50۔ سورہ قٰ تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔سورتوں کے چھٹے گروپ پر ایک اجمالی نظر
سورہ ق سے سورتو ں کا چھٹا گروپ شروع ہو رہا ہے۔ اس میں کل سترہ سورتیں ہیں۔ جن میں سے سات سورتیں … ق، ذریات، طور، قمر، رحمان اور واقعہ … بالترتیب مکی ہیں۔ صرف سورۃ رحمان کو بعض مصاحف میں مدنی ظاہر کیا گیا ہے، لیکن اس کی تفسیر سے واضح ہوجائے گا کہ یہ رائے بالکل بے بنیاد ہے۔ پوری سورۃ کا مدنی ہونا تو درکنار اس کی کوئی ایک آیت بھی مدنی نہیں ہے۔
سورہ واقعہ کے بعد دس سورتیں … حدید، مجادلہ، حشر، ممتحنہ، صف، جمعہ، منافقون، تغابن، طلاق اور تحریم … مدنی ہیں ۔
اس گروپ کا جامع عمود بعث اور حشر و نشر ہے۔ اس کی تمام مکی سورتوں میں یہ مضمون ابھرا ہوا نظر آئے گا۔ اگرچہ قرآن کے بنیادی مطالب، دوسرے گروپوں کی طرح، اس میں بھی زیر بحث آئے ہیں لیکن وہ اسی جامع عمود کے تحت آئے ہیں۔ علی ہذا القیاس جو مدنی سورتیں اس میں شامل ہیں وہ بھی اسی اصل کے تحت ہیں۔ بعث اور حشر و نشر پر ایمان کا لازمی نتیجہ اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت ہے۔ مدنی سورتوں میں اسی تسلیم و اطاعت کے وہ مقتضیات بیان ہوئے ہیں جن کے بیان کے لئے زمانہ نزول کے حالات داعی ہوئے ہیں ۔
مکی سورتوں میں تمام رد وقدح کفار قریش کے عقائد و مزعومات پر ہے اور وہی ان میں اصلاً مخاطب بھی ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے اگر خطاب ہے تو بطور التفات و تسلی ہے۔ مدنی سورتوں میں خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے ہے اور خاص طور پر ان لوگوں کی کمزوریاں زیر بحث آئی ہیں جو اللہ و رسول پر ایمان کے مدعی تو بن بیٹھے تھے لیکن ایمان کے تقاضوں سے ابھی اچھی طرح آشنا نہیں ہوئے تھے۔ انہی کے ضمن میں اہل کتاب بھی زیر بحث آئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس دور میں اہل کتاب بھی قریش کی حمایت اور اسلام کی مخالفت کے لئے میدان میں اتر آئے تھے، دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر منافقین کا گروہ جو گھس آیا تھا وہ بیشتر انہی اہل کتاب کے زیر اثر تھا ۔
اس گروپ (6) کی پہلی سورۃ … ق … ہے۔ 
ب - سورۃ کا عمود
اس سورۃ کا عمود بعث یعنی زندگی بعد الموت کا اثبات ہے۔ قرآن نے جب لوگوں کو آگاہ کیا کہ مرنے کے بعد لوگ از سر نو زندہ کئے جائیں گے اور اپنے رب کے آگے اپنے اعمال و اقوال کی جوابدہی کے لئے پیش ہوں گے تو یہ چیز قریش کے لیڈروں پر بہت شاق گزری کہ انہی کے اندر کا ایک شخص مدعی نبوت بن کر ا نکو اس بات سے ڈرا رہا ہے کہ مرنے کے بعد لوگ پھر زندہ کئے جائیں گے۔ بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ مرنے اور گل سڑ جانے کے بعد لوگ از سر نو زندہ ہوں ! اس سورۃ میں لوگوں کے اسی استبصاد کو موضوع بحث بنا کر ان کے شبہات کے جواب دیئے گئے ہیں ۔
ج۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے ۔
