ھدایت و ضلالت کے بارے میں اللہ کی مشیت کیا ہے ؟

قرآن میں اللہ تعالی نے ان  شبہات  کا جواب دیا جو بالعموم  تقدیر کے نام سے پیش کیے جاتے ہیں ۔ متعلقہ موضوع پر ہم نے  مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کی تفہیم القرآن سے مختلف آیات کی روشنی میں درج حاشیوں کو  یہاں جمع کردیا :مثلا ایک جگہ سید ابوالاعلی مودودی ؒ  نے اس شبہ کا جواب دیا جو بالعموم  تقدیر کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ اعتراض کیا جا تا ہے کہ  اقوام میں "اہل خیر کا موجود نہ رہنا یا بہت کم پایاجانا بھی تو آخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا، پھر اس کا الزام ان قوموں پر کیوں رکھا جائے؟ کیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہل خیر پیدا کر دیے؟  اس کے جواب میں (قرآن میں )  یہ حقیقت حال صاف صاف بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کے بارے میں یہ ہے ہی نہیں کہ حیوانات اور نباتات اور ایسی ہی دوسری مخلوقات کی طرح اس کو بھی جبلی طور پر ایک لگے بندھے راستے کا پابند بنا دیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوتی تو پھر دعوت ایمان، بعثت انبیاء اور تنزیل کتب کی ضرورت ہی کیا تھی، سارے انسان مسلم و مومن ہی پیدا ہوتے اور کفر و عصیان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔

 لیکن اللہ نے انسان کے بارے میں جو مشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کو انتخاب و اختیار کی آزادی بخشی جائے، اسے اپنی پسند کے مطابق مختلف راہوں پر چلنے کی قدرت دی جائے، اس کے سامنے جنت اور دوزخ دونوں کی راہیں کھول دیں جائیں اور پھر ہر انسان اور ہر انسانی گروہ کو موقع دیا جائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کو بھی اپنے لیے پسند کرے اس پر چل سکے تاکہ ہر ایک جو کچھ بھی پائے اپنی سعی و کسب کے نتیجہ میں پائے۔ پس جب وہ اسکیم جس کے تحت انسان پیدا کیا گیا ہے، آزادی انتخاب اور اختیار کفر و ایمان کے اصول پر مبنی ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی قوم خود تو بڑھنا چاہے بدی کی راہ پر اور اللہ زبردستی اس کو خیر کے راستے پر موڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے تو انسان سازی کے وہ کارخانے بنائے جو ایک سے ایک بڑھ کر بدکار اور ظالم اور فاسق آدمی ڈھال ڈھال کر نکالیں، اور اللہ اپنی براہ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کر دے جو اس کے بگڑے ہوئے سانچوں کو ٹھیک کر دیں۔ 

اس قسم کی مداخلت خدا کے دستور میں نہیں۔ نیک ہوں یا بد، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم کو خود ہی مہیا کرنے ہوں گے، جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کو پسند کرے گی، جس میں سے کوئی معتدبہ گروہ ایسا نہ اٹھے گا جو نیکی کا جھنڈا بلند کرے اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں اس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہوگی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں، خدا کو کیا پڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے، وہ تو اس کو اسی انجام کی طرف دھکیل دے گا جو اس نے خود اپنے لیے انتخاب کیا ہے۔ البتہ خدا کی رحمت کی مسحتق اگر کوئی قوم ہوسکتی ہے تو صرف وہ جس میں بہت سے افراد ایسے نکلیں جو خود دعوت خیر کو لبیک کہنے والے ہوں اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں یہ صلاحیت باقی رہنے دی ہو کہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کرسکیں۔"  (1)

اسی طرح "کسی شخص کا نصیحت حاصل کرنا سراسر اس کی اپنی مشیت ہی پر موقوف نہیں ہے، بلکہ اسے نصیحت اسی وقت نصیب ہوتی ہے جب کہ اللہ کی مشیت بھی یہ ہو کہ وہ اسے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ دوسرے الفاظ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ بندے کا کوئی فعل بھی تنہا بندے کی اپنی مشیت سے ظہور میں نہیں آتا، بلکہ ہر فعل اسی وقت پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے جب خدا کی مشیت بندے کی مشیت سے مل جائے۔ یہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے جسے نہ سمجھنے سے انسانی فکر بکثرت ٹھوکریں کھاتی ہے۔ مختصر الفاظ میں اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر اس دنیا میں ہر انسان کو یہ قدرت حاصل ہوتی کہ جو کچھ وہ کرنا چاہے کر گزرے تو ساری دنیا کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ جو نظم اس جہان میں قائم ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ  اللہ کی مشیت ساری مشیتوں پر غالب ہے۔ انسان جو کچھ بھی کرنا چاہے وہ اسی وقت کرسکتا ہے جبکہ اللہ بھی یہ چاہے کہ انسان کو وہ کام کرنے دیا جائے۔

 یہی معاملہ ہدایت اور ضلالت کا بھی ہے۔ انسان کا محض خود ہدایت چاہنا اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسے ہدایت مل جائے، بلکہ اسے ہدایت اس وقت ملتی ہے جب اللہ اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ اس طرح ضلالت کی خواہش بھی محض بندے کی طرف سے ہونا کافی نہیں ہے۔ بلکہ جب اللہ اس کے اندر گمراہی کی طلب پا کر یہ فیصلہ کرد یتا ہے کہ اسے غلط راستوں میں بھٹکنے دیا جائے تب وہ ان راہوں میں بھٹک نکلتا ہے جن پر اللہ اسے جانے کا موقع دے دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی چور بننا چاہے تو محض اس کی یہ خواہش اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ جہاں جس کے گھر میں گھس کر وہ جو کچھ چاہے چرالے جائے، بلکہ اللہ اپنی عظیم حکمتوں اور مصلحتوں کے مطابق اس کی اس خواہش کو جب اور جس قدر اور جس شکل میں پورا کرنے کا موقع دیتا ہے اسی حد تک وہ اسے پورا کرسکتا ہے۔ (2)


