مولانا امین احسن اصلاحی ؒ
الۗمّۗ ، ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ و الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ ۤ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃ البقرۃ 1 تا 5)
یہ الف، لام، میم ہے، یہ کتاب الٰہی ہے۔ اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ان لوگوں کے لیے جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور ان کے لیے جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن نے یہ بتانے کے بعد کہ یہ کتاب خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے، ان لوگوں کی طرف اشارہ بھی کردیا ہے، جو اس لفظ کے اس زمانہ میں مصداق بن سکتے تھے۔ یہ اشارہ اس طرح کیا ہے کہ ان کی کچھ نمایاں خصوصیات بیان کردی ہیں۔ ان خصوصیات پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ ان مسلمانوں کی خصوصیات ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے تھے۔ اس سے یہ اشارہ نکلا کہ ان لوگوں کے اندر تقوی اور خشیت کی صفت پہلے سے موجود تھی اس وجہ سے ان کو قرآن سے نفع پہنچا۔ ان کے اندر امی عربوں میں سے جو لوگ شامل ہوئے تھے، یہ وہ لوگ تھے جن کے اندر زمانہ کے عام فساد کے باوجود بہت سی خوبیاں موجود تھیں اور ان کو فطرت کی ہدایت کی جو روشنی ملی تھی اس کو انہوں نے اپنے محفوظ رکھا تھا اسی طرح ان کے اندر اہل کتاب میں سے جو لوگ شامل ہوئے تھے، وہ بھی اپنی اپنی شریعتوں پر اپنے علم کی حد تک نیک نیتی سے عمل کرنے والے تھے اس وجہ سے یہ لوگ مستحق ٹھہرے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی آخری اور کامل ہدایت سے بہرہ ور کرے۔
یہود کی اخلاقی و روحانی بیماریاں :۔
اس تصویر میں مسلمانوں کے جو خط و خال نمایاں کیے گئے ہیں ان پر غور کرنے سے ایک طرف اگر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمان کے اصلی اوصاف کیا ہیں یا کیا ہونے چاہئیں تو دوسری طرف یہی تصویر ان لوگوں کو بھی سامنے لا کھڑا کرتی ہے جو اس کتاب پر ایمان نہیں لائیں گے۔ ساتھ ہی نہایت خوبی کے ساتھ، اشارات و کنایات کے پردے میں، ان کے ایمان نہ لانے کے اسباب کی طرف بھی اشارے کردیتی ہے۔ اشارات و کنایات کے اس پردے کو اٹھائیے تو اس کے نیچے سے یہود بر آمد ہوتے ہیں جن سے اس سورۃ میں، جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں، اصلی بحث ہے۔ اپنی جن اخلاقی و روحانی بیماریوں کے سبب سے یہود، قرآن کی نعمت سے محروم ہوئے ان کو بے نقام کرنے کے لیے قرآن نے یہ بلیغ انداز اختیار کیا کہ مسلمانوں کی ان عملی و اعتقادی خصوصیات کو خاص طور پر نمایاں کیا جن کے بالکل ضد خصوصیات یہود نے اپنے اندر جمع کر رکھی تھیں۔ اور جو قبول حق میں ان کے لیے ایسی رکاوٹ بن گئی تھیں کہ ان پر قابو پانا ان کے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔ ہم قرآن کے ان لطیف اشارات کی یہاں تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ جو لوگ قرآن پر ایمان نہیں لا رہے تھے ان کے ایمان نہ لانے کے اسباب کیا تھے۔
قرآن پر ایمان نہ لانے کے اسباب :۔
سب سے پہلے ’’ ھدی للمتقین‘‘ کے الفاظ پر غور کیجیے۔ یہ بات یہ کہ یہ کتاب متقین ہی کے لیے ہدایت ہے، یہود کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک اہم فیصلہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ گو سالہ پرستی کے واقعہ کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہود سے توبہ کرائی اور ان کو تطہیر و تزکیہ کی بعض سخت آزمائشوں سے گزا را تو اس وقت ان کے لیے انہوں نے یہ دعا بھی فرمائی کہ آئندہ یہ خدا کے غضب سے محفوظ رہیں اور اس کی رحمت سے کبھی محروم نہ ہوں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول تو فرمائی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آئندہ اس کی جو رحمت، آخری شریعت کی شکل میں، نازل ہونے والی ہے اس سے یہود میں سے صرف وہی لوگ بہرہ یاب ہوسکیں گے جو خدا سے ڈرتے رہیں گے، زکوۃ دیتے رہیں گے اور جو باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوں گی ان پر ایمان لائیں گے۔ سورۂ اعراف میں جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تاریخ دعوت کا یہ واقعہ بیان ہوا ہے مندرجہ ذیل آیت بھی آتی ہے۔ اس آیت پر اس کے سیاق و سباق کو پیش نظر رکھ کر غور کیجیے۔
