حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ نمرود کا مناظرہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ نمرود کے ایک مناظرہ کی روداد


نمرود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہم عصر بادشاہ تھا اور تالمود میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اس کا وہ مناظرہ بھی مذکور ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے۔نمرود کے سوال کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی تعریف میں سب سے پہلے وہی بات کہی جو سب سے زیادہ واضح تھی۔ یعنی میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔ جو شخص بھی زندگی اور موت کے سوال پر غور کرتا ہے یہ سوال اس کو خدا کے ماننے پر مجوبر کردیتا ہے بشرطیکہ اس کے دماغ میں کوئی خلل نہ ہو لیکن نمرود کے ذہن میں اقتدار کا خناس سمایا ہوا تھا اس وجہ سے اس نے اس واضح حقیقت پر بھی یہ معارضہ کردیا کہ موت اور زندگی پر اختیار تو میں بھی رکھتا ہوں، جس کا چاہوں سر قلم کردوں، جس کو چاہوں بخش دوں۔ ظاہر ہے کہ یہ معارضہ ایک بالکل ہی احمقانہ معارضہ تھا اس لیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک بالکل ہی دوسری بات فرمائی تھی ۔ انہوں نے محسوس فرما لیا کہ ان کی واضح بات پر اس قسم کا احمقانہ معارضہ وہی کرسکتا ہے جو کٹ حجتی پر اتر آیا ہو اس وجہ سے انہوں نے اس کو مزید حجت کے لیے موقع دینا پسند نہیں فرمایا۔ اس وجہ سے انہوں نے خاص اس پہلو پر الجھنے کے بجائے اپنے رب کی ایک دوسری صفت بیان کردی جس میں نمرود کے لیے کسی بحث کی راہ بالکل مسدود تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا، اگر یہ بات ہے تو میرا رب روز سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تم ایک دن ذرا اس کو مغرب سے نکال کر دکھا دو۔ حجت ابراہیمی کا یہ وار ایسا بھرپور تھا کہ وہ ہکا بکا رہ گیا۔ 

یہاں بلاغت کا یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خاص طور پر سورج کی تسخیر کا ذکر فرمایا جس کو نمرود کی نظر میں معبود اعظم کی حیثیت حاصل تھی اور وہ اپنے آپ کو اسی معبود اعظم کا مظہر بنائے ہوئے بیٹھا تھا۔ بہترین استدلال اور لطیف ترین طنز کی یہ ایک نہایت خوب صورت مثا ل ہے۔ اب آیات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائے :


اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ ۘاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ ۭ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِيْ كَفَرَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ٢٥٨؁ۚ (سورہ بقرۃ : 258)


"کیا تم نے اس کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے باب میں اس وجہ سے حجت کی کہ خدا نے اس کو اقتدار بخشا تھا، جب کہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے، وہ بولا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ یہ بات ہے تو اللہ سورج کو پورب سے نکالتا ہے تو اسے پچھم سے نکال دے، تو وہ کافر یہ سن کو بھوچکاّ رہ گیا اور اللہ ظالموں کو راہ یا ب نہیں کرتا ۔"



(یہ مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر تدبر قرآن سے تلخیص کے ساتھ ماخوذ ہے )