48۔ سورۃ الفتح : تعارف مضامین و مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ

ا - سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے ربط


سابق سورۃ کی آیت 35 میں اہل ایمان سے یہ وعدہ جو فرمایا ہے کہ اگر تم کمزور نہ پڑے تو تمہی سربلند ہو گے، تمہارے حری ذلیل و پامال ہوں گے، اس سورۃ میں اسی وعدہ کے ایفاء کی واقعاتی شہادت ہے۔ اس کا آغاز صلح حدیبیہ کے ذکر سے ہوا ہے جو فتح مکہ کی تمہیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت پر اتمام نعمت کا فتح باب ثابت ہوئی۔ اس میں فتح و غلبہ کی ان پیشین گوئیوں اور بشارتوں کا بھی حوالہ ہے جو اس امت کے باب میں تورات اور انجیل میں وارد ہوئی ہیں تاکہ اہل ایمان اور اہل کفر دونوں پر اچھی طرح واضح ہوجائے کہ یہ جو کچھ ہوا ہو رہا ہے اور آگے ہوگا، ان میں سے کوئی بات بھی اتفاقی نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی سکیم میں پہلے سے طے ہے اور یہ سکیم پوری ہو کے رہے گی۔ کسی کی طاقت نہیں ہے کہ اس میں مزاحم ہو سکے ۔

ب - سورۃ کا پس منظر


اس سورۃ کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے اس کے پس منظر کو نگاہوں کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔ یہ نہایت مایوس کن حالات کے اندر امید کی روشنی اور شکست کے عام احساس کے اندر فتح مبین کی بشارت بن کر نازل ہوئی۔ اس نے نہایت نازک حالات کے اندر مسلمانوں کی ڈھارس بند ھائی اور دو سال سے زیادہ کی مدت نہیں گزری کہ اس کے ہر وعدہ اور اس کی ہر وعید کی سچائی اس طرح سامنے آگئی کہ دوست اور دشمن کسی کے لئے بھی اس میں شک کی کوئی گنجائش باقین ہیں رہی ۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ٦ ھ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روئیا میں یہ بشارت ہوئی کہ آپ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ عمرہ کی سعادت سے بہرہ اندوز ہوئے ہیں۔ اس رئویا کی بنا پر آپ نے منادی کرا دی کہ لوگ عمرہ کے لئے تیار ہوں۔ اگرچہ قریش کے ساتھ مسلسل جنگ کی حالت قائم تھی نہایت قوی اندیشہ تھا کہ مسلمان جماعتی حیثیت سے عمرہ کے لئے نکلے تو وہ لازماً مزاحم ہوں گے اور جنگ کی نوبت آجائے گی لیکن مسلمانوں پر بیت اللہ سے محرومی اتنی شاق تھی کہ وہ اس خطرے سے بے پردا ہو کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت کے لئے تیار ہوگئے۔ منافقین نے جن کا ذکر پچھلی سورۃ میں گزر چکا ہے، مسلمانوں کا حوصلہ پست کرنے کی بہت کوشش کی ڈرایا کہ جو لوگ مکہ جائیں گے ان کو گھر پلٹنا نصیب نہیں ہوگا لیکن مسلمانوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رئویا پر پورا اعتماد تھا اس وجہ سے تقریباً چودہ پندرہ سو صحابہ ہم رکابی کے لئے تیار ہوگئے ۔


