عرب کے بنی اسرائیل اور قرآن

(قرآن میں دیگر اقوام کے مقابلے میں  سب سے زیادہ  بنی اسرائیل کو مخاطب کیا گیا اس دوران ان کی اچھی صفات کی تعریف کی گئی اور ان کی بے دینی کی مذمت  ، خاص کر سورۃ البقرۃ ، آل عمران  میں ان کا ذکر آیا ہے ،یہاں ہم نے بنی اسرائیل کے متعلق  سورۃ البقرہ کی چند آیات کی تفسیر  مولانا وحید الدین خاں کی تفسیر" تذکیر القرآن"  سے انتخاب کیا ہے ۔ 

 مولانا وحید الدین خاں نے اپنی تفسیر میں تفسیر کا  ایک خاص اسلوب اختیار کیا ہے اس میں قرآنی معانی اور مطالب کو سامنے رکھ کر خیالات کا رواں اظہار کیا ہے اس میں قرآن کے مطالب کی وضاحت کے ساتھ قاری کو اصلاحی نصیحت بھی ملتی ہے ۔ اس کے لیے  وہ چند آیات کا نتخاب کرتے ہیں پھر ان کی روشنی میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اس کو تو تفسیر کہنا مشکل ہے بلکہ جیسے انہوں نے اس کا نام رکھا ہے " تذکیر القرآن " قرآن کی نصیحت کہنا زیادہ درست ہے ۔ اس میں قاری دیکھ سکتا ہے  کہ مولانا جن آیات کی وضاحت کرتے ہیں اس میں نصیحت کا پہلو زیادہ نمایا نظر آتا ہے ۔ آئیے مولانا کی تذکیر  کی روشنی بنی اسرائیل کی سرگزشت کا مطالعہ کریں ۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورۃ البقرۃ ، تفسیر آیت 91 تا 96:
 یہود جو قرآن کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس کی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ وہ پہلے سے حق پر ہیں اور حق پرستوں کی سب سے بڑی جماعت (اسرائیل) سے وابستگی رکھتے ہیں۔ مگر یہ در اصل گروہ پرستی تھی جس کو انہوں نے حق پرستی کے ہم معنی سمجھ رکھا تھا۔ وہ گروہی حق کو خالص حق کا مقام دیے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں ظاہر ہوا تو وہ اس کو لینے کے لیے آگے نہ بڑھ سکے۔ اگر خالص حق ان کا مقصود ہوتا تو ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہ ہوتا کہ قران کا آنا خود ان کی مقدس کتاب تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہے اور یہ کہ قرآن کے نزول کے بعد اب قرآن ہی کتابِ حق ہے نہ کہ ان کا اپنا گروہی مذہب ۔

ان کا معاملہ فی الواقع حق پرستی کا معاملہ نہیں، اس کا ثبوت ان کی اپنی تاریخ میں یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے گروہ کے نبیوں (مثلاً حضرت زکریا، حضرت یحیی) کو قتل کیا جنہوں نے ان کی زندگیوں پر تنقید کی، جو "ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو خدا کی طرف پھرا ائیں (نحمیاہ ۔26:9)۔ حضرت موسیٰ نے جو معجزات پیش کیے اس کے بعد ان کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا۔ مگر کوہ طور کے چالیس روزہ قیام کے زمانہ میں جب حضرت موسیٰ کا شخصی دباؤ ان کے سامنے نہ رہا تو انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ان کے سر پر پہاڑ کھڑا کردیا گیا تب بھی صرف زندگی پر قائم رہی۔ اگر وہ سچ مچ خدا پرست ہوتے تو ان کی ساری توجہ خدا کی اس دنیا کی طرف لگ جاتی جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ موجودہ دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں

