49۔ سورۃ الحجرات تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا - سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق


یہ سورۃ سابق سورۃ … الفتح … کا ضمیمہ و تتمہ ہے۔ سورۃ فتح کی آخری آیت میں، تورات کے حوالہ سے، رسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رضی اللہ تعالی عنہم) کی یہ صفت جو وارد ہوئی ہے کہ "مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ" الحجرات : ۲۹ (محمد اللہ کے رسول اور جو ان کے ساتھ ہیں کفار کے لئے سخت اور باہمدگر نہایت مہربان ہوں گے) یہ پوری سورۃ اسی ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے۔ جہاں تک اس کی اہمیت کا تعلق ہے اس کی وضاحت سورۃ فتح کی تفسیر میں ہوچکی ہے۔ اس کی یہ اہمیت مقتضی ہوئی کہ اس کے وہ مضمرات یہاں وضاحت سے بیان کر دیئے جائیں جن کا بیان کیا جانا اس وقت مسلمانوں کے معاشرے کی اصلاح کے لئے نہایت ضروری تھا۔ یہ بات اپنے محل میں بیان ہوچکی ہے کہ قرآن میں احکام و ہدایات کا نزول حالات کے تقاضوں کے تحت ہوا ہے تاکہ لوگوں پر ان کی صحیح قدر و قیمت واضح ہو سکے۔ چنانچہ یہ سورۃ بھی ایسے حالات میں نازل ہوئی ہے جب نئے نئے اسلام میں داخل ہونے والوں کی طرف سے بعض باتیں ایسی سامنے آئیں جن سے ظاہر ہوا کہ یہ لوگ نہ تو رسول کے اصلی مرتبہ و مقام ہی سے اچھی طرح واقف ہیں اور نہ اسلامی معاشرہ کے اندر اپنی ذمہ داریوں ہی سے چنانچہ اس ضمیمہ میں ضروری ہدایات دے دی گئیں جو اس وقت کے حالات کے اندر ضروری تھیں۔ ان احکامات و ہدایات کا تعلق تمام تر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے باہمی حقوق ہی سے ہے۔ کفار کا معاملہ اس میں زیر بحث نہیں آیا۔ ان کے ساتھ مسلمانوں کو جو رویہ اختیار کرنا چاہئے اس کی وضاحت پچھلی سورتوں میں ہوچکی ہے ۔

سورہ کے تیسرے گروپ میں جس نوعیت کا تعلق سورۃ نور کا سورۃ مومنوں کے ساتھ ہے اسی نوعیت کا تعلق اس سورۃ کا سورۃ فتح کے ساتھ ہے۔ دونوں کا مزاج باہمدگر بالکل ملتا جلتا ہوا ہے ۔

ب - سورۃ کے مطالب کا تجزیہ


(5-1) مسلمانوں کو یہ تنبیہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہیں۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کو رسول کی رائے یا آپ کے حکم پر مقدم کرنے کی کوش کرے گیا گفتگو میں اپنی آواز کو آپ کی آواز پر بلند کرے یا آپ کو اس طرح پکارے جس طرح اپنے کسی مساوی درجہ کے آدمی کو پکارتا ہے۔ تقویٰ کی افزائش اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے دلوں ک اندر کرتا ہے جو اس کے رسول کے ادب و احترام ک وپویر طرح ملحوظ رکھتے ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو اللہ کے رسول اور اسلام کا محسن سمجھتے ہیں اور رسول کے سامنے خطاب و کالم میں اپنے تفوق کا اظہار کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہئے کہ اس طرح کی حرکت سے غیر شعوری طور پر وہ اپنے اعمال ہی نہ گنوا بیٹھیں ۔

(10-6) مسلمانوں کا معاملہ مسلمانوں کے ساتھ اخوت کی بنیاد پر ہونا چاہئے نہ کہ پارٹی اور گروہ کی عصیبت کی بنیاد پر یہ جائز نہیں ہے کہ کسی فاسق کی روایت پر اعتماد کر کے مسلمان مسلمانوں کسی کسی جماعت کے خلاف اقدام کر ڈالیں، جس پر بالاخر انہیں پچھتانا پڑے۔ تمام اہم معاملات میں رسول کی صوابدید اور اس کی ہدایت پر عمل کرنا چاہئے۔ کسی پارٹی کو رسول کی حمایت اپنے حق میں حاصل کرنے کے لئے اس پر غلط قسم کا دبائو ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ یہ چیز اس فضل و انعام کی ناقدری ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ایمان کی شکل میں اہل ایمان کو نوازا ہے۔ ایمان کا مزا چکھ لینے کے بعد کوئی ایسی بات کرنا جو اس کے منافی ہے کفر و عصیان کی طرف رجعت ہے جس سے لوگوں کو بچانے ہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایمان کو دلوں میں رچانے اور کفر کو مبغوض بنانے کے لئے سارے جتن کئے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دوسرے مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ گروہی رجحانتا کی بنا پر ان میں سے کسی گروہ اس حق کے آگے جھکنے پر تیار نہ ہو تو اس کو بزور اس کے آگے جھکنے پر مجبور کرا چاہئے ۔

(13-11) ان باتوں سے بچنے کی ہدایت پر جو دلوں میں نفرت کی تخم ریزی اور معاشرے میں فساد کی آگ بھڑکانے والی ہیں۔ کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے کی تحقیر کرے یا اس کا مذاق اڑائے یا اس کو عیب لگائے یا اس پر پھبتیاں چست کرے یا اس کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرے یا اس کی غیبت کرے یا اس کے عیوب کی ٹوہ میں لگے۔ حسب و نسب اور خاندان و قبیلہ کا غرور جاہلیت کی یادگار رہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو ایک ہی آدم و حوا سے پیدا کیا ہے۔ خاندانوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت کا معیار صرف تقویٰ ہے نہ کہ نسب اور خاندان


(18-14) خاتمہ سورۃ جس میں اس بات کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے جو سورۃ کی تمہید میں اشارات کی شکل میں فرمائی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابتدائی آیات میں جن لوگوں کا رویہ زیر بحث آیا ہے یہ اطراف مدنیہ کے وہ اہل بدو تھے جو اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے مرعوب ہو کر اسلام میں داخل تو ہوگئے تھے لیکن ایمان کے دلوں میں اچھی طرح اترا نہیں تھا اس وجہ سے وہ اس پندار میں مبتلا تھے کہ اسلام لا کر انہوں نے اسلام اور پیغمبر پر ایک احسان کیا ہے۔ ان کے اس پندار کا اظہار بعض اوقات اس طرح کی حرکتوں سے ہوجاتا تھا جن سے ابتدائیآیات میں مسلمانوں کو روکا گیا ہے۔ اب یہ آخر میں ان کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ ان کو بتا دو کہ وہ اپنے ایمان و اسلام کا احسان نہ جتائیں۔ اللہ ان کے ظاہر و باطن سے اچھی طرح واقف ہے۔ انہوں نے اطاعت تو ضرور کرلی ہے لیکن ابھی ایمان نے ان کے اندر جڑ نہیں پکڑی ہے۔ یہ ان کا احسان نہیں ہے کہ وہ پیغمبر پر ایمان لائے بلکہ یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ان کو ایمان کی توفیق بخشی۔ اگر وہ اس کا حق ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا بھرپور صلہ پائں ی گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے سارے اعمال کو دیکھ رہا ہے ۔