90۔ سورۃ البلد : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

یہ سورۃ سابق سورۃ الفجر کی توام ہے۔ دونوں کے عمود میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ سابق سورۃ میں انسان کی اس غلطی فہمی پر متنبہ فرمایا گیا ہے کہ جب اس کو نعمت ملتی ہے تو وہ یہ خیال کر کے اکڑنے اور اترنے لگتا ہے کہ یہ اس کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی عزت افزائی فرمائی ہے اور اگر کوئی آزمائش پیش آجاتی ہے تو مایوس و دل شکستہ ہوجاتا ہے کہ یہ اس کی حق تلفی ہوئی ہے اور خدا نے اس کو ذلیل کردیا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کوئی حالت بھی نہ عزت افزائی کے لیے پیش آتی نہ دلیل کرنے کے لیے بلکہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ بندے کے شکر یا صبر کا امتحان کرتا ہے۔ انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ نہ نعمت پا کر اکڑنے والا بنے نہ اس سے محروم ہو کر دل شکستہ و مایوس ہو بلکہ نعمت ملے تو اپنے رب کا شکر گزار بندہ بنے اور اس نعمت میں اللہ کے دوسرے حاجت مندوں کو شریک کرے اور اگر کوئی افتاد پیش آئے تو اپنی محرومی کا رونا روتے اور خدا کو کوسنے کے بجائے فیصلہ تقدیر پر صابر و راضی رہے۔ جو بندہ یہ روش اختیار کرتا ہے اس کا نفس ’ نفس مطمئنہ‘ ہے اور آخرت میں اس کو راضیۃ مرضیۃ کی بادشاہی حاصل ہوگی ۔

اس سورۃ میں اسی کلیہ کو قریش پر منطبق کیا ہے اور یہ دکھایا ہے کہ یہ سر زمین سر زمین مکہ اس زمانے میں جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے فرزند، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو یہاں بسایا ہے۔ رزق کے وسائل سے بھی محروم تھی اور امن سے بھی۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی ذریت کے لیے رزق اور امن کی جو دعا فرمائی اس کی برکت سے یہاں رزق کی بھی فراوانی ہوئی اور امن کے اعتبار سے بھی اس علاقے کا یہ حال ہوا کہ یہاں کسی انسان تو درکنار کسی جانور کو بھی دکھ پہنچانا گناہ ٹھہرا۔ اسی امن اور رزق کا یہ فیض ہے کہ اولاد اسماعیل یہاں خوب پھلی پھولی اور اس پورے ملک پر اس کو سیادت و قیادت حاصل ہوئی۔ لیکن یہ نعمتیں پا کر اپنی پچھلی تاریخ یہ لوگ بھو ل بیٹھے۔ اب یہ اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ یہ جو کچھ ان کو حاصل ہے ان کا پیدائشی حق ہے۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنا ان کے دلوں پر بہت گراں گزرتا ہے۔ ان کی آنکھیں عبرت نگاہی سے محروم اور زبانیں حق و صبر و احسان کے ذکر سے گنگ ہوچکی ہیں۔ اب ان کا مال ان کی اپنی عیاشیوں اور فضول خرچیوں کے لیے ہے۔ کوئی نہیں ہے جو یتیموں اور مسکینوں کی خدمت کی راہ میں کوئی قربانی پیش کرنے اور آخرت کی ابدی فائز المرامی حاصل کرنے کا حوصلہ کرے بلکہ سب نے جہنم کی راہ اختیار کرلی ہے ۔

یہ سورتیں چونکہ بالکل ابتدائی دور کی ہیں اس وجہ سے ان میں خطاب بھی بالعموم یایھا الانسان سے ہے اور ان میں جو دعوت یا اپیل ہے وہ بھی تمام تر انسانیت اور اس کی فطری مبادی پر مبنی ہے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے ۔
(١۔ ٤) سر زمین حرم اور بنی اسماعیل کی ابتدائی تاریخ سے اس بات کی شہادت کے یہ علاقہ بالکل بے آب و گیاہ تھا جس میں زندگی نہایت مشقت کی زندگی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور بیت اللہ کی برکت سے یہ ایک پر امن علاقہ بن گیا اور اس کے باشندوں کو رزق و مال کی فراوانی حاصل ہوئی ۔

(٥۔ ٧) اللہ تعالیٰ کے اس فضل و احسان کا حق یہ تھا کہ لوگ اس کے شکر گزار اور اس کے غریب بندوں کے ہمدرد و مد دگار بنتے لیکن حال یہ ہے کہ اگر راہ خدا میں ان کو انفاق کی دعوت دی جائے تو کہتے ہیں کہ کہاں تک کوئی خرچ کرے ؟ ڈھیروں مال تواڑ ا چکے ! گویا ان کو گمان ہے کہ خدا ان کی ان شاہخرچیوں کودیکھ نہیں رہا ہے ! ۔

(٨۔ ١٧)۔ ان زر پرستوں کو ملامت کہ اللہ نے ان کو آنکھیں دی تھیں کہ ان سے عبرت حاصل کرتے، زبان اور ہونٹ دیے تھے کہ ان سے لوگوں کو یتیموں اور مسکینوں کی اعانت پر ابھارتے، نیکی اور بدی کا امتیاز دیا تھا کہ بدی کہ ترغیبات کا مقابلہ کر کے نیکی کے کام کرتے، یتیموں اور مسکینوں کی مدد کرتے، ایمان والوں اور صبر و ہمدردی کی دعو ت دینے والوں میں سے بنتے لیکن یہ سب کچھ پا کر وہ اپنے رب کے شکر گزار بننے کے بجائے اپنے نفس اور مال کے پرستار بن کربیٹھ رہے ۔

(١٨۔ ٢٠ )۔ حالانکہ اگر یہ راہ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں بڑے اجر کے مستحق ٹھہرتے لیکن انہوں نے اللہ کی آیات کا الکار اپنے لیے دوزخ کی آگ کا سامان کیا ۔