سورۃ البقرۃ ، تفسیر آیات 97 تا 101: قدیم زمانہ میں یہود کی سرکشی کے نتیجہ میں بار بار ان کو سخت سزائیں دی گئیں۔ سنت اللہ کے مطابق ہر سزا سے پہلے پیغمبروں کی زبان سے اس کی پیشگی خبر دی جاتی۔ یہ خبر اللہ کی طرف جبریل فرشتہ کے ذریہ پیغمبر کے پاس آتی اور وہ اس سے اپنی قوم کو آگاہ کرتے۔ اس قسم کے واقعات میں اصل سبق یہ تھا کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے بچے تاکہ وہ عذاب الٰہی کی زد میں نہ آجائے۔ مگر یہود ان واقعات سے اس قسم کا سبق نہ لے سکے۔ اس کے بجائے وہ کہنے لگے کہ جبریل فرشتہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ ہمیشہ آسمان سے ہمارے خلاف احکام لے کر آتا ہے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان کیا کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ مجھ پر وحی کی ہے تو یہود نے کہنا شروع کیا کہ جبریل تو ہمارا دشمن ہے۔ وہ ہمیشہ آسمان سے ہمارے خلاف احکام لے کر آتا ہے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان کیا کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ مجھ پر وحی کی ہے تو یہود نے کہنا شروع کیا کہ جبریل تو ہمارا پرانا دشمن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت جو صرف اسرائیلی گروہ کا حق تھا، اس کو اس نے ایک اور قبیلہ کے فرد تک پہنچا دیا۔ 

اس قسم کی بے معنی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو فسق اور بے قیدی کی زندگی گزار رہے ہوں۔ یہود کا سوال یہ تھا کہ وہ نفس پرستی، آبائی تقلید، نسلی اور قومی عصبیت کی سطح پر جی رہے تھے۔ اور کچھ نمائشی قسم کے مذہبی کام کرکے ظاہر کرتے تھے کہ وہ عین دین خداوندی پر قائم ہیں۔ جو لوگ اس قسم کی جھوٹی دین داری میں مبتلا ہوں وہ سچے اور بے آمیز دین کی دعوت سن کر ہمیشہ بگڑ جاتے ہیں۔ کیوں کہ ایسی دعوت ان کو ان کے مقام افتخار سے اتارنے کے ہم معنی نظر آتی ہے۔ وہ مشتعل نفسیات کے تحت ایسی باتیں بولنے لگتے ہیں جو نحو و صرف کے اعتبار سے درست ہونے کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے بالکل بے معنی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ فرشتوں کا آتا اور رسولوں کا مبعوث ہنا سب مکمل طور پر خدائی منصوبہ کے تحت ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جب دلائل یہ ظاہر کر رہے ہوں کہ پیغمبر عربی کے پاس وہی چیز آئی ہے جو ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ پر آئی تھی اور وہ پچلھے آسمانی صحیفوں کی پیشین گوئیوں کے عین مطابق ہے تو یہ صریح طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ آدمی بہت سی باتیں یہ ظاہر کرنے کے لیے بولتا ہے کہ وہ ایمان پر قائم ہے۔ حالاں کہ وہ باتیں صرف اس کا ثبوت ہوتی ہیں کہ آدمی کا ایمان اور خدا پرستی سے کوئی تعلق نہیں ۔


سورۃ البقرۃ ، تفسیر آیات 104 تا 108: کسی کو خدا کی طرف سے سچائی ملے اور وہ اس کا داعی بن کر کھڑا ہوجائے تو لوگ اس کے مخالف بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ اس کی دعوت میں لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہود کے لیے لیے مخالفت کا یہ سبب مزید شدت کے ساتھ موجود تھا۔ کیوں کہ وہ پیغمبری کو اپنا قومی حق سمجھتے تھے۔ ان کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ ان کے گروہ کے سوا کسی اور گروہ میں خدا کے پیغمبر کا ظہور ہو۔ یہود آپ کی دعوت کے بارے میں طرح کی مذہبی بحثیں چھیڑتے تاکہ لوگوں کو اس شبہ میں ڈال دیں کہ آپ جو کچھ پیش کر رہے ہیں وہ محض ایک شخص کی ذاتی اپج ہے۔ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیز نہیں ہے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ قرآن میں بعض قانونی احکام تورات سے مختلف تھے۔ ان کو دیکھ کر کر وہ کہتے کہ کیا خدا بھی حکم دینے میں غلطی کرتا ہے کہ ایک بار ایک حکم دے اور اس کے بعد اسی معاملہ میں دوسرا حکم بھیجے۔ اس طرح کے شبہات یہود نے اتنی کثرت سے پھیلائے کہ خود مسلمانوں میں کچھ سادہ مزاج لوگ ان کی بابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوالات کرنے لگے۔ مزید یہ کہ یہود جب آپ کی مجلس میں بیٹھتے تو ایسے الفاظ بولتے جن سے آپ کا بے حقیقت ہونا ظاہرہوتا۔ مثلاً "ہماری طرف توجہ کیجیے" کے لیے عربی زبان میں ایک محفوظ لفظ انظرنا تھا۔ مگر وہ اس کو چھوڑ کر راعنا کہتے۔ کیونکہ تھوڑا سا کھینچ کر اس کو راعینا کہہ دیا جائے تو اس کے معنی "ہمارے چرواہے" کے ہوجاتے ہیں، اسی طرح کبھی الف کو دبا کر وہ اس کے راعن کہتے جس کے معنی احمق کے ہوتے ہیں ۔

