مطالعۂ قرآن : سورۃ البقرۃ کی آیات 1 تا 5

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ 


الۗمّۗ ، ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ ۤ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃ البقرۃ 1 تا 5) 

یہ الف، لام، میم ہے، یہ کتاب الٰہی ہے۔ اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ان لوگوں کے لیے جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور ان کے لیے جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند سوالات اور ان کے جوابات :۔

ان آیات پر جو شخص بھی تدبر کی نگاہ ڈالے گا اس کے ذہن میں چند سوالات ضرور پیدا ہوں گے۔

 ایک یہ کہ یہاں قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کا دعویٰ محض ایک دعوے کی شکل میں رکھ دیا گیا ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں دی گئی ہے۔ حالانکہ جب یہی بات اس سورۃ کا عمود ہے تو اس کو صرف ایک دعوے کی شکل میں رکھ دینا کافی نہیں تھا، بلکہ نہایت مضبوط دلائل سے اس کو ثابت کرنا تھا۔

دوسرا یہ کہ اس کتاب کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ یہ متقیوں اور پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ اگر یہ کتاب متقیوں ہی کے لیے ہدایت ہے تو پھر اس کے اترنے کا فائدہ کیا ہوا ؟ ضرورت تو تھی کہ اس کی برکت سے جو بدکار تھے وہ پرہیز گار اور جو گنہگار تھے وہ نیکو کار بنتے لیکن جب بیماروں کو شفا دینے کے بجائے یہ تندرستوں ہی کو تندرست بنانے آئی ہے تو اس کا نازل ہونا تو تحصیل حاصل ہی رہا۔

 تیسرا یہ کہ متقین کی پہلی تعریف یہ کی گئی ہے کہ وہ ایمان بالغیب لاتے ہیں۔ ایمان بالغیب کے متعلق عام خیال تو یہ ہے کہ یہ محض عامیانہ تقلید یا وہمی پن یا خوش عقیدگی سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ قرآن اپنی تاثیر کا جوہر صرف انہی پر دکھا سکتا ہے جو وہمی اور خوش عقیدہ قسم کے لوگ ہوں، سوچنے سمجھنے اور غور و فکر سے کام لینے والوں پر اس کا بیان یا استدلال کارگر نہیں ہوسکتا۔ 

چوتھا یہ کہ یہاں متقین کی چند صفات بھی گنائی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ ایمان بالغیب لاتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے ہیں، وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، وہ خدا کی اتاری ہوئی ہر کتاب پر ایمان لاتے ہیں، وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ یہ سارے کام کر رہے ہیں تو اس کے بعد وہ کون سی ہدایت ہے جس کے یہ محتاج رہ جاتے ہیں اور جو یہ کتاب فراہم کرتی ہے ؟ کیا ہدایت ان چیزوں سے بالا تر کسی چیز کا نام ہے جس کا ان سارے کاموں کے کرنے کے بعد بھی آدمی محتاج ہی رہ جاتا ہے ؟

 پانچواں سوال یہ ہے کہ یہاں ایمان کے بعد عملی نیکیوں میں سے صرف دو ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک نماز کا، دوسری انفاق کا، آخر ان کی اہمیت کا وہ کیا خاص پہلو ہے جس کی وجہ سے ان کا ذکر کیا گیا ہے اور دوسری کسی نیکی کا ذکر نہیں کیا گیا ؟ سوالات تو بعض اور بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کا جواب تھوڑے سے غور و فکر سے ہر شخص خود معلوم کرسکتا ہے اس وجہ سے ہم ان کو نظر انداز کرتے ہیں۔ البتہ مذکورہ سوالات خاصی اہمیت رکھتے ہیں اس وجہ سے ہم ترتیب کے ساتھ ان کے جواب دینے کی کوشش کریں گے ۔

جوابات : 

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن کے مخالفین اگر قرآن کا انکار کر رہے تھے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ قرآن کا کتاب اللہ ہونا ان پر واضح نہیں تھا، کم از کم سورۂ بقرہ کے زمانہ نزول یعنی اوائل ہجرت میں تو اس کتاب کا کتابِ الٰہی ہونا اہل کتاب اور مشرکین سب پر واضح ہوچکا تھا۔ قبولِ حق میں جو چیز مانع تھی وہ یہ نہیں تھی کہ حق اچھی طرح واضح نہیں تھا بلکہ یہ تھی کہ قبول حق کے لیے طبیعتوں میں جس صلاحیت کی ضرورت ہے وہ ان کے اندر موجود نہیں تھی۔ ایسی صورت میں ثابت کرنے کی بات یہ نہیں تھی کہ یہ کتابِ الٰہی ہے اور اس کے کتاب الٰہی ہونے کی یہ یہ دلیلیں ہیں بلکہ کہنے کی بات یہی تھی کہ یہ کتاب الٰہی ہے، اس کے کتابِ الٰہی ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے طبیعتوں میں صلاحیت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ قرآن نے یہی کیا ہے۔ یہاں ’’ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ کہہ کر اس نے اس شرط کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس کتاب پر ایمان لانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ شرط ہے تقوی اور خدا ترسی۔ گویا قرآن یہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دے رہا ہے کہ نہ قرآن کا کتابِ الٰہی ہونا محتاج ثبوت ہے اور نہ تمہارا فرستادۂ الٰہی ہونا۔ یہ بالکل واضح حقیقتیں ہیں لیکن ان حقیقتوں کی وضاحت ان لوگوں کو کیا نفع پہنچا سکتی ہے جن کے سینے خوفِ خدا سے خالی ہیں، جن کی آنکھوں پر محسوسات کی پیٹیاں بندھی ہوئی ہیں، جو فطرت کی بنیادی نیکیوں کو بھی ختم کرچکے ہیں اور جن کو تعصب نے بالکل اندھا بہرا بنا دیا ہے۔ 

