113۔ سورۃ الفلق : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

سورہ کا مضمون اور سابق و لاحق سے تعلق
سابق سورۃ ………الاخلاص………کی تمہید میں ہم نے یہ واضح کیا ہے کہ توحید کو دین کی اساس کی حیثیت حاصل ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا آغاز بھی توحید ہی سے فرمایا اور پھر اس کا اتمام بھی اسی پر کیا۔ گویا اصلاً قرآن کی آخری سورۃ الاخلاص ہوئی۔ اس کے بعد دو سورتیں، جو معوذتین کے نام سے موسوم ہیں، اس خزانۂ توحید کے پاسبان اور محافظ کی حیثیت سے اس کے ساتھ لگا دی گئی ہیں جن میں ان تمام آفتوں سے بندوں کو اپنے رب کی پناہ مانگنے کی دعا تلقین فرمائی گئی ہے جو درباب توحید ان کے لئے مزلۂ قدم ہو سکتی ہیں ۔
توحید کے لئے اس اہتمام خاص کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ یہی، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، تمام دین کی بنیاد ہے۔ اگر بندے کا قدم توحید میں استوار ہے تو وہ دین پر استوار ہے۔ اگر وقتی طور پر اس سے کوئی لغزش صادر بھی ہوگی تو اساس دین سے وابستہ ہونے کے سبب سے امید ہے کہ اس کو اصلاح کی توفیق ملے اور وہ راہ راست پر آجائے۔ برعکس اس کے اگر درباب توحید اس کو کوئی گمراہی پیش آگئی تو اندیشہ ہے کہ وہ ہر قدم پر دین سے دور ہی ہوتا جائے گا اور درجہ بدرجہ اتنا دور ہوجائے گا کہ اس کے لئے دین کی طرف بازگشت کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جائے گا ۔
اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان جس امتحان میں ڈالا گیا ہے اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مرتے دم تک شیطان کا مقابلہ کرے اور اس کو شکست دے۔ شیطان کے مقابل میں اس کی اسی فتح مندی پر اس کی اخروی فوزوفلاح کا انحصار ہے۔ شیطان کا خاص دائو جس پر اس نے انسان کو شکست دینے کی قسم کھا رکھی ہے یہی توحید ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کو چیلنج دے رکھا ہے کہ وہ انسان کی گھات میں توحید کی راہ پر بیٹھے گا اور اس کو اس راہ سے ہٹا کر شرک کی راہ پر ڈال دے گا۔ سورۂ اعراف میں اس کے اس چیلنج کا ذکر یوں ہوا ہے :
قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَیْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِہِمْط وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ۔
(الاعراف۔ ٧ : ١٦۔ ١٧)
شیطان نے کہا، بوجہ اس کے کہ تو نے مجھے گمراہی میں ڈالا، میں بھی ان کی (بنی آدم کی) گھات میں تیری سیدھی راہ (توحید) پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ان کے آگے سے، ان کے پیچھے سے، ان کے دہنے سے اور ان کے بائیں سے ان پر تاخت کروں گا۔ پس تو ان سے اکثر کو انا شکر گزار (موحد) نہیں پائے گا ۔
شیطان کے ان ہتھکنڈوں کی تفصیل جو وہ انسان کو شرک کے جال میں پھنسانے کے لئے اختیار کرے گا خود شیطان کی زبان سے سورۂ نساء میں یوں بیان ہوئی ہے :
اِنَّ اللہ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُط وَمَنْ یُّشْرِکْ بِ اللہ ِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا۔ اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰـثًاج وَاِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا۔ لَّعَنَہُ اللہ ُم وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۔ وَّلَاُضِلَّنَّہُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّہُمْ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہ ِط وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللہ ِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا۔
(النساء۔ ٤ : ١١٦۔ ١١٩)
