47۔ سورہ محمد ﷺ : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


47۔ سورہ محمد ﷺ کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ

ا - سورۃ کا عمود اور گروپ کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت
پچھلی سورۃ … سورۃ احقاف … پر اس گروپ کی مکی سورتیں تمام ہوئیں، اب آگے تین سورتیں مدنی ہیں، سورۃ احقاف کے بعد یہ سورۃ اس طرح بلا تمہید شروع ہوگئی ہے گویا احقاف کی آخری آیت میں کفار کے لئے جو وعید ہے اس میں اس کا عملی ظہور ہے۔ پچھلی سورتوں میں آپ نے دیکھا کہ یہ حققیت اچھی طرح واضح کر دی گئی ہے کہ قریش اور ان کے حامی اہل کتاب جس باطل کی حمایت میں لڑ رہے ہیں نہ افٓاق و انفس اور عقل و فطرت کے اندر اس کی کوئی بنیاد ہے نہ انبیاء کی تاریخ اور آسمانی صحیفوں میں اس کی کوئی شہادت ہے۔ یہ گھورے پراگاہوا ایک درخت ہے جس نے محض اس وجہ سے جگہ گھیر رکھی ہے کہ اس کو اکھاڑنے والا ہاتھ موجود نہیں ہے۔ اب اس سورۃ اور اس کے بعد کی دونوں سورتوں میں یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ اس کو اکھاڑ پھینکنے والے ہاتھ اللہ نے پیدا کر دیئے ہیں اور تقدیر کا یہ اٹل فیصلہ صادر ہو چا ہے کہ کفار کی وہ تمام کوششیں رائیگاں ہو کے رہیں گی جو انہوں نے خق کو اللہ کے راستہ سے روکنے کے لئے صرف کی ہیں۔ ساتھ ہی اہل ایمان کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ ان کی مساعی اس دنیا میں بھی بار آور ہوں گی اور آخرت میں بھی وہی سرخرو ہوں گے بشرطیکہ وہ اپنے فرائض پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ ادا کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ اسی ضمن میں منافقوں کو دھمکی دی گئی ہے جو مدعی تو ایمان کے تھے لیکن ان کی ہمدردیاں کفار اور اہل کتاب کے ساتھ تھیں۔ ان کو آگاہ فرمایا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اس نفاق کو چھوڑ کر یکسوئی کے ساتھ اللہ اور رسول کا ساتھ نہ دیا تو ان کا بھی وہی حشر ہونا ہے جو کفار و مشرکین کے لئے مقدر ہوچکا ہے ۔
ب - سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(3-1) اس فیصلہ الٰہی کا اعلان کہ کفار نے چونکہ اپنی تمام جدوجہد باطل کی پیروی اور اس کی حمایت میں صرف کی ہے اس وجہ سے یہ بالکل رائیگاں جائے گی۔ اس کے برعکس اہل ایمان نے اپنے رب کی طرف سے آئے ہوئے حق کی پیروی کی ہے اور اس راہ میں قربانیاں دی ہیں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی مساعی دنیا اور آخرت دونوں میں برد مند کرے گا ۔
(12-4) اہل ایمان کی حوصلہ افزائی کہ اگر ان کفار سے جنگ کی نوبت آئے تو تم ان سے ذرا مرعوب نہ ہونا۔ یہ بالکل بے ثبات و بے بنیاد ہیں۔ ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دینا۔ ان کا قافیہ اس طرح تنگ کر دو کہ یا تو تمہارے احسان کے طفیل رہائی پائیں یا فدیہ دے کر جان چھڑائیں یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ان سے نمٹنے کے لئے خود کافی ہے لیکن وہ تمہارا امتحان کر چاہتا ہے اس وجہ سے تم کو یہ حکم دے رہا ہے۔ اگر تم اللہ کی مدد کے لئے اٹھو گے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے دشمن ذلیل و پامال ہوں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان سے پہلے جن قوموں نے حق کی مخالفت کی اللہ نے ان کو پامال کر دای۔ یہی حشر تمہارے ان دشمنوں کا بھی ہونا ہے ۔
