سورہ فاتحہ : احکام ومسائل

سورہ فاتحہ میں پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ہے پھر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا اقرار اور اس کا اظہار ہے کہ ہم اسکے سوا کسی کو اپنا حاجت روا نہیں سمجھتے یہ گویا حلف وفاداری ہے جو انسان اپنے رب کے ساتھ کرتا ہے اس کے بعد پھر ایک اہم دعا ہے جو تمام انسانی مقاصد وضروریات پر حاوی ہے اور اس میں بہت سے فوائد اور مسائل ضمنی آئے ہیں ان میں سے چند اہم مسائل کو لکھا جاتا ہے :

(١)  دعا کرنے کا طریقہ: 



 اس خاص اسلوب کلام کے ذریعہ انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اللہ جل شانہ سے کوئی دعا ودرخواست کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کی حمد وثنا کا فرض بجا لاکر پھر حلف وفادری اس بات کا کرو کہ ہم اس کے سوا نہ کسی کو لائق عبادت سمجھتے ہیں اور نہ کسی کو حقیقی معنی میں مشکل کشا اور حاجت روا مانتے ہیں اس کے بعد اپنے مطلب کی دعا کرو اس طریقہ سے جو دعا کی جائیگی اس کے قبول ہونے کی قوی امید ہے (احکام جصاص) 

اور دعا میں بھی ایسی جامع دعا اختیار کرو جس میں اختصار کے ساتھ انسان کے تمام مقاصد داخل ہوجائیں جیسے ہدایت صراط مستقیم کہ دنیا ودین کے ہر کام میں اگر انسان کا راستہ سیدھا ہوجائے تو کہیں ٹھوکر لگنے اور نقصان پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے غرض اس جگہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے اپنی حمد وثناء بیان کرنے کا اصل مقصد انسان کو تعلیم دینا ہے،


(٢) اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء انسان کا فطری فرض ہے۔ 


 اس سورت کے پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے کی تعلیم وترغیب ہے مگر حمد کسی نعمت یاصفت کی بناء پر ہوا کرتی ہے یہاں کسی نعمت یاصفت کا ذکر نہیں اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بےشمار ہیں ان کا کوئی انسان احاطہ نہیں کرسکتا، جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا (١٤: ٣٤) یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے، انسان اگر سارے عالم کو چھوڑ کر اپنے ہی وجود پر نظر ڈال لے تو معلوم ہوگا کہ اس کا وجود خود ایک عالم اصغر ہے جس میں عالم اکبر کے سارے نمونے موجود ہیں اس کا بدن زمین کی مثال ہے اس پر اگنے والے بال نباتات کی مثال ہیں، اس کی ہڈیاں پہاڑوں کی شبیہ ہیں اس کے بدن کی رگیں جس میں رواں ہے زمین کے نیچے بہنے والے چشموں اور نہروں کی مثال ہیں، 

انسان دو جز سے مرکب ہے، ایک بدن دوسرے روح اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قدر و قیمت کے اعتبار سے روح اصل، اعلیٰ اور افضل ہے، بدن محض اس کے تابع اور ادنی درجہ رکھتا ہے اس ادنی جز کے متعلق بدن انسان کی تحقیق کرنے والے اطباء اور اہل تشریح نے بتلایا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً پانچ ہزار مصالح اور منافع رکھے ہیں اس کے بدن میں تین سو سے زیادہ جوڑ ہیں ہر ایک جوڑ کو اللہ تعالیٰ ہی قدرت کاملہ نے ایسا مستحکم بنایا ہے کہ ہر وقت کی حرکت کے باوجود نہ وہ گھستا ہے نہ اس کی مرمت کی ضرورت ہوتی ہے عادۃ انسان کی عمر ساٹھ ستر سال ہوتی ہے پوری عمر اس کے یہ نرم و نازک اعضاء اور ان کے سب جوڑ اکثر اوقات اس طرح حرکت میں رہتے ہیں کہ فولاد بھی ہوتا تو گھس جاتا مگر حق تعالیٰ نے فرمایا، نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَهُ (٢٨: ٧٦) یعنی اگر ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا اور ہم نے ہی اس کے جوڑ بند مضبوط کئے اسی قدرتی مضبوطی کا نتیجہ ہے کہ عام عادت کے مطابق یہ نرم ونازک جوڑ ستر برس اور اس سے بھی زیادہ عرصہ تک کام دیتے ہیں انسانی اعضاء میں سے صرف آنکھ ہی کو لے لیجئے اس میں جو اللہ تعالیٰ شانہ کی حکمت بالغہ کے مظاہر موجود ہیں انسان کو عمر بھر خرچ کرکے بھی ان کا پورا ادراک آسان نہیں، 