اللہ اس جرم کو ہرگز نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے سوا جو گناہ ہیں ان کو جس کے لئے چاہے گا بخش دے گا۔ اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے گا تو وہ نہایت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے بھی ہیں تو دیویوں کو، اور پکارتے بھی ہیں تو شیطان سرکش کو۔ اس پر اللہ کی لعنت۔ اور اس نے کہہ رکھا ہے کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصہ ہتھیا کر رہوں گا۔ ان کو گمراہ کر ڈالوں گا، ان کو آرزوئوں کے جال میں پھنسائوں گا اور ان کو سمجھائوں گا تو وہ چوپایوں کے کان کاٹیں گے اور ان کو سمجھائوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلیں گے اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو کارساز بنائے گا تو وہ نہایت کھلی نامرادی میں پڑا ۔
اس سے بھی زیادہ جامعیت سے یہی مضمون سورۂ بنی اسرائیل کی آیات ٦١۔ ٦٥ میں بھی آیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ان آیات کی تفسیر تدبر قرآن میں پڑھ لیجیے تاکہ ان کے مضمرات اچھی طرح آپ کے سامنے آجائیں اور واضح ہوجائے کہ شیطان کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ وہ انسان کو شرک کے کسی پھندے میں پھنسائے تاکہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کر کے خدا کی رحمت سے بالکل محروم ہوجائے جس کے لئے مغفرت نہیں ہے۔ شیطان کے دل میں بنی آدم کے خلا ف جو حسد و غصہ ہے وہ اسی انتقام سے تسکین پاتا ہے ۔
یہ چیز مقتضی ہوئی کہ آخر میں توحید کی جامع تعلیم کے ساتھ ساتھ شیطان کے فتنوں سے محفوظ رہنے کا وہ طریقہ بھی بتا دیا جائے جو سب سے زیادہ کامیاب طریقہ ہے اور جس کو اختیار کر کے اللہ کا ہر بندہ شیطان کے حملوں سے اپنے خزانۂ توحید کی حفاظت کرسکتا ہے ۔
اسی طریقہ کو واضح کرنے کے لئے آگے کی دونوں سورتوں میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی کہ شیطان جیسے شاطر دشمن کے حملوں سے اپنے کو محفوظ رکھنے کا واحد طریق یہ ہے کہ انسان صرف اپنے رب کی پناہ ڈھونڈھے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا اس کی شاطرانہ چالوں اور کیا دیوں سے بچانے والا نہیں ہے۔ اگر انسان اس کے لئے ہر لمحہ چوکنا نہیں رہے گا تو اندیشہ ہے کہ وہ شیطان سے مار کھاجائے اور پھر اس کے لئے اس کے دام سے نکلنا مشکل ہوجائے ۔
دوسری چیز یہ بتائی گئی ہے کہ خدا کی وہ کیا صفات ہیں جن کے واسطہ سے بندے کو خدا کی وہ پناہ حاصل ہوتی ہے جو اس کو شیطان کے فتنوں سے بالکل مامون کر دیتی ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ ہی کے بتانے کی تھی اور یہ اس کا اپنے بندوں پر عظیم احسان ہے کہ اس نے ان سورتوں میں اپنی ان صفات سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا صحیح تعلق اس کی اعلیٰ صفات ہی کے ذریعہ سے قائم ہوتا ہے اور یہ اسی کو معلوم ہے کہ اس کے بندے اپنے کس دشمن سے مقابلہ کے لئے اپنے رب کی کس صفت کو سپر بنائیں۔ یہ چیز ہر شخص نہیں جان سکتا اور اس میں معمولی غلطی بھی انسان کی جدوجہد کو بے اثر بنا سکتی ہے ۔
تیسری چیز اس میں یہ بتائی گئی ہے کہ انسان کو گمراہ کرنے کے معاملے میں شیطان کی جدوجہد کی رسائی کہاں تک ہے اور اس کے سب سے زیادہ موثر حربے کیا ہیں۔ اس سے مقصود انسان کو اس کے دشمن کی طاقت کا اندازہ کرا دینا ہے تاکہ وہ اس کی قوت سے نہ مرعوب ہو اور نہ اس سے بے پروا رہے بلکہ وہ اچھی طرح آگاہ رہے کہ دشمن کن راستوں سے اس پر وار کرسکتا ہے اور اس کے مقابلہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود اسے کن طاقتور اسلحہ سے مسلح کر رکھا ہے۔ ان اشارات کی روشنی میں پہلے سورۂ فلق کی تلاوت فرمائیے ۔