(5-1) قرآن کی عظمت و رفعت شاہد ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو لوگ اس کو شاعری یا کہانت کے قسم کی کوئی چیز سمجھتے ہیں، یہ انکار قیامت کے لئے انہوں نے ایک بہانہ تلاش کیا ہے۔ ان کو تعجب اس بات پر ہے کہ انہی کے اندر سے ایک شخص اٹھ کر انہیں ڈرا رہا ہے کہ مرنے کے بعد جب وہ سڑ گل کر مٹی ہوجائیں گے تو از سر نو زندہ کئے جائیں گے۔ یہ بات ان کے نزدیک بہت مستبعد ہے۔ وہ قرآن کو استکبار کی بنا پر ماننا نہیں چاہتے، اس وجہ سے اس کو کہانت اور شاعری قرار دیتے ہیں۔ یہ کہانت و شاعری نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جس کو جھٹلاک ر وہ ایک شدید قسم کی ذہنی الجھن اور ایک کھلے ہوئے تناقض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مرنے کے بعد زمین ان کے جن اجزاء کو تحلیل کرتی ہے اللہ نے ان کو بھی جان رکھا ہے اور لوگوں کے اقوال و اعمال کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کے لئے اس کے پاس ایک رجسٹر بھی ہے ۔
(11-6) آسمان و زمین کی ان نشانیوں کی طرف اشارہ جو خدا کی قدرت، حکمت اور ربوبیت کی شہادت دے رہی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین میں اسی لئے ودیعت فرمائی ہیں کہ جن کے اندر خشیت و انابت ہو وہ ان سے یاد دہانی و رہنمائی حاصل کریں۔ یہ نشانیاں منے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کو بھی ثابت کر رہی ہیں اور ان سے جزاء و سزا اور توحید کی معرفت بھی حاصل ہوتی ہے۔ بشرطیکہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے ۔
(14-12) کفار قریش کو تہدید کہ استکبار میں مبتلا ہو کر ایک واضح حق کی تکذیب نہ کرو تم سے پہلے جن قوموں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی ان پر اللہ کی وعید پوری ہو کے رہی۔ اگر انہی کی چال تم چلو گے تو کوئی وجہ نہیں کہ تمہارا انجام ان سے مختلف ہو ۔
(18-15) مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے اور حساب کتاب پر اللہ تعالیٰ کی صفت خلق اور صفت علم سے استدلال اور لوگوں کے افعال و اقوال کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کے لئے اس نے جو اہتمام کر رکھا ہے اس کی طرف اشارہ
(35-19) قیامت کی تصویر، مکذبین کو جن حالات سے سابقہ پیش آئے گا ان کی تفصیل قیامت پر ایمان رکھنے والوں کو اس روز جو سرفرازی حاصل ہوگی اس کا بیان ۔
(37-36) قریش کو تنبیہ و تہدید کہ اپنی قوت و شوکت پر زیادہ نہ اترائو اور اس گھمنڈ میں نہ رہو کہ ان پر زوال نہیں آ سکتا۔ تم سے پہلے کتنی ہی قومیں گزر چکی ہیں جو تم سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھیں۔ اللہ نے ان کو عین ان کے دور عروج میں پکڑا اور اس طرح پکڑا کہ خدا کی زمین، اپنی وسعتوں کے باوجود ان کے لئے تنگ ہوگئی۔ ان سرگزشتوں میں ان لوگوں کے لئے بڑا سامان عبرت ہے جن کے پاس عبرت پذیر دل اور سننے والے کان ہیں ۔

(45-38) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و استقامت کی تلقین۔ حصول صبر کے لئے اہتمام نماز کی تاکید، مخالفین کے معاملے کو اس دن پر محمول کرنے کی ہدایت جس کا ظہور لازمی ہے۔ اس امر کی وضاحت کہ آپ کی ذمہ داری انذار تک محدود ہے۔ لوگوں کے دلوں میں ایمان اتار دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ بس اسی قرآن کے ذریعہ سے ان لوگوں کو آگاہ کر دیجیے جو اللہ کی وعید سے ڈرنے والے ہیں۔ اگر یہ لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے تو اس کے نتائج سے خود دوچار ہوں گے ۔