پھر اس آنکھ کے ایک مرتبہ کے عمل کو دیکھ کر یہ حساب لگائیے کہ اس ایک منٹ کے عمل میں حق تعالیٰ کی کتنی نعمتیں کام کر رہی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کیونکہ آنکھ اٹھی اور اس نے کسی چیز کو دیکھا اس میں جس طرح آنکھ کی اندرونی طاقتوں نے عمل کیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بیرونی مخلوقات کا اس میں بڑا حصہ ہے اگر آفتاب کی روشنی نہ ہو تو آنکھ کے اندر کی روشنی کام نہیں دے سکتی پھر آفتاب کے لئے بھی ایک فضاء کی ضرورت ہوتی ہے انسان کے دیکھنے اور آنکھ کو کام میں لانے کے لئے غذا ہوا وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ نظر اٹھ کر جو کچھ دیکھتی ہے اس میں پورے عالم کی طاقتیں کام کرتی ہیں یہ ایک مرتبہ کا عمل ہوا پھر آنکھ دن میں کتنی مرتبہ دیکھتی اور سال میں کتنی مرتبہ عمر میں کتنی مرتبہ، یہ ایسا سلسلہ ہے جس کے اعداد وشمار انسانی طاقت سے خارج ہیں،

اسی طرح کان، زبان، ہاتھ، پاؤں کے جتنے کام ہیں ان سب میں پورے عالم کی قوتیں شامل ہو کر کام پورا ہوتا ہے، یہ تو وہ نعمت ہے جو ہر زندہ انسان کو میسر ہے اس میں شاہ وگدا، امیروغریب کا کوئی امتیاز نہیں اور اللہ شانہ کی بڑی بڑی نعمتیں سب ایسی ہی وقف عام ہیں کہ ہر فرد انسانی ان سے نفع اٹھاتا ہے، آسمان، زمین ان دونوں میں اور ان کے درمیان پیدا ہونے والی تمام کائنات چاند، سورج، ثوابت اور سیارے ہوا، فضا کا نفع ہر جاندار کو پہنچ رہا ہے،

اس کے بعد اللہ جل شانہ کی نعمائے خاصہ جو انسان کے افراد میں بتقاضائے حکمت کم وبیش کر کے عطاء ہوتی ہیں، مال اور دولت، عزت اور جاہ، راحت اور آرام سب اسی قسم میں داخل ہیں اور اگرچہ بات بالکل بدیہی ہے کہ نعمائے عامہ مال دولت وغیرہ کے زیادہ اہم اور اشرف ہیں مگر بھولا بھالا انسان تمام افراد انسان میں عام ہونے کی بناء پر کبھی ان عظیم الشان نعمتوں کی طرف التفات بھی نہیں کرتا ہے کہ یہ کوئی نعمت ہے صرف گردوپیش کی معمولی چیزیں کھانے، پینے، رہنے سہنے کی خصوصی چیزوں ہی پر اس کی نظر رک جاتی ہے، بہرحال یہ ایک سرسری نمونہ ہے ان کا جو ہر انسان پر ہر وقت مبذول ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا ہی چاہئے کہ انسان اپنی مقدور بھر ان احسانات وانعامات کرنے والے کی حمد و ثناء کرے اور کرتا رہے اسی کے تقاضائے فطرت کی تلقین کے لئے قرآن کی سب سے پہلی سورت کا سب سے پہلا کلمہ الحمد لایا گیا ہے، اور اللہ کی حمد وثناء کو عبادت میں بڑا درجہ دیا گیا ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو کوئی نعمت عطا فرمائیں اور وہ اس پر الحمد للہ کہے تو ایسا ہوگیا کہ گویا جو کچھ اس نے لیا ہے اس سے افضل چیز دے دی (قرطبی از ابن ماجہ بروایت انس ) 