سورۃ الانعام  میں ایک جگہ ارشاد فرمایا : 

مَنْ يَّشَاِ اللّٰهُ يُضْلِلْهُ  ۭوَمَنْ يَّشَاْ يَجْعَلْهُ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ  39؀

اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے۔

 " خدا کا بھٹکانا یہ ہے کہ ایک جہالت پسند انسان کو آیات الہٰی کے مطالعہ کی توفیق نہ بخشی جائے، اور ایک متعصب غیر حقیقت پسند طالب علم اگر آیات الہٰی کا مشاہدہ کرے بھی تو حقیقت رسی کے نشانات اس کی آنکھ سے اوجھل رہیں اور غلط فہمیوں میں الجھانے والی چیزیں اسے حق سے دور اور دور تر کھینچتی چلی جائیں۔ بخلاف اس کے اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ ایک طالب حق کو علم کے ذرائع سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشی جائے اور اللہ کی آیات میں اسے حقیقت تک پہنچنے کے نشانات ملتے چلے جائیں۔ ان تینوں کیفیات کی بکثرت مثالیں آئے دن ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ بکثرت انسان ایسے ہیں جن کے سامنے آفاق اور انفُس میں اللہ کی بےشمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں مگر وہ جانوروں کی طرح انہیں دیکھتے ہیں اور کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اور بہت سے انسان ہیں جو حیوانیات (Zoology)، نباتیات (Botany)، حیاتیات (Biology)، ارضیات (Geology)، فلکیات (Astronomy)، عضویات (Physiology)، علم التشریح (Anatomy) اور سائنس کی دوسری شاخوں کا مطالعہ کرتے ہیں، تاریخ، آثار قدیمہ اور علوم اجتماع (Social Science) کی تحقیق کرتے ہیں اور ایسی ایسی نشانیاں ان کے مشاہدے میں آتی ہیں جو قلب کو ایمان سے لبریز کر دیں۔ مگر چونکہ وہ مطالعہ کا آغاز ہی تعصب کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر دنیا اور اس کے فوائد و منافع کے سوا کچھ نہیں ہوتا اس لیے اس مشاہدے کے دوران میں ان کو صداقت تک پہنچانے والی کوئی نشانی نہیں ملتی، بلکہ جو نشانی بھی سامنے آتی ہے وہ انہیں الٹی دہریت، الحاد، مادہ پرستی اور نیچریت ہی کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔ ان کے مقابلہ میں ایسے لوگ بھی ناپید نہیں ہیں جو آنکھیں کھول کر اس کارگاہ عالم کو دیکھتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ : (3)

برگ درختان سبز در نَظَرِ ہوشیار
ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار


"یعنی اگر صرف یہی بات مطلوب ہوتی کہ تمام انسان کسی نہ کسی طور پر راست رو بن جائیں تو نبی بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے اور مومنوں سے کفار کے مقابلہ میں جدوجہد کرانے اور دعوت حق کو تدریجی تحریک کی منزلوں سے گزروانے کی حاجت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو اللہ کے ایک ہی تخلیقی اشارہ سے انجام پا سکتا تھا۔ لیکن اللہ اس کام کو اس طریقہ پر کرنا نہیں چاہتا۔ اس کا منشاء تو یہ ہے کہ حق کو دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ پھر ان میں سے جو لوگ فکر صحیح سے کام لے کر حق کو پہچان لیں وہ اپنے آزادانہ اختیار سے اس پر ایمان لائیں۔ اپنی سیرتوں کو اس کے سانچے میں ڈھال کر باطل پرستوں کے مقابلہ میں اپنا اخلاقی تفوق ثابت کریں۔ انسانوں کے مجموعہ میں سے صالح عناصر کو اپنے طاقتور استدلال، اپنے بلند نصب العین، اپنے بہتر اصول زندگی اور اپنی پاکیزہ سیرت کی کشش سے اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں۔ اور باطل کے خلاف پیہم جدوجہد کر کے فطری ارتقاء کی راہ سے اقامت دین حق کی منزل تک پہنچیں۔ اللہ اس کام میں ان کی رہنمائی کرے گا اور جس مرحلہ پر جیسی مدد اللہ سے پانے کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنائیں گے وہ مدد بھی انہیں دیتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ اس فطری راستے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرت قاہرہ کے زور سے افکار فاسدہ کو مٹا کر لوگوں میں فکر صالح پھیلا دے اور تمدن فاسد کو نیست و نابود کر کے مدنیت صالحہ تعمیر کر دے، تو ایسا ہرگز نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی اس حکمت کے خلا ف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، اسے تصرف کے اختیارات دیے ہیں، طاعت و عصیان کی آزادی بخشی ہے، امتحان کی مہلت عطا کی ہے، اور اس کی سعی کے مطابق جزا اور سزا دینے کے لیے فیصلہ کا ایک وقت مقرر کردیا ہے۔" (4)


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



 1-تفہیم القرآن  سورة هُوْد حاشیہ نمبر :116
2- تفہیم القرآن سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :41
3-تفہیم القرآن  سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :28
4-  تفہیم القرآن سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :24