89۔ سورۃ الفجر: تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
سابق سورۃ آسمان و زمین کی بعض نمایاں نشانیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس مضمون پر ختم ہوئی کہ جس خالق نے ان چیزوں کو وجود بخشا اس کی عظیم قدرت و حکمت اور اس کی غیر محدود ربوبیت سے کسی عاقل کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ مقصود اس سے اس حقیقت کو سامنے لانا ہے کہ جب وہ عظیم قدرت و حکمت رکھنے والا بھی ہے اور اس وسعت کے ساتھ اس نے اپن خوان کرم بھی بچھا رکھا ہے تو اس کی ان صفات کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں ان لوگوں سے باز پرس کرے جنہوں نے اس کی نعمتیں پا کر اس کی دنیا میں دندھالی مچائی اور ان لوگوں کو انعام دے جنہوں نے شکر گزاری اور اطاعت شعاری کی زندگی بسر کی۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو یہ اس کی رحمت و ربوبیت کے بھی منافی ہے اور اس کی قدرت و حکمت کے بھی ۔

اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ تم جس چیز سے لوگوں کو آگاہ کر رہے ہو اس کے دلائل و شواہد آسمان و زمین کے چپہ چپہ پر موجود ہیں۔ اگر ان لوگوں کو نظر نہیں آ رہے ہیں تو تم اپنا فرض انداز ادا کر دو۔ اندھوں کو راہ دکھانا تمہارا کام نہیں ہے ۔

اس سورۃ میں آفاق اور تاریخ کے بعض نہایت نمایاں آثار و واقعات کے طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ ثابت فرمایا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز کی باگ اس کے خالق و مالک کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جس کی جس حد تک چاہتا ہے ڈھیل دیتا ہے اور جہاں چاہتا ہے روک دیتا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ کوئی شے اس کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھ سکے۔ قوموں کے ساتھ بھی اس کا یہی معاملہ ہے۔ ان کو جو ڈھیل ملتی ہے اس کے اذن سے ملتی ہے اور جب ان پر گرفت ہوتی ہے تو اس کے حکم سے ہوتی ہے۔ اس کے ہاتھ ہر وقت قوموں کی نبض پر رہتے ہیں۔ اس دنیا میں ہر ایک امتحان ہو رہا ہے کہ وہ نعمت پا کر شکر کی روش اختیار کرتا ہے یا فخر و اشکبار کی۔ اسی طرح مشکل حالات و صبر و ثابت قدمی کا ثبوت دیتا ہے یا مایوسی و دل شکستگی کا۔ پہلی روش ابدی فتح و فیروز مندی کی ضامن ہے اور دوسری دائمی خسران و نامرادی کی۔ اللہ کا مبارک بندہ وہ ہے جو نفس مطمئنہ کے ساتھ اپنے رب کی طرف لوٹا، نہ نعمت پا کر مغرور ہوا اور نہ فقر کی آزمائش سے دل شکستہ۔ انہی کو (راضیۃ موضیۃ) کی بادشاہی حاصل ہوگی ۔

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

سورہ کے مطالب کی تقسیم اس طرح ہے ۔
(١۔ ٥) آفاق کی بعض نشانیوں کی طرف اشارہ جو اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ اس کائنات کی ہر چیز کی باگ اس کے خالق کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جس حد تک چاہتا ہے اس کو ڈھیل دیتا ہے اور جہاں چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ کوئی شے اس کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھ سکے یا پیچھے ہٹ سکے ۔

(٦۔ ١٤) تاریخ کی بعض عظیم قوموں کا حوالہ اس حقیقت کے ثبوت میں کہ خالق کی یہی نگرانی دنیا کی قوموں پر بھی قائم ہے۔ جب وہ اپنے اختیار سے غلط فائدہ اٹھا کر خدا کے حدود کو لانگنے کی جسارت کرتی ہیں تو ان کو بس ایک خاص حد ہی تک ڈھیل ملتی ہے۔ اس کے بعد لازماً ان کی پکڑ ہوتی ہے اور ایسی سخت پکڑ ہوتی ہے کہ وہ اپنی تمام عظمت و شوکت کے باوجود اس کے آگے سپر انداز ہوجاتی ہیں ۔

(١٥، ٢٠ ) انسان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کہ جب اس کو نعمت ملتی ہے تو وہ اس کو اپنا حق سمجھتا اور اس مغالطہ میں پڑجاتا ہے کہ وہ خدا کی نظروں میں عزت و شرف دیکھنے والا ہے اس وجہ سے اس کی عزت افزائی ہوئی ہے۔ اسی طرح اگر وہ نعمت سے محروم ہوجاتا ہے تو سمجھتا ہے کہ خدا نے اس کی ناقدری کی ہے، حالانکہ نعمت ملے یا تنگی رزق سے سابقہ پیش آئے، دونوں ہی حالتیں بطور امتحان پیش آتی ہیں۔ پہلی حالت میں اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ انسان نعمت پا کر شکر کرنے والا اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والا بنتا ہے یا اکڑنے والا اور دوسروں کے حقوق غضب کرنے والا بن کے رہ جاتا ہے۔ دوسری صورت میں یہ دیکھتا ہے کہ وہ اپنے رب کی اس تقسیم پر قانع و صابر، راضی و مطمئن رہتا ہے یا خدا سے مایوس، شاکی اور پست ہمت بن جاتا ہے۔ دوسری صورت میں یہ دیکھتا ہے کہ وہ اپنے رب کی اس تقسیم پر قانع و صابر، راضی و مطمئن رہتا ہے یا خدا سے مایوس، شاکی اور پست ہمت بن جاتا ہے۔ حالانکہ خدا سے شاکی اور مایوس ہونے کی بجائے اسے اپنے اعمال پر نظر ڈالنی چاہیے کہ خدا کی نعمت پا کر یتیموں اور غریبوں کے ساتھ اس کا سلوک کیا ہونا چاہیے تھا اور اس نے مال کی اندھی بہری محبت میں مبتلا ہو کر ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا !

(٢١، ٢٦ ) قیامت کے دن ان لوگوں کی حسرت و مایوسی کی تصویر جو خدا کے بخشے ہوئے مال کو پا کر اس کے پجاری بن کر یبٹھ رہے، اس کو اپنی آخرت سنوارنے کا ذریعہ بن بنایا ۔

(٢٧، ٣٠) ان لوگوں کی خوش حالی و فیروز مندی کا بیان جو یسر و عسر اور تنگی و فراخی دونوں میں اپنے رب سے راضی و مطمئن رہے۔ نعمت ملی تو اس پر مغرور ہونے کے بجائے اپنے رب کے شکر گزار اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے رہے اور اگر تنگی رزق سے آزمائے گئے تو مایوس و دل شکستہ ہونے کی جگہ اپنی حالت پر صابر و قانع اور اپنے رب کے فیصلہ پر راضی رہے ۔