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگر ساری دنیا کی نعمتیں کسی ایک شخص کو حاصل ہوجائیں اور وہ اس پر الحمد للہ کہہ لے تو یہ الحمد للہ ان ساری دنیا کی نعمتوں سے افضل ہے، قرطبی نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ الحمد للہ زبان سے کہنا بھی اللہ کی ایک نعمت ہے اور یہ نعمت ساری دنیا کی نعمتوں سے افضل ہے اور حدیث صحیح میں ہے کہ الحمد للہ سے میزان عمل کا آدھا پلہ بھر جاتا ہے اور حمد کی حقیقت حضرت شقیق بن ابراہیم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمھیں کوئی چیز عطا فرمائے تو اول اس کے دینے والے کو پہچانو پھر جو کچھ اس نے دیا ہے اس پر راضی ہوجاؤ پھر جب تک تمہارے جسم میں اس کی عطاء کی ہوئی قوت وطاقت موجود ہے اس کی نافرمانی کے قریب نہ جاؤ (قرطبی) 

دوسرا کلمہ للہ ہے، اس میں لفظ اللہ کے ساتھ شروع میں حرف لام لگا ہوا ہے جس کو عربیت کے قاعدے سے لام اختصاص کہا جاتا ہے جو کسی حکم یا وصف کی خصوصیت پر دلالت کرتا ہے اس جگہ معنی یہ ہیں کہ صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء انسان کا فرض ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حمد وثناء صرف اسی کی ذات قدوس کے ساتھ مخصوص ہے حقیقی طور پر اس کے سوا عالم میں کوئی مستحق حمد وثناء کا نہیں ہوسکتا جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے، ہاں اس کے ساتھ یہ بھی اس کا انعام ہے کہ انسان کو تہذیب اخلاق سکھانے کے لئے اس کو یہ بھی حکم دے دیاکہ میری نعمت واحسان جن واسطوں سے تمہارے ہاتھ آئے ان کا بھی شکر ادا کرو کیونکہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر ادا کرنے کا خوگر نہ ہو وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرے گا،


(٣)  خود اپنی مدح وثناء کسی انسان کے لئے جائز نہیں :

خود اپنی حمد وثناء کا بیان کرنا کسی مخلوق کے لئے جائز نہیں قرآن کریم میں ارشاد ہے،


فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (٥٣: ٣٢) یعنی تم میں اپنی پاکی اور صفائی کا دعویٰ نہ کرو اللہ ہی جانتا ہے کہ کون تقوٰی شعار ہے،

مطلب یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مدح کا مدار تقویٰ پر ہے، اور اس کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کس کا تقوٰی کس درجے کا ہے اور حق تعالیٰ نے جو اپنی حمد و ثناء خود بیان فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ بیچارہ انسان اس کی استعداد نہیں رکھتا کہ بارگاہ عزت وجلال کی حمد وثناء کیسے بیان کرے اور کسی کی تو کیا مجال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد وثناء کرسکے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا احصی ثناء علیک یعنی میں آپ کی ثناء کماحقہ نہیں کرسکتا اس لئے اللہ جل شانہ نے خود ہی حمد وثناء کا طریقہ انسان کو تعلیم فرمادیا،

لفظ رب اللہ تعالیٰ کا خاص نام ہے غیر اللہ کو رب کہنا جائز نہیں :

(٤) لفظ رب کو ایسے شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی چیز کا مالک ہو اور اس کی تربیت واصلاح کی تدبیر اور پوری نگرانی بھی کرتا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ ساری کائنات ومخلوقات کا ایسا رب سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ہوسکتا اس لئے یہ لفظ اپنے اطلاق کے وقت حق تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے غیر اللہ کو رب کو کہنا جائز نہیں، صحیح مسلم کی حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے کہ کوئی غلام یا نوکر اپنے آقا کو رب کہے البتہ کسی خاص چیز کی طرف اضافت کرکے انسان وغیرہ کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاسکتا ہے مثلاً رب المال رب الدار وغیرہ (قرطبی) 

استعانت کے معنی کی تشریح اور مسئلہ توسُّل کی تحقیق :

