23۔ سورہ المؤمنون : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

23۔ سورہ المؤمنون کا تعارف اور مطالب کاتجزیہ 
ا – سورہ  کا عمود اور سابق سورہ سے تعلق
یہ سورۃ، سابق سورۃ … سورۃ حج … کی توام اور مثنٰی ہے۔ سورۃ حج جس مضمون پر تمام ہوئی ہے اسی مضمون سے اس کا آغاز ہوا ہے۔ سورۃ حج کے آخر میں مسلمانوں کا فریضہ منصبی یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رسول نے دین حق کی گواہی جس طرح تم پر دی ہے اسی طرح اب تمہارا فرض ہے کہ یہ گواہی تم خلق پر دو۔ ساتھ ہی اس منصب کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے جن باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے مثلاً اہتمام نماز، ادائیگی زکوۃ اور توکل علی اللہ، ان کی ہدایت فرمائی ہے۔ اب اس سورۃ کو پڑھیے تو بعینیہ اسی مضمون سے اس طرح شروع ہوگئی ہے گویا اس کا تکملہ و تتمہ ہے۔ سورۃ حج کی آخری اور سورۃ مومنوں کی ابتدائی آیات نے ایک حلقہ اتصال کی صورت اختیار کرلی ہے۔ مضمون کے اعتبار سے بھی دونوں سورتوں میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے۔ صرف اسلوب بیان اور نہج استدلال کا فرق ہے۔ سورۃ حج میں اہل ایمان کو فوز و فلاح کی اور کفار کو ذلت و نامراد کی جو خبر دی گئی ہے وہ اس سورۃ میں پوری طرح آشکارا ہوگئی ہے۔ خاص طور پر اہل ایمان کے لئے بشارت کا مضمون اس میں بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے اور وہ اوصاف بھی وضاحت سے بیان ہوگئے ہیں جن کے ساتھ یہ بشارت مشروط ہے۔ اسی طرح کفار پر بھی یہ حقیقت اچھی طرح واضح کر دی گئی ہے کہ تمہیں جس ذلت کی خبر دی جا رہی ہے وہ لازماً پیش آ کے رہے گی، آفاق و انفس اور تاریخ کی شہادت یہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان کا گھربنایا ہے اس وجہ سے اس میں اہل ایمان کی آزمائش بھی ہوتی ہے اور اہل کفر کو ڈھیل بھی دی جاتی ہے۔ لیکن یہ عارضی وقفے ہیں۔ بالآخر حق ہی کا بول بالا ہوگا اور اہل باطل نامراد ہوں گے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(11-1) اہل ایمان کے لئے فوز و فلاح اور جنت کی وراثت کی بشارت اور یہ بشارت جن شرائط کے ساتھ مشروط ہے ان کا بیان ۔
(22-12) انسان کی خلقت میں خدا کی قدرت و حکمت کی جو نشانیاں ہیں ان سے موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر استدلال اور اس کائنات میں خدا کی پروردگاری کے جو آثار و شواہد ہیں ان سے جزا و سزا کے لازم ہونے پر دلیل ۔
(50-23) حضرات انبیاء علیہم السلام کی سرگزشتوں کی طرف ایک اجمالی اشارہ، ابتدائی انیائء میں سے حضرت نوح کا اور آخری انبیاء میں سے حضرت موسیٰ حضرت ہارون اور حضرت مسیح علیہم السلام کا نام لے کر اور بیح کے تمام انبیاء کا نام لئے بغیر حوالہ، جس سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ آج جس انداز سے خدا کے رسول کی تکذیب ہو رہی ہے اسی انداز سے ہمیشہ شریروں اور مفسدوں نے رسولوں کی تکذیب کی ہے لیکن اللہ نے رسولوں کی دعوت کو فروغ دیا اور شریروں کی جڑ کاٹ دی۔ یہی اب بھی ہوگا لیکن یہ دنیا دارالا امتحان ہے اس میں اہل حق کی آزمائش لازمی ہے۔ اس آزمائش کے تقاضے سے اہل باطل کو بھی ایک حد خصا تک مہلت دی جاتی ہے کہ وہ بھی جتنا زور لگانا ہے لگا لیں۔ ان کے پاس کوئی عذر نہ باقی رہ جائے ۔
