93۔سورۃ الضحی : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا - سورۃ کی عمود اور سابق و لاحق سے تعلق
یہ سورۃ اور بعد کی سورۃ …الم نشرح …دونوں قوام کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس مشن پر مامور فرمایا ہے اس میں آپ فائز المرام ہوں گے۔ راہ میں جو رکاوٹیں اس وقت نظر آ رہی ہیں۔ وہ سب دور ہوجائیں گی۔ یہ مضمون پچھلی سورتوں میں بھی آیا ہے۔ البتہ دوسرے مطالب کے ضمن میں آیا ہے لیکن ان دونوں کا خاص مضمون ہی یہی ہے۔ ان کے آئینہ میں آپ کی زندگی کے تمام مراحل گویا آپ کے سامنے رکھ ہیں ان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس مشن پر مامور فرمایا ہے اس میں آپ فائز المرام ہوں گے۔ راہ میں جو رکاوٹیں اس وقت نظر آ رہی ہیں۔ وہ سب دور ہوجائیں گی۔ یہ مضمون پچھلی سورتوں میں بھی آیا ہے۔ البتہ دوسرے مطالب کے ضمن میں آیا ہے لیکن ان دونوں کا خاص مضمون ہی یہی ہے۔ ان کے آئینہ میں آپ کی زندگی کے تمام مراحل گویا آپ کے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں۔ ان میں تسلی کا جو انداز اختیار فرمایا گیا ہے اس پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ ضحیٰ مکی زندگی کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب دعوت کی مخالفت اتنی شدت اختیار کرگئی ہے کہ آپ آگے کی راہ مسدود پا کر دل گرفتہ رہنے لگے اور سورۃ الم نشرح اس دور میں نازل ہوئی ہے جب مخالفت کی شدت کے علی الرغم افق میں کامیابی کے کچھ آثار بھی نمایاں ہونے لگے ہیں ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے :
پہلے آفاق کے شواہد سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گی ہے کہ جس طرح اس دنیا کی مادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے دن کی حرارت و روشنی کی بھی ضرورت ہے اور رات کی خنکی اور تاریکی بھی اسی طرح انسانی فطرت کے مخفی جواہر کو اجاگر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان عسر اور یسر، دکھ اور سکھ، رنج اور راحت، دونوں طرح کے حالات سے گزارا جائے۔ جو لوگ زندگی کی تربیت میں امتحانوں کا مقام سمجھتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی اعلیٰ صلاحیتیں ان سے پران چڑھتی ہیں اور جو ان سے عہدہ برآ ہونے کی حکمت سے ناواقف ہوتے ہیں یا اپنی پست ہمتی کے سبب سے ان سے وہ فائدہ نہیں اٹھاتے جس کے لئے قدرت نے ان کو مقدر کیا ہے وہ اپنے آپ کو اس مقام بلند سے محروم کرلیتے ہیں جو اس امتحان سے گزرے بغیر انسان کو حاصل نہیں ہوتا ۔
اس اصولی حقیقت کے بیان کرنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے تسلی دی ہے کہ اس وقت جس امتحان سے آپ گزر رہے ہیں وہ خدا کی طرف سے کسی بے التفاقی یا آپ پر کسی عتاب کے سبب سے نہیں پیش آیا ہے بلکہ یہ اسی امتحان کا ایک حصہ ہے جو انسان کی روحانی و اخلاقی تربیت کے لئے ضروری ہے ۔
اس کے بعد آپ کو بشارت دی ہے ک آپ اس وقت جس دور سے گزر رہے ہیں یہ مقدمہ ہے ایک ایسے دور کا جو اس سے بہت بہتر ہوگا اور اس میں آپ کا رب کریم ان فیروز مندیوں اور کامرانیوں سے آپ کو نوازے گا جو آپ کو نہال کر دیں گی ۔
اس کے بعد آپ کی زندگی کے بعض ان مراحل کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو بعثت سے پہلے یا ابتدائے بعثت میں آپ کو پیش آئے اور جو بظاہر کٹھن تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے آپ کو نکالا اور اس طرح نکالا کہ دنیا کی راہیں بھی آپ کے لئے فراخ ہوئیں اور روحانی فتوحات کے دروازے بھی کھلے ۔
آخر میں آپ کو ان نعمتوں کے حقوق ادا کرنے کا طریقہ تعلیم فرمایا گیا جو آپ کو حاصل ہوئیں۔ اس میں ضمناً ان لوگوں پر تعریض بھی ہے جن کا ذکر سابق سورتوں میں آیا ہے کہ وہ نعمتیں پا کر اللہ سے اکڑنے اور اس کے بندوں کے حقوق تلف کرنے والے بن گئے ۔