(٥) اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کے معنی مفسّر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس نے یہ بیان فرمائی ہیں کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں تیرے سوا کسی سے نہیں مانگتے (ابن جریر ابن ابی حاتم) 

بعض سلف صالحین نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ پورے قرآن کا راز (خلاصہ) ہے اور آیت اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پوری سورۃ فاتحہ کا راز (خلاصہ) ہے کیونکہ اس کے پہلے جملے میں شرک سے بری ہونے کا اعلان ہے، اور دوسرے جملے میں اپنی قوت وقدرت سے بری ہونے کا اظہار ہے کہ بندہ عاجز بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کے کچھ نہیں کرسکتا جس کا نتیجہ اپنے سب کاموں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہے جس کی ہدایت قرآن کریم میں جابجا آئی ہے

فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْه ِ (ھود : ١٢٣) قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِهٖ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا (سورہ ملک : ٢٩) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا (مزمل : ٩) 

ان تمام آیات کا حاصل یہی ہے کہ مومن اپنے ہر عمل میں اعتماد اور بھروسہ نہ اپنی قابلیت پر کرے نہ کسی دوسرے کی مدد پر بلکہ کلّی اعتماد صرف اللہ تعالیٰ ہی پر ہونا چاہئے، وہی کارساز مطلق ہے،

اس سے دو مسئلے اصول عقائد کے ثابت ہوئے اول یہ کہ :

(ا)- اللہ کے سوا کسی کی عبادت روا نہیں اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا حرام اور ناقابل معافی جرُم ہے :

عبادت کے معنی اوپر معلوم ہوچکے ہیں کہ کسی ذات کی انتہائی عظمت ومحبت کی بناء پر اس کے سامنے اپنی انتہائی عاجزی اور تذلّل کا اظہار ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مخلوق کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے تو یہ شرک کہلاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ شرک صرف اسی کو نہیں کہتے کہ بت پرستوں کی طرح کسی پتھر کی مورتی وغیرہ کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھے بلکہ کسی کی عظمت، محبت، اطاعت کو وہ درجہ دینا جو اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے یہ بھی شرک جلی میں داخل ہے قرآن مجید میں یہود ونصارٰی کے شرک کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہ (٣١: ٩) یعنی ان لوگوں نے اپنے دینی عالموں کو اپنا رب بنالیا ہے،

حضرت عدی بن حاتم جو مسلمان ہونے سے پہلے نصرانی تھے انہوں نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم نے فرمایا کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے علماء بہت سی ایسی چیزوں کو حرام قرار دیدیتے ہیں جن کو اللہ نے حلال کیا ہے، اور تم اپنے علماء کے کہنے پر ان کو حرام ہے سمجھتے ہو، اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے تمہارے علماء ان کو حلال کردیتے ہیں تو تم ان کے کہنے کا اتباع کرکے حلال کرلیتے ہو عدی بن حاتم نے عرض کیا کہ بیشک ایسا تو ہے اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہی تو ان کی عبادت ہے،

اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے حلال یا حرام قرار دینے کا حق صرف حق تعالیٰ کا ہے جو شخص اس میں کسی دوسرے کو شریک قرار دے اور اللہ تعالیٰ کے احکام حرام وحلال معلوم ہونے کے باوجود ان کے خلاف کسی دوسرے کے قول کو واجب الاتباع سمجھے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے اور شرک میں مبتلا ہے،

عام مسلمان جو قرآن وسنت کو براہ راست سمجھنے کی اور ان سے احکام شرعیہ نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے کسی امام مجتہد، یا عالم ومفتی کے قول پر اعتماد کرکے عمل کرتے ہیں اس کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ درحقیقت قرآن وسنت ہی پر عمل ہے اور احکام خداوندی ہی کی اطاعت ہے اور خود قرآن کریم نے اس کی ہدایت فرمائی ہے،۔

فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (٣٤: ١٦) یعنی اگر تم خود احکام آلہیہ کو نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو،