’’ ورحمتی وسعت کل شیئ، فساکتبھا للذین یتقون ویوتون الزکوۃ والذین ھم بآیتنا یومنون۔ الذین یتبعون الرسول النبی الامی الایۃ‘‘ (اعراف : 156-157)
(اور میری رحمت ہر چیز کو حاوی ہے، پس میں اس کو لکھ رکھوں گا ان لوگوں کے لیے جو تقوی پر قائم رہیں گے، زکوۃ دیتے رہیں گے اور ان لوگوں کے لیے جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے۔ یعنی جو رسول نبی امی کی پیروی کریں گے)۔
یہ آیت صاف بتاتی ہے کہ قرآن اور اسلام کی نعمت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے صرف انہی لوگوں سے ملنے والی تھی جو تقوی پر قائم رہنے والے، زکوۃ ادا کرتے رہنے والے اور اللہ کی آیتوں پر ایمان لانے والے تھے۔ پھر آیت کے آخر میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ تھے جو نبی امی کی پیروی کریں۔
بعینہ اسی شرط کو ’’ ھدی للمتقین‘‘ کے الفاظ یہاں یاد دلا رہے ہیں۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ اس شرط پر پورے اترے وہ ایمان لائے اور اسی سے یہ بات بھی نکلی کہ جو لوگ اس کتاب پر ایمان نہیں لائے وہ تقوی اور خشیت کی اس صفت سے عاری تھے جو اس کتاب پر ایمان لانے کے لیے ضروری ہے۔
ٹھیک اسی طرح کی بات اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی فرمائی تھی۔ ان کو مختلف امتحانوں میں جانچنے کے بعد جب قوموں کی امامت کے منصب پر سرفراز فرمانے کا وعدہ فرمایا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ یہ منصب میری ذریت کو بھی حاصل رہے گا یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا ’’ لا ینال عہدی الظالمین‘‘ (بقرہ : 124) (میرا یہ عہد تمہاری ذریت میں سے ان لوگوں کو شامل نہیں ہے جو ظالم ہوں گے)۔ ظالم سے مراد ظاہر ہے کہ وہ لوگ ہیں جو توحید و اخلاص سے عاری اور تقوی و خشیت سے خالی ہوں، خواہ ان کا تعلق حضرت اسماعیل کی نسل سے ہو یا حضرت اسحاق کی نسل سے، ایسے لوگوں کے بارہ میں خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی سے اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح فرما دی تھی کہ جس پیغمبر یا جس پیغمبر کی امت کو دنیا کی امامت ملنے والی ہے ظالم لوگ نہ اس پیغمبر پر ایمان لائیں گے اور نہ اس عزت میں حصہ دار ہوں گے جو اس کو اور اس کی امت کو ملنے والی ہے ۔
’’ یومنون بالغیب‘‘ کے الفاظ یہود کی اس محسوسات پرستی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جس میں وہ ابتدا سے مبتلا رہے ہیں۔ اپنی اسی بیماری کے سبب سے یہود عین اپنے نبی کی موجودگی میں ایک بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے۔ مصر کے دورِ غلامی میں وہ جس ذہنی و روحانی پستی میں مبتلا ہوگئے تھے اس سے آخر وقت تک ان کو نکلنا نصیب نہ ہوا۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہزاروں معجزات دیکھنے کے بعد بھی ان کا اصرار یہی رہا کہ وہ ایک مرتبہ خود اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھ لیں تب وہ اس بات کو مانیں گے کہ فی الواقع وہ حضرت موسیٰ سے کلام بھی کرتا ہے۔ ’’ لن نومن لک حتی نری اللہ جہرۃ‘‘ (بقرہ :55) (ہم تمہاری بات اس وقت تک باور نہیں کریں گے جب تک ہم خود بھی خدا کو کھلم کھلا نہ دیکھ لیں)۔ اسی طرح کی بات مشرکینِ مکہ بھی کہتے تھے۔ ان کا اعتراض بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ تھا کہ اگر اللہ آپ سے کلام کرتا ہے تو آخر ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا ؟ قرآن نے یہ کہہ کر کہ اس کتاب پر وہی لوگ ایمان لائیں گے جو غیب میں رہتے ایمان لائیں، گویا دوسرے الفاظ میں یہ اعلان کردیا کہ جو لوگ خدا کو چھو کر اور ٹٹول کر اور تمام حقائق کا سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کر کے ایمان لانا چاہتے ہیں ان کے لیے قرآن میں کوئی حصہ نہیں ہے، قرآن کا فیض صرف ان معقول لوگوں کو پہنچے گا جو حواس ظاہری سے زیادہ عقل پر بھروسہ کرتے ہیں۔
ایمان لانے والوں کی یہ تعریف کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں، یہود اور ان کے دوسرے ساتھیوں کی اس حال پر تعریض ہے جس کا ذکر قرآن نے دوسری جگہ ان الفاظ میں فرمایا ہے ’’ فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا‘‘ (مریم :59) (پھر ان کے بعد ان کے ایسے جانشین آئے جنہوں نے نماز ضائع کردی اور شہوتوں کے پیچھے پڑگئے تو جلد وہ اپنی گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے)۔ اہل ایمان کے انفاق کے ذکرمیں یہود اور ان کے جتھہ کے دوسرے ساتھیوں کی اس بخالت اور اس زر پرستی پر تعریض ہے جو ہمیشہ سے ضرب المثل رہی ہے۔ قرآن کے زمانۂ نزول میں ان کے عوام تو درکنار ان کے علما اور صوفیا کا جو حال تھا اس کی تصویر قرآن نے ان الفاظ میں کھینچی ہے۔
