے کہ منافقین نہ صرف یہ کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے دیکھ نہیں سکتے۔ جس کو خرچ کرتے دیکھتے ہیں اس کو فوراً ہمزولز کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ جو فیاض اور مخلص مسلمان اپنی فیاضی اور خوش دلی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کو تو کہتے ہیں کہ یہ ریاکار اور شہرت پسند ہے، اپنی دینداری کی دھونس جمانے کے لئے خرچ کر رہا ہے۔ اور جو غریب بے چارے کچھ رکھتے ہی نہیں، بس اپنی محنت مزدوری کی گاڑھی کمائی ہی میں سے کچھ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کے لئے یہ ان کا مذاق اڑاتے اور ان پر پھبتیاں چست کرتے ہیں کہ لو، آج یہ بھی اٹھے ہیں کہ حاتم کا نام دنیا سے مٹا کے رکھ دیں گے ۔‘‘

بخیلوں اور کنجوسوں کی نفسیات کا یہ پہلو ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ اپنی بخالت پر پردہ ڈالے رکھنے کے لئے ان کی کوشش ہمیشہ یہ رہتی ہے کہ دوسرے بھی بخیل بنے رہیں۔ نکٹا دوسروں کو بھی نکٹا ہی دیکھنا چاہتا ہے تاکہ اسے کوئی نکٹا کہنے والا باقی نہ رہے۔ یہی نفسیات ان بخیلوں کی بھی تھی۔ پھر اس سے ان کی اسلام دشمنی کے جذبہ کو بھی تسکین ہوتی تھی۔ وہ نہ خود خدا کی راہ میں کوڑی خرچ کرنا چاہتے تھے، نہ اس بات پر راضی تھے کہ کوئی دوسرا خرچ کرے۔ اپنی اس خواہش کے برخلاف جب دوسروں کو دیکھتے کہ وہ اسلام کے لئے اس دریا دلی سے لٹا رہے ہیں گویا اپنے ہی گھر بھر رہے ہیں، یہاں تک کہ مزدور اپنی مزدوری میں سے، بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر، اس خوشی سے دیتا ہے گویا اپنی آدھ سیر کھجور یا جو کے عوض دولت کو نین خرید رہا ہے تو ان بخیلوں کے سینہ پر سانپ لوٹ جاتا۔ وہ غصہ سے کھولتے اور حسد سے جلتے پھر اپنے دل کا بخار طعن و تشنیع، طنز اور پھبتی سے نکالتے ۔‘‘

بخیلوں کا یہ کردار ان کی بے بسی کی تصویر ہے۔ بخالت کے سبب سے نہ یہ حوصلہ ان کے اندر ہوتا کہ ادائے حقوق کے میدان میں سبقت کر سکیں اور نہ ادائے حقوق کی دعوت دینے والوں کی زبانیں ہی بند کرسکتے۔ اپنی مدافعت کی واحد تدبیر ان کے پاس صرف یہ رہ جاتی ہے کہ ان لوگوں کا مذاق اڑائیں اور ان پر پھبتیاں چست کریں جن کی دعوت سے ان کی پردہ دری ہو رہی ہو۔ ان کی یہ کوشش چونکہ اپنے باطن پر پردہ ڈالنے کی تھی اس وجہ سے قرآن نے اس سورۃ میں ان کے ظاہر و باطن کے ہر گوشہ کو اچھی طرح بے نقاب کردیا ہے ۔

یہ امر واضح رہے کہ ان سورتوں میں اگرچہ اصلاً زیر بحث بخیلوں کا کردار ہے لیکن یہی کردار ان لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو دوسری اخلاقی کمزوریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہ بھی اپنے سے برتر کردار رکھنے والوں کا مقابلہ ہمیشہ اپنے ہمزولز سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قوم لوط کے گنڈوں نے جب دیکھا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی دعوت اصلاح کے مقابل میں ان کے لئے اپنی آبرو بچانا دشوار ہو رہا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے رویہ کی اصلاح کرتے انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) اور کے ساتھیوں پر فقرے چست کرنے شروع کر دیئے کہ ’’ یہ لوگ بڑے پارسا بنتے ہیں‘‘ اور قوم کو ابھارا کہ ان لوگوں کو ملک سے باہر نکالو، ورنہ یہ پوری قوم کو ذلیل کر دیں گے ۔