اور جس طرح احکام حلال وحرام میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو شریک کرنا شرک ہے اسی طرح کسی کے نام کی نذر (منت) ماننا بھی شرک میں داخل ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو حاجت روا مشکل کشا سمجھ کر اس سے دعاء مانگنا بھی شرک ہے کیونکہ حدیث میں دعاء کو عبادت فرمایا گیا ہے، اسی طرح ایسے اعمال وافعال جو علامات شرک سمجھے جاتے ہیں ان کا ارتکاب بھی بحکم شرک ہے جیسے حضرت عدی بن حاتم نے فرمایا کہ (مسلمان ہونے کے بعد) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے گلے میں صلیب پڑی ہوئی تھی آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اس بت کو اپنے گلے سے نکالدو، 

اگرچہ اس وقت عدی بن حاتم کا عقیدہ صلیب کے متعلق وہ نہ تھا جو نصرانیوں کا ہوتا ہے مگر ظاہری طور پر بھی علامت شرک سے اجتناب کو ضروری سمجھ کر یہ ہدایت کی گئی، افسوس کے آجکل ہزاروں مسلمان ریڈ کر اس کا صلیبی نشان لگائے ہوئے پھرتے ہیں اور کوئی پروا نہیں کرتے کہ بلاوجہ ایک مشرکانہ جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں اسی طرح کسی کو رکوع، سجدہ کرنا، یابیت اللہ کے سوا کسی دوسری چیز کے گرد طواف کرنا یہ سب علامات شرک ہیں جن سے اجتناب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے اقرار یا حلف وفاداری کا جز ہے 

(ب) - دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ استعانت اور استغاثہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرنا ہے کسی دوسرے سے جائز نہیں ۔


مسئلہ استعانت وتوسل کی تحقیق اور احکام کی تفصیل :


یہ دوسرا مسئلہ کسی سے مدد مانگنے کا ذرا تشریح طلب ہے کیونکہ ایک مدد تو مادّی اسباب کے ماتحت ہر انسان دوسرے انسان سے لیتا ہے اس کے بغیر اس دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا صنعت کار اپنی صنعت کے ذریعہ ساری مخلوق کی خدمت کرتا ہے، مزدور، معمار، بڑھئی، لوہار سب مخلوق کی مدد میں لگے ہوئے ہیں اور ہر شخص ان سے مدد مانگنے پر مجبور ہے ظاہر ہے کہ یہ کسی دین اور شریعت میں ممنوع نہیں وہ اس استعانت میں داخل نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اسی طرح غیر مادّی اسباب کے ذریعہ کسی نبی یا ولی سے دعاء کرنے کی مدد مانگنا یا ان کا وسیلہ دے کر براہ راست اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا روایات حدیث اور اشارات قرآن سے اس کا بھی جواز ثابت ہے وہ بھی اس استعانت میں داخل نہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص اور غیر اللہ کے لئے حرام و شرک ہے،

اب وہ مخصوص استعانت وامداد جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور غیر اللہ کے لئے شرک ہے کونسی ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی فرشتے یا پیغمبر یا ولی یا کسی اور انسان کو خدا تعالیٰ کی طرح قادر مطلق اور مختار مطلق سمجھ کر اس سے اپنی حاجت مانگے یہ تو ایسا کھلا ہوا کفر ہے کہ عام مشرکین بت پرست بھی اس کو کفر سمجھتے ہیں اپنے بتوں، دیوتاؤں کو بالکل خدا تعالیٰ کی مثل قادر مطلق اور مختار مطلق یہ کفار بھی نہیں مانتے،

دوسری قسم وہ ہے جس کو کفار اختیار کرتے ہیں اور قرآن کریم اور اسلام اس کو باطل و شرک قرار دیتا ہے، وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں یہی مراد ہے کہ ایسی استعانت وامداد ہم اللہ کے سوا کسی سے نہیں چاہتے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق فرشتے یا پیغمبر یا ولی یا کسی دیوتا کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ اگرچہ قادر مطلق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کامل اختیارات اسی کے ہیں لیکن اس نے اپنی قدرت واختیار کا کچھ حصہ فلاں شخص کو سونپ دیا ہے اور اس دائرے میں وہ خود مختار ہے یہی وہ استعانت واستمداد ہے جو مومن و کافر میں فرق اور اسلام و کفر میں امتیاز کرتی ہے قرآن اس کو شرک وحرام قرار دیتا ہے، بت پرست مشرکین اس کے قائل اور اس پر عامل ہیں، 