ہدایت کی گئی کہ (1) گفتگو میں صاف الفاظ استعمال کرو، مشتبہ الفاظ مت بولو جس میں کوئی برا پہلو نکل سکتا ہو۔ (2) جو بات کہی جائے اس کو غور سے سنو اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرو (3) سوال کی کثرت آدمی کو سیدھے راستہ سے بھٹکا دیتی ہے، اس لیے سوال و جواب کے بجائے عبرت اور نصیحت کا ذہن پیدا کرو (4) اپنے ایمان کی حفاظت رو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی غلطی کی بنا پر تم اپنے ایمان ہی سے محروم ہوجاؤ۔ (5) دنیا میں کسی کے پاس کوئی خیر دیکھو تو حسد اور جلن میں مبتلا نہ ہو، کیوں کہ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جو اس کے فیصلہ تحت اس کے ایک بندے کو پہنچا ہے ۔

سورۃ البقرۃ ، تفسیر آیت 109 تا 112: قرآن کی آواز اگرچہ بہت سے لوگوں کے لیے نامانوس آواز تھی۔ تاہم انہیں میں ایسے لوگ بھی تھے جو اس کو اپنے دل کی آواز پا کر اس کے دائرہ میں داخل ہوتے جا رہے تھے۔ یہ صورت حال یہود کے لیے ناقابل برداشت بن گئی۔ کیوں کہ یہ ایک ایسی چیز کی ترقی کے ہم معنی تھی جو وہ بے حقیقت سمجھ کر نظر انداز کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ کیا کہ ایک طرف مشرکین کو ابھار کر ان کو اسلام کے خلاف جنگ پر آمادہ کردیا۔ دوسری طرف وہ نئے اسلام لانے والوں کو طرح طرح کے شبہات اور مغالطے میں ڈالتے تاکہ وہ قرآن اور صاحب قرآن سے بد ظن ہوجائیں اور دوبارہ اپنے آبائی مذہب کی طرف واپس چلے جائیں۔ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے اندر یہود کے خلاف اشتعال پیدا ہونا فطری تھا۔ مگر اللہ نے اس سے ان کو منع فرما دیا۔ حکم ہوا کہ یہود سے بحث مباحثہ یا ان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی موجودہ مرحلہ میں ہرگز نہ کی جائے۔ اس معاملہ میں تمام تر اللہ پر بھروسہ کیا جائے اور اس وقت کا انتظار کیا جائے جب اللہ تعالیٰ حالات میں ایسی تبدیلی کردے کہ ان کے خلاف کوئی فیصکی کن کارروائی کرنا ممکن ہوجائے۔ بروقت مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صبر کریں اور نماز اور زکوۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں۔ صبر آدمی کو اس سے بچاتا ہے کہ وہ رد عمل کی نفسیات کے تحت منفی کارروائیاں کرنے لگے۔ نماز آدمی کو اللہ سے جوڑتی ہے اور اپنے مال میں دوسرے بھائیوں کو حق دار بنانا وہ چیز ہے جس سے باہمی خیر خواہی اور اتحاد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ 
نئے اسلام لانے والوں سے وہ کہتے کہ تم کو اپنا آبائی مذہب چھوڑنا ہے تو یہودیت اختیار کرلو یا پھر عیسائی بن جاؤ۔ کیونکہ جنت تو یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے ہے جو ہمیشہ سے نبیوں اور بزرگوں کی جماعت رہی ہے۔ فرمایا کہ کسی گروہ سے وابستگی کسی کو جنت کا مستحق نہیں بناتی۔ جنت کا فیصلہ آدمی کے اپنے عمل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے نہ کہ گروہی فضیلت کی بنیاد پر۔ احسان کے معنی ہیں کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ اسلام میں اچھا ہونا یہ ہے کہ اللہ کے لیے آدمی کی حوالگی اتنی کامل ہو کہ ہر دوسری چیز کی اہمیت اس کے ذہن سے حذف ہوجائے۔ گر وہی تعصبات، شخصی وفاداریاں اور دنیوی مصالح کوئی بھی چیز اسکے لیے اللہ کی آواز کی طرف دوڑ پڑنے میں رکاوٹ نہ بنے ۔