اس امر میں راویوں کا اختلاف ہے کہ مہینہ رجب کا تھا یا ذوقعدہ کا بہرحال انہی دونوں مہینوں میں سے کوئی مہینہ تھا۔ یہ مہینے ہمیشہ سے حج و عمرہ کے لئے خاص رہے ہیں۔ اس وجہ سے اس توقع کے لئے معقول وجہ موجود تھی کہ قریش ان کا احترام محلوظ رکھیں گے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ نے مکہ سے چھ میل کے فاصلہ پر ذوا الحلیفہ میں عمرہ کا احرام باندھا قربانی کے لئے ستر اونٹ ساتھ لئے جن کی گردنوں میں علامت امتیاز کے طور پر پٹے بھی ڈال دیئے گئے کہ ہر دیکھنے والے پر واضح ہوجائے کہ یہ ہدی کے جانور ہیں کوئی ان سے تعرض نہ کیر۔ جنگ کا کوئی سامان ساتھ نہیں تھا، صرف تلواریں تھیں وہ بھی میانوں کے اندر غرض اس بات کا پورا اہتمام کیا گیا کہ قریش جنگ کا کوئی ہبانہ پیدا نہ کر سکیں لیکن ان کی نخوت جاہلیت نے گوارا نہیں کیا کہ یہ قافلہ مکہ میں دخل ہونے پائے۔ اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے انہوں نے چھیڑ چھاڑ کے مختلف بہانے پیدا کئے لکین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ نے ان کی کوئی شرارت کامیاب نہ ہونے دی۔ حدیبیہ پہنچ کر آپ نے ایک شخص کو قریش کے لیڈروں کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ صرف عمرہ کے قصد سے آئے ہیں اس کے سوا کوئی اور غرض نہیں ہے لیکن انہوں نے قاصد کو قتل کر دینے کا ارادہ کرلیا۔ بڑی مشکل سے ایک دوسرے گروہ کی مداخلت سے اس کی جان بچی۔ اس کے بعد آپ نے اپنے خاص سفیر حضرت عثمان کو بھیجا۔ انہوں نے بھی قریش کو اطمینان دلانے کی پوری کوشش کی لیکن قریش اپنی ہٹ پر قائم رہے۔ البتہ حضرت عثمان کے ساتھ انہوں نے کوئی بدسلوکی نہیں کی بلکہ عزت سے پیش آئے اور یہ پیشکش کی کہ اگر وہ تنہا طواف کرنا چاہیں تو کرلیں لیکن حضرت عثمان نے ان کی پیشکش رد کر دی کہ رسول اللہ صلعم کے بغیر وہ طواف کے لئے تیار نہیں ہیں ۔

اسی حیص بیص میں حضرت عثمان کی واپسی میں کچھ دیر ہوگئی اور ادھر مسلمانوں کے کیمپ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان شہید کر دیئے گئے اس افواہ سے قدرتی طور پر مسلمانوں کے اندر ایک شدید قسم کا اشتعال پیدا ہوگیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس سے نہایت متاثر ہوئے۔ آپ نے لوگوں کو بیعت جہاد کی دعوت دی کہ اب ہم قریش سے جنگ کریں گے، تختہ یا تختہ ! صحابہ بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے جب قریش کو خبر پہنچی کہ مسلمان مرنے مارنے پر تل گئے ہیں تو انہوں نے سہیل بن عمرو کی قیادت میں ایک وفد صلح کی بات چیت کے لئے بھیجا اس وفد نے قریش کی آن رکھنے کے لئے اس بات پر بہت اصرار کیا کہ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں، اگلے سال عمر ہ کے لئے آئیں، اہل مکہ تین دن کے لئے شہر خالی کر دیں گے تاکہ کسی تصادم کا اندیشہ نہ رہے۔ اسی طرح اس بات پر بھی اصرار کیا کہ اگر کوئی ہمارا آدمی بھاگ کر مسلمانوں کے پاس چلا جائے تو مسلمان اس کو واپس کرنے کے پابند ہوں گے اور اگر مسلمانوں کا کوئی آدمی ہمارے پاس آجائے تو ہم اس کے واپس کرنے کے پابند نہ ہوں گے۔ صحابہ یہ شرطیں قبول کرنے پر کسی طرح بھی راضی نہیں تھے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ غیبی کے تحت یہ مان لیں اور مندرجہ ذیل شرائط پر ایک معاہدہ طے پا گیا ۔


١- دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی۔ اس دوران میں کوئی فریق بھی ایک دوسرے کے خ لاف کوئی خفیہ یا علانیہ کارروائی نہ کرے گا ۔


٢- اس دوران میں قریش کا کوئی آدمی اگر بھاگ کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائے گا تو وہ اس واپس کر دیں گے اور اگر مسلمانوں میں سے کوئی آدمی قریش کے پاس آجائے گا تو وہ اس کو واپس کرنے کے پابند نہ ہوں گے ۔


٣- قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی چاہے فریقین میں سے کسی کا حلیف بن کر اس معاہدہ میں شامل ہوسکتا ہے ۔


٤- مسلمان اس سال واپس چلے جائیں۔ آئندہ سال وہ عمرہ کے لئے آئیں تین دن تک وہ مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں۔ اسلحہ میں سے ہر شخص صرف ایک تلوار میان میں لا سکتا ہے۔ ان تین دنوں میں اہل مکہ ان کے لئے شہر خالی کر دیں گے تاکہ کس تصادم کا کوئی اندیشہ نہ رہے ۔


ان میں سے دو شرطیں جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا، مسلمانوں کو شدید ناگوار تھیں۔ لوگ ان کو قبول کرنا اور اعتراف شکست کے ہم معنی سمجھتے تھے اور کسی طرح بھی راضی نہیں تھے کہ کوئی بات قریش سے دب کر مانی جائے۔ حضرت عمر نے اپنے جذبات کا اظہار اس موقع پر ایسے تند الفاظ میں کیا کہ زندگی بھر ان کو اس کا پچھتاوا رہا۔ صلح نامہ طے پا جانے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو حکم دیا کہ لوگ قربانی کر کے سرمنڈوائیں اور عمرہ سے فارغ ہوں۔ لیکن لوگوں کی افسردگی و کبیدگی کا یہ عالم تھا کہ ایک شخص بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھا۔ بالآخر حضور نے خود پہل کی۔ جب لوگوں کو انداز ہوگیا کہ اب فیصلہ میں کسی تبدیلی کی گنجائش باقی نہیں رہی تب بادل نخواستہ لوگ اٹھے اور عمرہ سے فارغ ہوئے۔ واپسی کے وقت لوگوں کا عام احساس یہ تھا کہ ہم ناکام واپس ہو رہے ہیں اس وجہ سے قدرتی طور پر بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی تھا کہ نبی کی رئویا سچی ہوتی ہے تو اس رئویا کا کیا بنا جو حضو نے دیکھی اور جس کی بنا پر گھر سے نکلے ! … یہ حالات تھے جن میں یہ سورۃ نازل ہوئی اور جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، فتح مبین کی بشارت بن کر نازل ہوئی۔ رہا یہ سوال کہ جس چیز کو عام مسلمانوں نے اپنی شکست تصور کیا وہ فتح مبین، کس طرح بنی تو اس کا جواب سورۃ کی تفسیر سے سامنے آئے گا۔ پہلے سورۃ کے مطالب پر ایک اجمالی نظر ڈال لیجیے ۔

ج - سورۃ کے مطالب کا تجزیہ



(7-1) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس امرکی بشارت کہ صلح حدیبیہ کی شکل میں تمہیں ایک فتح مبین حاصل ہوئی ہے۔ یہ فتح مبین تمہید ہے اس بات کی کہ اب وہ وقت قریب ہے جب فتح مکہ کی صورت میں تمہیں کفار پر کامل غلبہ حاصل ہوگا، اللہ تعالیٰ اپنے دین کی نعمت تم پر تمام کرے گا اور تم اپنے مشن کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر اپنے رب کی کامل اور زاید خوشنودی حاصل کرو گے۔ اس مہم کا یہ پہلو بھی نہایت مبارک ہے کہ اہل ایمان کے لئے اس نے ایمان میں افزونی اور حصول جنت کی راہ کھولی جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک فوز عظیم ہے اور ان منافقین و مناقات کے لئے یہ خدا کے غضب اور اس کی لعنت کا سبب بنی جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیوں میں مبتلا رہے اور اس حقیقت کو نہ پا سکے کہ آسمانوں اور زمین کی تمام فوجیں خدا ہی کے حکم کے تحت ہیں اور وہ اپنے علم و حکمت کے تحت جس طرح چاہے ان سے کام لیتا ہے اور لے سکتا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا ﴿١﴾ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّـهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿٢﴾ وَيَنصُرَكَ اللَّـهُ نَصْرًا عَزِيزًا ﴿٣﴾ هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّـهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿٤﴾ لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عِندَ اللَّـهِ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿٥﴾ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّـهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿٦﴾ وَلِلَّـهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿٧﴾

(10-8) عام مسلانوں کو خطاب کر کے اس حقیقت کی وضاحت کہ رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک شاہد اور بشیر و نذیر ہو کر آتا ہے۔ لوگوں کا فرض ہے کہ اس پر ایمان لائیں، اس کی توقیر کریں، تمہام مہمات میں اس کے ساتھی اور مددگار بنیں جو لوگ اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بیعت کرتے ہیں۔ اگر وہ اس بیعت کا حق ادا کریں تو اس کا اجر بہت بڑا ہے اور اگر اس کا حق ادا نہ کریں تو یاد رکھیں کہ اس میں انہی کی تباہی ہے۔ اللہ کو اس سے کوئی نقصان نہ پہنچے گا ۔