علاوہ بریں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس سورۃ میں اصلی خطاب، جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں، یہود سے ہے۔ یہود آخری کتاب اور آخری رسول سے نا آشنا نہیں تھے۔ توریت کی کتاب تثنیہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان کے بھائیوں کے اندر سے ان کے لیے ایک نبی بھیجے گا، اس کے منہ میں اپنا کلام دالے گا، اس کے ذریعہ سے شریعت کو کامل کرے گا، اس کے واسطہ سے ان کے دشمنوں سے انتقام لے گا، جو اس کی بات نہ سنیں گے وہ ان کو سزا دے گا، وہ خدا کے نام سے کلام کرے گا، اس کی پیشین گوئیاں سچی ہوں گی اور وہ اس وقت تک دنیا میں رہے گا جب تک اللہ کا کلمہ بلند نہ ہوجائے۔

 یہود ان ساری باتوں سے اچھی طرح باخبر بھی تھے اور ان میں سے ایک ایک بات کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور آپ کی زندگی کے حالات نے ثبوت بھی فراہم کردیا تھا۔ بالخصوص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد تو وہ تمام آثار بالکل سامنے آچکے تھے، جن کو دیکھ لینے کے بعد یہود کو یقین ہوچکا تھا کہ توریت کی اس پیشین گوئی کے مصداق در حقیقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں۔ پھر یہود اس پیشین گوئی ہی کی بنا پر ایک نبی اور کتاب کے منتظر بھی تھے۔ ایسے حالات کے اندر ’’ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ‘‘ کا دعوی محض دعوی نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ گویا انگلی اٹھا کر اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ وہی موعود کتاب ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، جس کے تم منتظر رہے ہو اور جو ان تمام باتوں کی تصدیق کر رہی ہے جو اس کے بارے میں تمہیں پہلے بتائی جاچکی ہیں۔

 اس پس منظر کو سامنے رکھ کر معاملہ پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہاں اس دعوے پر دلیل کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہود اپنے تعصب، اپنی ضد اور اپنے حسد سے باز آئیں اور اس کتاب کو جس کے لیے وہ مدت ہائے دراز سے چشم براہ تھے ہاتھوں ہاتھ لیں اور اس کی برکتوں اور رحمتوں کا تجربہ کریں۔ 

دوسرے سوال کا جواب اگرچہ پہلے سوال کے جواب کے ذیل میں ایک حد تک آچکا ہے لیکن ہم اس کے مزید وضاحت کیے دیتے ہیں تاکہ اس کے وہ پہلے بھی سامنے آجائیں جو نہیں آسکے ہیں۔ انسان پر کسی چیز کے اثر انداز ہونے کے لیے تنہا یہی بات کافی نہیں ہے کہ وہ چیز بجائے خود مؤثر ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے اندر اثر پذیری کی صلاحیت بھی موجود ہو۔ سورج لاکھ چمکے لیکن ایک شخص اندھا ہو تو سورج کے چمکنے سے اس کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ چمن میں بلبل ہزار چہکے لیکن اگر ایک شخص بہرا ہے تو وہ اس کے چہکنے سے کیا لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح قرآن کا نور ہونا، بصیرت ہونا، سر چشمہ ہدایت ہونا مسلم، لیکن اگر ایک شخص نے اپنی وہ صلاحیت ہی ضائع کردی ہے جو اس نور اور اس سرچشمۂ ہدایت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے تو آخر قرآن کیا کرے گا۔ قرآن نے جگہ فرمایا ہے کہ ’’ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰى‘‘ (نازعات :26) (اس میں خدا سے ڈرنے والوں کے لیے درس عبرت ہے)۔ ’’ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ‘‘ (ق :37) (بے شک اس کے اندر یاد دہانی ہے اس کے لیے جس کے پاس بیدار دل ہو یا وہ پوری طرح متوجہ ہو کر بات سنے )۔ 

یہ انسان کی اسی فطری صلاحیت کی طرف اشارہ ہے جو قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ اسی چیز کو یہاں تقوی کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس تقوی کے کئی درجے ہیں۔ ایک تو وہ تقوی ہے جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہے، جس کی طرف قرآن نے ’’ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا‘‘ کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے۔ یہ تقوی نیکی کی ہر بات اور بھلائی کی ہر دعوت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک شرط ضروری ہے۔ جس نے اپنے اندر سے یہ تقوی ضائع کردیا گویا وہ اس معقولیت ہی سے خالی ہو بیