87۔ سورۃ الاعلی : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

 ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
سابق سورۃ الطارق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین صبر و انتظار پر ختم ہوئی ہے۔ آپ کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ تمہاری تکذیب پر اڑے ہوئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے استدراج کے پھندے میں پھنس چکے ہیں، اب ان کے دن گنتی کے ہیں جو وہ پورے کر رہے ہیں۔ ان کو تھوڑی سی مہلت اور دو ان کے طغیان کا انجام ان کے سامنے آیا ہی چاہتا ہے۔ اطمینان رکھو کہ یہ خدا کے قابو سے باہر نہیں جا سکتے۔ وہ ہر طرف سے ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔

اب اس سورۃ میں قریش کے ہٹ دھرموں سے صرف نظر کر کے براہ راست نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب فرمایا ہے اور آپ کو یہ بشارت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں ایک ترتیب و تدریج ہے اور یہ ترتیب و تدریج تمام تر اس کی حکمت پر مبنی ہے تو اپنے رب پر بھروسہ رکھو۔ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ تمہاری سعی با مراد اور اللہ کی نعمت تم پر تمام ہوگی اور راہ کی ساری رکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔ خطاب کی یہ تبدیلی آگے کی سورتوں میں کم از کم دس سورتوں تک نمایاں ہے۔ ان میں مخالفین سے کوئی بات کہی گئی ہے تو ضمناً اصل خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سے ہے اور مختلف اسلوبوں سے آپ کی وہ تمام الجھنیں دور فرمائی گئی ہیں جو دعوت کے اس مرحلے میں پیش آئیں یا جن کے پیش آنے کا امکان تھا ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے :

(١۔ ٥) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی برابر تسبیح کرتے رہنے کی ہدایت اور اس کی ان صفات کی یاددہانی جو اس بات کی دلیل ہیں کہ اس کے ہر کام میں ایک ترتیب و تدریج ہوتی ہے۔ جس طرح زمین کی نباتات آہستہ آہستہ ہی گنجان و سر سبز ہوتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی جسمانی و عقلی صلاحیتیں بھی تدریج کے ساتھ ہی کمال کو پہنچتی ہیں ۔

(٦۔ ٨) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشارت کہ قدرت کے اسی قانون کے مطابق آپ کے ساتھ بھی معاملہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی جو نعمت، وحی کی صورت میں نازل ہو رہی ہے وہ درجہ بدرجہ نازل ہوگی اور اس اہتمام کے ساتھ آپ کو تعلیم دی جائے گی کہ اس چیز کے سوا جس کو اللہ ہی نظر انداز کرانا چاہیے آپ ایک حرف بھی نہ بھولیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر سر و علانیہ سے باخبر ہے۔ آپ کو جن حالات سے سابقہ ہے یا پیش آئے گا۔ وہ ان سے اچھی طرح واقف ہے۔ مشکلات کے اندر سے آپ کے لیے آسان راہ وہ نکالے گا ۔

(٩۔ ١٣) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کی ضدیوں اور ہٹ دھرموں کے زیادہ درپے ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو سننا نہیں چاہتے ان کو سنانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ صرف وہ سنیں گے جو اللہ اور آخرت سے ڈرنے والے ہیں۔ جو محروم القسمت ہیں وہ اس سے گریز ہی کریں گے اور اپنا انجام دیکھیں گے ۔

(١٤، ١٥) ان خوش بختوں کو ابدی فائز المرامی کی بشارت جنہوں نے اپنے کو پاک کیا اور اپنے رب کو یاد کیا اور اس کی نماز پڑھی۔ (١٦، ١٩) کفار کو خطاب کر کے یہ تنبیہ کو تمہاری اصلی بیماری یہ ہے کہ تم دنیا کی زندگی اور اس کی لذات کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو اس وجہ سے تمہارے دلوں میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں نہیں اترتی ہیں۔ حالانکہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے۔ تمام اگلے نبیوں اور صحیفوں کی تعلیم یہی ہے ۔