اس معاملے میں دھوکہ یہاں سے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بہت سے فرشتوں کے ہاتھوں دنیوی نظام کے بہت سے کام جاری کرتے ہیں دیکھنے والا اس مغالطے میں پڑ سکتا ہے کہ اس فرشتے کو اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار سپرد کردیا ہے یا انبیاء علیہم السلام کے ذریعے بہت سے ایسے کام وجود میں آتے ہیں جو عام انسانوں کی قدرت سے خارج ہیں جن کو معجزات کہا جاتا ہے اسی طرح اولیاء اللہ کے ذریعے بھی ایسے ہی بہت سے کام وجود میں آتے ہیں جن کو کرامات کہا جاتا ہے یہاں سرسری نظر والوں کو یہ مغالطہ لگ جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کاموں کی قدرت واختیار ان کو سپرد نہ کرتا تو ان کے ہاتھ سے یہ کیسے وجود میں آتے؟ اس سے وہ ان انبیاء واولیاء کے ایک درجے میں مختار کار ہونے کا عقیدہ بنا لیتے ہیں حالانکہ حقیقت یوں نہیں بلکہ معجزات اور کرامات براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے صرف اس کا ظہور پیغمبر یا ولی کے ہاتھوں پر ان کی عظمت ثابت کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، پیغمبر اور ولی کو اس کے وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا قرآن مجید کی بےشمار آیات اس پر شاہد ہیں مثلاً آیت وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى (١٧: ٨) میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپ نے دشمن کی طرف ایک مٹھی کنکریوں کی پھینکی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جالگیں، اس کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی جس سے معلوم ہوا کہ معجزہ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے صادر ہوتا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے،

اسی طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کو جب ان کی قوم نے کہا کہ اگر آپ سچے ہیں تو جس عذاب سے ڈرا رہے ہیں وہ بلا لیجئے تو انہوں نے فرمایا ؛ اِنَّمَا يَاْتِيْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَاۗءَ (ہود : ٣٣) یعنی معجزہ کے طور پر آسمانی عذاب نازل کرنا میرے قبضے میں نہیں اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو یہ عذاب آجائے گا پھر تم اس سے بھاگ نہ سکوگے،

سورہ ابراہیم میں انبیاء ورسل کی ایک جماعت کا یہ قول ذکر فرمایا ہے وَمَا كَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِيَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰھِ (١٤: ١١) یعنی کسی معجزہ کا صادر کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں اللہ تعالیٰ کے اذن ومشیت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا، اسی وجہ سے کوئی پیغمبر یا کوئی ولی جب چاہے جو چاہے معجزہ یا کرامت دکھا دے یہ قطعاً کسی کے بس میں نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء سے بہت سے معین معجزات کا مطالبہ مشرکین نے کیا مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے چاہا ظاہر کردیا جس کو نہ چاہا نہیں ہوا پورا قرآن اس کی شہادتوں سے بھرا ہوا ہے، 

ایک محسوس مثال سے اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ آپ جس کمرے میں بیٹھے ہیں اس میں بجلی کی روشنی بلب سے اور ہوا برقی پنکھے سے آپ پہنچ رہی ہے، مگر یہ بلب اور پنکھا اس روشنی اور ہوا پہنچانے میں قطعاً خود مختار نہیں بلکہ ہر آن اس جوڑ (کنکش) کے محتاج ہیں جو تار کے ذریعے پاور ہاؤس کے ساتھ ان کو حاصل ہے ایک سیکنڈ کے لئے یہ جوڑ ٹوٹ جائے تو نہ بلب آپ کو روشنی دے سکتا ہے نہ پنکھا ہوا دے سکتا ہے کیونکہ درحقیقت وہ عمل بلب اور پنکھے کا ہے ہی نہیں بلکہ بجلی کی رو کا ہے جو پاور ہاوس سے یہاں پہنچ رہی ہے انبیاء واولیاء اور سب فرشتے ہر عمل میں ہر کام میں ہر آن حق تعالیٰ کے محتاج ہیں اسی کی قدرت ومشیت سے سب کام وجود میں آتے ہیں اگرچہ ظہور اس کا بلب اور پنکھے کی طرح انبیاء واولیاء کے ہاتھوں پر ہوتا ہے ،