(67-51) تمام انبیاء کو اللہ تعالیٰ کی طر سے ایک ہی دین ملا اور وہ ایک ہی دعوت کے داعی بن کر آئے لیکن ان کی امتوں نے ان کے لائے ہوئے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا اور اب سب اپنے اپنے طریقہ پر مگن ہیں۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین صبر کہ ان کو ان کی سرمستی میں کچھ دن مگن رہ لینے دو۔ یہ اس مغالطہ میں ہیں کہ مال و اولاد کی جو نعمت انہیں ملی ہوئی ہے یہ ان کے خیر میں اضافہ ہے۔ یہ خیر میں اضافہ نہیں بلکہ ان کی تباہی میں اضافہ ہے لیکن ان کو اس کا احساس نہیں ہو رہا ہے۔ خیر میں اضافہ وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے اندر ایمان، خشیت، اخلاص اور انفاق کی صفات پائی جاتی ہیں۔ وہ بے شک اپنی نیکیوں کا بھرپور صلہ پائیں گے۔ رہے یہ دنیا دار اور دنیا پرست تو یہ اسی طرح اپنی دلچسپیوں پر ڈوبے رہیں گے۔ یہاں تک کہ جب ہم ان کو پکڑیں گے تو یہ اپنے سرپیٹیں گے لیکن اس وقت ان کا سارا چیخنا چلانا بے سود ہوگا ۔
(77-68) مکذبین کے بعض شبہات و اعتراضات کا حالہ اور ان کے بے بنیاد ہونے کی طرف اشارہ، نیز ان کے مطالبہ عذاب کا جواب کہ اگر ان کو عذاب کا کوئی نمونہ دکھا بھی دیا گیا تو یہ ان کے لئے سود مند نہ ہوگا۔ جس طرح یہ دوسروں پر گزرے ہوئے حوادث سے کوئی سبق نہیں لیتے اسی طرح اگر خود انپ ر بھی کوئی آفت آئے تو اس سے چھوٹتے ہی پھر گرد جھاڑ کے اپنی بدمستیوں میں کھو جائیں گے ۔
(29-78) معجزے اور نشانیاں مانگنے والوں کو کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لینے کی دعوت کہ اگر تم خدا کی بخشی ہوئی صلاحیتوں سے کام لو تو تمہیں مرنے کے بعد اٹھنا اور جزا و سزا کا معاملہ ایک بدیہی حقیقت معلوم ہوگا۔ پھر ان کے تضاد کے بعض پہلوئوں کی نشاندہی کہ یہ لوگ خود اپنے مسلمات کے نہایت بدیہی لوازم سے، محض اپنی خواہشوں کی پیروی میں گریز، اختیار کر رہے ہیں ۔
(118-93) خاتمہ سورۃ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاندین کے رویہ سے چندے درگزر کرنے اور آنے والے عذاب سے پناہ مانگتے رہنے کی تلقین اور کافر کو وعید کہ وہ وقت قریب ہے جب تم سرپیٹو گے اور آرزوئیں کرو گے کہ کاش تمہیں دنیا میں جا کر کچھ نیکی کرنے کا موقع ملے لیکن اس وقت اس کا موقع گزر چکا ہوگا۔ اس وقت صرف وہ لوگ فلاں پائیں گے جن کے پلڑے بھاری ہوں گے۔ اس وقت فائز المرام ہمارے وہی بندے ہوں گے جو آج تمہیں خدا کی راہ کی دعوت دے رہے ہیں لیکن تم ان کا مذاق اڑا رہے ہو۔ آج تمہیں یہ دنیا کی زندگی بڑی طویل معلوم ہو رہی ہے لکنا اس دن اندازہ ہوگا کہ یہ زندگی چند لمحوں میں گزر گئی۔ تم نے گمان کیا کہ ہم نے تمہیں شتر بے مہار بنا کر اس دنیا میں چھوڑا ہے اور تمہیں ہمایر پاس لوٹنا نہیں ہے لیکن تمہں ایک ہی خدائے برتر و عظیم کی طرف لوٹنا ہوگا اور تمہارے شرکاء و شفعاء تمہارے کچھ کام نہیں آئیں گے ۔

-------------------------
(بحوالہ تدبر قرآن - مولانا امین احسن اصلاحی