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿٨﴾ لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴿٩﴾إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّـهَ يَدُ اللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّـهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿١٠﴾

(16-11) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ آگاہی کہ اس موقع پر جو منافقین پیچھے بیٹھ رہے اب وہ تمہارے پاس یہ درخواست لے کر آئیں گے کہ گھر بار کی ذمہ داریوں نے ان کو مجبور رکھا اس وجہ سے وہ معافی اور پیغمبر کی دعائے مفغرت کے سزا وار ہیں۔ ان کو بتا دیجیو کہ تمہارے نہ اٹھنے کی وجہ تمہارا یہ گمان تھا کہ اب کے مسلمانوں اور پیغمبر کو گھر پلٹنا نصیب نہ ہوگا تو تم نے اپنے اس گمان کے باعث خود اپنی تباہی کا سامان کیا۔ اب تمہارا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے۔ وہی جس کو چاہے گا معاف کرے گا، جس کو چاہے گا سزا دے گا ۔

ان منافقین کے بارے میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ یہ لوگ جب دیکھیں گے کہ کسی مہم میں بغیر سکی خطرے کے لقمہ تر ہاتھ آنے والا ہے تو یہ پورا زور لگائیں گے کہ انہیں بھی ساتھ نکلنے کی اجازت دی جائے لیکن ان کو ہرگز اجازت نہ دی جائے۔ ان کو آگاہ کردیا جائے کہ آگے ایک طاقتور دشمن سے مقابلہ ہونے والا ہے، اگر اس موقع پر تم نکلے تو غیر ہے اور اگر اس وقت بھی اسی طرح بہانہ سازی کر کے بیٹھ رہے تو تمہارے لئے بھی وہی عذاب مقدر ہے جو کفار کے لئے ہے ۔

سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿١١﴾ بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا ﴿١٢﴾ وَمَن لَّمْ يُؤْمِن بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا ﴿١٣﴾ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿١٤﴾ سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّـهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّـهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٥﴾قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّـهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٦﴾

17 ان معذورین کا بیان جن کی جنگ سے غیر حاضری نفاق پر محمول نہیں ہوگی بشرطیکہ وہ دل سے اللہ اور رسول کے فرمانبردار رہیں ۔

لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٧﴾ 

( 21-18) ان جاں نثاروں کا بیان جنہوں نے بیعت رضوان میں شرکت کی۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی، فتوحات، غنیمت اور فتح مکہ کی بشارت ۔

لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿١٨﴾ وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٩﴾ وَعَدَكُمُ اللَّـهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَـٰذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿٢٠﴾ وَأُخْرَىٰ لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّـهُ بِهَا ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا ﴿٢١﴾ 

(25-22) اس امر کا باین کہ حدیبیہ کے موقع پر قریش جنگ کرتے تو منہ کی کھاتے مسلمانوں کے غلبہ کے پہلو کی طرف اشارہ قریش کی کھلی ہوئی اخلاقی و مذہبی شکست قریش کی مرعوبیت کے باوجود مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دینے کی حکمت ۔

وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا ﴿٢٢﴾ سُنَّةَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ﴿٢٣﴾ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا ﴿٢٤﴾ هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٢٥﴾ 

(26 ) قریش کی اخلاقی شکست کے پہلو بہ پہلو مسلمانوں کی طرف سے اخلاقی فتح کا جو مظاہرہ ہوا اس کی طرف اشارہ حمیت جاہلیت کے بالمقابل مسلمانوں نے تقویٰ اور اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی جو شان نمیاں کی اس کا حوالہ ۔

إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٢٦﴾ 

(27 ) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رئویا کی تصدق۔ اس کی تعبیر کے ظہور میں جو تاخیر ہوئی اس کی حکمت 

لَّقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿٢٧﴾

(29-28) اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر یقینی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) کی تصویر تورات میں اور حق کے تدریجی غلبہ کی تمثیل انجیل ہیں ۔

 هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا ﴿٢٨﴾ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