(15-13) قریش کو قوت و شوکت کا جو غرہ ہے یہ بالکل بے بنیاد ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ نے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا جو ہر اعتبار سے ان پر فوقیت رکھتی تھیں۔ یہی اللہ تعالیٰ کے عدل اور اس کی حکمت کا تقاضا ہے۔ دلیل و بربان کی روشنی میں زندگی گزارنے والے اور اپنی خواہشوں کے پیچھے آنکھ بند کر کے چلنے والے یکساں کس طرح ہو سکتے ہیں ! لازم ہے کہ دونوں کا انجام مختلف ہو۔ چنانچہ دلیل و برہان کی روشنی میں چلنے والوں کا انجام جنت ہے جس میں ان کے لئے یہ نعمتیں ہوں گی اور خواہشوں کی پیروی کرنے والوں کے لئے دوزخ ہے جس میں ان کا انجام یہ ہوگا۔ بالا جمال جنت اور دونوں کے احوال کی تصویر ۔
(19-16) مسلمانوں کے اندر کے مار آستین گروہ … منافقین … کی طرف اشارہ کہ یہ لوگ پیغمبرک کی باتیں بظاہر سنتے تو ہیں لیکن سمجھتے کچھ بھی نہیں۔ جن باتوں سے اہل ایمان کے ایمان اور ان کے تقویٰ میں افزونی ہوتی ہے ان سے ان کے نفاق میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ فیصلہ کی گھڑی کے منتظر ہیں حالانکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اس کے ظہور کی شرطیں پوری ہوچکی ہیں۔ اگر وہ گھڑی اچانک آدھمکی تو پھر اس موعظت سے فائدہ اٹھانے کا موقع کہاں باقی رہے گا جو اللہ نے ان کے لئے نازل فرمائی ہے ؟ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدیات کہ تم اپنے لئے اور اہل ایمان کے لئے اپنے رب سے مغفرت مانگو، کیا عجب کہ عذاب سر پر آیا کھڑا ہو ۔
(31-20) منافقین کے باطن اور ان کی پس پردہ سازشوں کی پردہ دری کہ یہ محض زبان کے غازی ہیں پہلے تو آگے بڑھ بڑھ کر مطالبہ کر رہے تھے کہ جہاد کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا لیکن جب جہاد کا حکم دے دیا گیا تو ان پر خوف سے موت کی غشی طاری ہو رہی ہے۔ یہ لوگ درحقیقت دین سے منہ موڑ چکے ہیں۔ ان کا سازباز اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ہے۔ یہ ان کو اطمینان دلا رہے ہیں کہ اگر آپ لوگوں پر کوئی سخت وقت آیا تو ہم آپ ہی کا ساتھ دیں گے۔ ان کے نفاق اور ان کی سازشوں سے اللہ تعالیٰ اچھی طرح باخبر ہے۔ اگر وہ چاہتا ہے تو ان کی پیشانیوں سے ان کے نفاق کی گواہی دلوا دیتا اور ہر شخص ان کو پہچان لیتا لیکن ابھی وہ ان کو مہلت دے رہا ہے تاہم وہ ایسے امتحانوں میں ان کو ڈالے گا جو ان کے ہر کھوٹ کو ظاہر کر دیں گے ۔
(38-32) خاتمہ سورۃ جس میں ابتدائے سورۃ کے مضمون کی یاد دہانی کے بعد مسلمانوں کو عام طور پر اور منافقین کو خاص طور پر تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ اور رسول کے ہر حکم کی اطاعت کرو۔ اگر اس میں کمزوری دکھائی تو تمہارے تمام اعمال رائیگاں جائیں گے۔ اب کفار میں کوئی دم خم باقی نہیں رہا ہے اس وجہ سے جو لوگ ان سے سمجھوتے کی سکیمیں سوچ رہے ہیں وہ گرتی دیوارکے سایہ میں پناہ ڈھونڈھ رہے ہیں۔ عزم و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھو۔ اگر تم آگے بڑھے تو بازی تمہاری ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے۔ اس دنیائے دنی کی محبت میں پھنس کر اللہ کی راہ میں انفاق سے جی نہ چرائو۔ یہ خسارے کا سودا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے پیسہ پیسہ کا اجر دے گا۔ وہ تم سے تمہارے کل مال کا مطالبہ نہیں کر رہا ہے کہ تم اس سے جی چرائو۔ اگر وہ ایسا کرتا تو جن لوگوں کے دلوں میں نفاق اور حسد ہے ان کا سارا بھرم کھل جاتا۔ یاد رکھو کہ جو اللہ سے بخل کرتا ہے وہ خود اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے۔ خدا کسی کے مال کا محتاج نہیں ہے وہ بالکل بے نیاز ہے البتہ تم اللہ کے محتاج ہو۔ یہ تمہارا امتحان ہو رہا ہے۔ اگر تم اس امتحان میں فیل ہوگئے تو اللہ تمہاری جگہ دوسروں کو لائے گا جو تمہاری طرح نکمے نہیں ہوں گے ۔