’’يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ‘‘ (توبہ :34) (اے ایمان والو، بہت سے فقیہ اور صوفی، لوگوں کے مال باطل طریقوں سے ہڑپ کرتے ہیں اور اللہ کے رستہ سے لوگوں کو روکتے ہیں اور جو لوگ سونے اور چاندی کے ڈھیر اکٹھے کر رہے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کر رہے ہیں ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو) ۔
’’ وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ‘‘ الایۃ میں یہود کے اس گروہی تعصب پر تعریض ہے جو ان کے لیے قرآن پر ایمان لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا تھا۔ یہود کو جب دعوت دی جاتی کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی آخری کتاب، قرآن، پر ایمان لاؤ تو وہ کہتے کہ جو کتاب ہم پر اتری ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر ایمان رکھنا ہمارے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد ہم کسی اور کتاب اور قرآن کے قائل نہیں ہیں۔ ’’ وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۗءَهٗ‘‘ (بقرہ :91) (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ اس چیز پر جو اللہ نے اتاری ہے تو کہتے ہیں ہم اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر اتاری گئی ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہے اس کا وہ انکار کرتے ہیں)۔
اہل ایمان کی یہ تعریف کہ ’’ آخرت پر وہی یقین رکھتے ہیں‘‘ آخرت کے بارے میں یہود کی اس بے یقینی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کی شہادت ان کی عملی زندگی کے ہر گوشے سے مل رہی تھی۔ یوں تو وہ آخرت پر نہ صرف ایمان کے مدعی تھے بلکہ ان کا دعوی تو یہ تھا کہ آخرت کی ساری کامیابیاں تنہا انہی کا حصہ ہیں۔ لیکن دوسری طرف زندگی اور اسباب زندگی کی محبت میں اس قدر غرق تھے کہ ان مشرکین کو بھی مات کر گئے تھے جو آخرت کا تصور یا تو سرے سے رکھتے ہی نہیں تھے یا رکھتے تھے تو نہایت مبہم اور دھندلا، مشرکین ہی کی طرح انہوں نے بھی غلط قسم کی شفاعت کا تصور قائم کرلیا تھا اور اس وہم میں مبتلا ہوگئے تھے کہ دوزخ میں اول تو وہ ڈالے ہی نہیں جائیں گے اور اگر ڈالے بھی گئے تو چند دنوں سے زیادہ کے لیے نہیں۔ ظاہر ہے کہ آخرت پر اس طرح کا ایمان ایک بالکل بے معنی ایمان ہے۔ چنانچہ قرآن نے ان کے اس ایمان کی قلعی اس طرح کھولی ہے۔
’’ قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۔ وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ۔ وَلَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰي حَيٰوةٍ ڔ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا‘‘ (بقرہ :94-96) (کہہ دو کہ اگر آخرت کی کامیابی دوسروں کے مقابل میں خاص کر تمہارا ہی حصہ ہے تو موت کی آرزو کرو اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو اور وہ اپنی کرتوتوں کے سبب سے ہرگز موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ تم ان کو زندگی کا سب سے زیادہ حریص پاؤگے، ان سے بھی زیادہ جو مشرک ہیں)۔ اس تفصیل سے واضح ہوا کہ متقین کے ذکر کے بعد ان متقین کی جو تصویر قرآن نے پیش کی ہے اس سے ایک طرف تو وقت کے اہل ایمان سامنے آگئے اور یہ معلوم ہوگیا کہ یہ لوگ تھے جن کے اندر تقوی اور خشیت کی فطری صلاحیتیں موجود تھیں اس وجہ سے ان کو قرآن پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہوئی۔ دوسری طرف اسی تصویر نے یہود اور ان کے حلیفوں کو سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ یہ لوگ ہیں جو خدا کے خوف اور اس خوف کی تمام برکتوں سے خالی ہیں، اس وجہ سے یہ قرآن کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔
ان چند الفاظ کے اندر اتنی لمبی تفصیل کو چھپا دینا اور یہود کا نام لیے بغیر ان کو اس طرح بے نقاب کردینا قرآنی بلاغت کا اعجاز ہے ۔ (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- (تدبر قرآن جلد اول )