سورۃ البقرۃ ، تفسیر آیات 113 تا 117: یہود نے نبیوں اور بزرگوں سے وابستگی کو حق کا معیار بنایا۔ اس وجہ سے ان کو اپنی قوم حق پر اور دوسری قومیں باطل پر نظر آئیں۔ نصاری نے اپنے اندر یہ امتیاز دیکھا کہ اللہ نے اپنا "اکلوتا بیٹا :" ان کے پاس بھیجا۔ مکہ کے مشرکین اپنی یہ خصوصیت سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کے مقدس گھر کے پاسبان ہیں۔ اس طرح ہر گروہ نے اپنے حسب حال حق و صداقت کا ایک خود ساختہ معیار بنا رکھا تھا اور جب وہ اس معیار کی روشنی میں دیکھتا تو لامحالہ اس کو اپنی ذات برسر حق اور دوسروں کی برسر باطل نظر آتی۔ مگر ان کی عملی حالت جس چیز کا ثبوت دے رہی تھی وہ اس کے بالکل برعکس تھی۔ وہ گروہ گروہ بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی جب بھی موقع ملتا، وہ عبادت کے لیے بنے ہوئے خدا کے گھر کو اپنے گروہ کے علاوہ دوسرے گروہ پر بند کردیتا اور اس طرح خدا کے گھر کی ویرانی کا باعث بنتا۔ عبادت خانہ تو وہ مقام ہے جہاں انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اور کا نپتے ہوئے داخل ہو۔ اگر یہ لوگ واقعۃً خدا والے ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ وہ عبادت کے لیے آنے والے کسی بندے کو روکیں یا اس کو ستائیں۔ وہ تو اللہ کی عظمت کے احساس سے دبے ہوئے ہوتے، پھر ان سے اس قسم کی سرکشی کا صدور کیوں کر ہوسکتا تھا۔ 
انہوں نے اللہ کو انسان کے اوپر قیاس کیا۔ ایک انسان اگر مشرق میں ہو تو اسی وقت وہ مغرب میں نہیں ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا بھی اسی طرح کسی خاص سمت میں موجود ہے۔ یقیناً اللہ نے اپنی عبادت کے لیے رخ کا تعین کیا ہے مگر وہ عبادت کی تنظیمی ضرورت کی بنا پر ہے نہ اس لیے کہ خدا اسی خاص رخ میں ملتا ہے۔ اسی طرح انسانوں پر قیاس کرتے ہوئے انہوں نے خدا کا بیٹا فرض کرلیا۔ حالاں کہ خدا اس قسم کی چیزوں سے بلند و برتر ہے۔ جو لوگ اس طرح خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتائیں، ان کے لیے خدا کے یہاں رسوائی اور عذاب کے سوا اور کچھ نہیں ۔


سورۃ البقرۃ ، تفسیر آیات 118 تا 121: اللہ کے وہ بندے جو اللہ کی طرف سے اس کے دین کا اعلان کرنے کے لیے آئے، ان کو ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے رد عمل سے سابقہ پیش آیا۔ "اگر تم خدا کے نمائندے ہو تو تمہارے ساتھ دنیا کے خزانے کیوں نہیں"۔ یہ شبہ ان لوگوں کو ہوتا جو اپنے دنیا پرستانہ مزاج کی وجہ سے مادی بڑائی کو بڑائی سمجھتے تھے، اس لیے وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے میں بھی یہی بڑائی دیکھنا چاہتے تھے۔ جب داعی حق کی زندگی میں ان کو اس قسم کی بڑائی دکھائی نہ دیتی تو وہ اس کا انکار کردیتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ایک "معمولی آدمی" کیوں کر وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو زمین و آسمان کے مالک نے اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے چنا ہو۔ اللہ کے ان بندوں کی زندگی اور ان کے کلام میں اللہ اپنی نشانیوں کی صورت میں شامل ہوتا، بالفاظ دیگر معنوی بڑائیاں پوری طرح ان کے ساتھ ہوتیں۔ مگر اس قسم کی چیزیں لوگوں کو نظر نہ آتیں، اس لیے وہ ان کو "بڑا" ماننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے۔ دلیل اپنی کامل صورت میں موجود ہو کر بھی ان کے ذہن کا جزء نہ بنتی، کیوں کہ وہ ان کے مزاجی ڈھانچہ کے مطابق نہ ہوتی۔ 