اس مثال سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ان چیزوں کے صدور اور وجود میں اگرچہ اختیار انبیاء واولیاء کا نہیں مگر ان کا وجود باوجود ان سے بالکل بےدخل بھی نہیں جیسے بلب اور پنکھے کے بغیر آپ کو روشنی اور ہوا نہیں پہنچ سکتی یہ معجزات وکرامات بھی انبیاء واولیاء کے بغیر نہیں ملتے اگرچہ یہ فرق ضرور ہے کہ پوری فٹنگ اور کنکشن درست ہونے کے باوجود آپ کو بغیر بلب کے روشنی اور بغیر واسطہ کسی پیغمبر و ولی کے بھی اس کا ظہور فرمادیں مگر عادۃ اللہ یہی ہے کہ ان کا صدور بغیر واسطہ اولیاء وانبیاء کے نہیں ہوتا کیونکہ ایسے خوارق عادات کے اظہار سے جو مقصد ہے وہ اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا،

اس لئے معلوم ہوا کہ عقیدہ تو یہ رکھنا ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت ومشیت سے ہو رہا ہے اس کے ساتھ انبیاء و اولیاء کی عظمت وضرورت کا بھی اعتراف ضروری ہے اس کے بغیر رضائے الہی اور طاعت احکام خداوندی سے محروم رہے گا، جس طرح کوئی شخص بلب اور پنکھے کی قدر نہ پہچانے اور ان کو ضائع کردے تو روشنی اور ہوا سے محروم رہتا ہے،

وسیلہ استعانت اور استمداد کے مسئلے میں بکثرت لوگوں کو اشکال رہتا ہے امید ہے کہ اس تشریح سے اصل حقیقت واضح ہوجائے گی اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ انبیاء و اولیاء کو وسیلہ بنانا نہ مطلقاً جائز ہے اور نہ مطلقاً ناجائز، بلکہ اس میں وہ تفصیل ہے جو اوپرٍ ذکر کی گئی ہے کہ کسی کو مختار مطلق سمجھ کر وسیلہ بنایا جائے تو شرک وحرام ہے اور محض واسطہ اور ذریعہ سمجھ کر کیا جائے تو جائز ہے اس میں عام طور پر لوگوں میں افراط وتفریط کا عمل نظر آتا ہے،

واللہ اسأل الصواب والسداد وبیدہ المبدأ ولامعاد

صراط مستقیم کی ہدایت دنیا و دین میں کلید کامیابی ہے :


(٦) اصل تفسیر میں یہ بات وضاحت سے آگئی ہے کہ قرآن کریم نے جس دعاء کو ہر شخص کے لئے ہر کام کے لئے ہر حال میں انتخاب فرمایا ہے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کی دعاء ہے جس طرح آخرت کی کامیابی اس صراط مستقیم پر موقوف ہے جو انسان کو جنت کی طرف لیجائے اسی دنیا کے سارے کاموں میں بھی غور کرو تو کامیابی کا مدار صراط مستقیم ہی ہے جس کام میں وہ آلات وذرائع اختیار کئے گئے جس کے نتیجے میں مقصد کا حصول عادۃ لازمی ہے جو کامیابی عادۃ لازمی ہوتی ہے جہاں کہیں انسان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا تو اگر وہ غور کرے تو معلوم ہوجائے گا کہ کام کے کسی مرحلے میں اس میں اس نے یہ غلطی کی ہے صحیح راستہ ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا اس لئے ناکامیابی ہوئی، 

اس کا حاصل یہ ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت صرف آخرت اور دین کے کاموں کے ساتھ مخصوص نہیں دنیا کے سب کی درستی اور کامیابی بھی اسی پر موقوف ہے اس لئے یہ دعاء ایسی ہے کہ مومن کو ہر وقت حرز جان بنانے کے قابل ہے شرط یہ ہے کہ استحضار اور نیت کے ساتھ کی جائے محض الفاظ کا پڑھ لینا نہ ہوواللہ الموفق والمعین ۔


( معارف القرآن ، جلد اول ، سورۃ الفاتحہ ،  مولانا مفتی محمد شفیع ؒ )