یہود و نصاری قدیم زمانہ میں آسمانہ مذہب کے نمائندے تھے مگر زوال کا شکار ہونے کے بعد دین ان کے لیے ایک گروہی طریقہ ہو کر رہ گیا تھا۔ وہ اپنے گروہ سے وابستہ رہنے کو دین سمجھتے اور گروہ سے الگ ہوجانے کو بے دینی۔ ان کے گروہ میں شامل ہونا یا نہ ہونا ہی ان کے نزدیک حق اور ناحق کا معیار بن گیا تھا دین جب اپنی بے آمیز صورت میں ان کے سامنے آیا تو ان کا گروہی دین داری کا مزاج اس کو قبول نہ کرسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بے آمیز دین کو وہی اختیار کرے گا جس نے اپنی فطرت کو زندہ رکھا ہے۔ جن کی فطرت کی روشنی بجھ چکی ہے ان سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں۔ دین کو ایسے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی خاطر دین کو بدلا نہیں جا سکتا ۔

سورۃ البقرۃ ، تفسیر آیات 122 تا 124: بنی اسرائیل کو اس کار خاص کے لیے چنا گیا تھا کہ وہ اقوام عام کو اللہ کی طرف بلائیں اور ان کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ ان کے اعمال کے بارے میں ان کا مالک ان سے سوال کرنے والا ہے۔ اس کام کی رہنمائی کے لیے ان کے درمیان مسلسل پیغمبر آتے رہے۔ حضرت ابراہیم، یعقوب، یوسف، موسیٰ، داود، سلیمان، زکریا، یحیی، عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ۔ مگر بعد کے زمانہ میں جب بنی اسرائیل پر زوال آیا تو انہوں نے اس منصبی فضیلت کو سنلی اور گروہ فضیلت کے معنی میں لے لیا۔ اور اس طرح اس کی بابت اپنے استحقاق کو کھو دیا۔ اسماعیلی خاندان میں نبی عربی کا آنا دراصل بنی اسرائیل کی مقام فضیلت سے معزولی اور اس کی جگہ بنی اسماعیل کے تقرر کا اعلان تھا۔ بنی اسرائیل میں جو لوگ فی الواقع خدا پرست تھے ان کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ نبی عربی جو کلام پیش کر رہے ہیں وہ خدا کی طرف سے آیا ہوا کلام ہے۔ مگر جو لوگ گروہی تعصبات کو دین بنائے ہوئے تھے ان کے لیے اپنے سے باہر کسی فضیلت کا اعتراف کرنا ممکن نہ ہوسکا۔ 

پیغمبر عربی کے ذریعہ ان کو متنبہ کیا گیا کہ یاد رکھو آخرت میں حقیقی ایمان اور سچے عمل کے سوا کسی بھی چیز کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔ دنیا میں ایک شخص دوسرے شخص کا بار اپنے سر لے لیتا ہے۔ کسی معاملہ میں کسی کی سفارش کام آجاتا ہے، کبھی معاوضہ دے کر آدمی چھوٹ جاتا ہے۔ کبھی کوئی مددگار مل جاتا ہے جو پشت پناہی کرکے بچا لیتا ہے۔ مگر آخرت میں اس قسم کی کوئی چیز کسی کے کام آنے والی نہیں۔ آخرت کسی گروہ کی نسلی وراثت نہیں، وہ اللہ کے بے لاگ انصاف کا دن ہے۔ حضرت ابراہیم کو جو درجہ فضیلت ملا اس کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب وہ کڑی جانچ میں خدا کے سچے فرماں بردار ثابت ہوئے۔ اللہ کی یہہی سنت ان کی نسل کے بارے میں بھی ہے کہ جو عمل میں پور اترے گا وہ اس وعدہ الٰہی میں شریک ہوگا۔ اور جو عمل کے ترازو پر اپنے کو سچا ثابت نہ کرسکے اس کا وہی انجام ہوگا جو اس قسم کے دوسرے مجرمین کے لیے اللہ کے یہاں مقدر ہے۔ حضرت ابراہیم کو نہایت کڑی آزمائشوں کے بعد پیشوائی کا مقام دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت و قیادت کے منصب کا استحقاق قربانیوں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ قربانی کی قیمت پر کسی مقصد کو اختیار کرنے والا اس مقصد کی راہ میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ اس لیے قدرتی طور پر وہی اس کا قائد بنتا ہے ۔

(تذکیر القرآن ، سورۃ البقرہ آیات  91 تا 124، مولانا وحید الدین خاں )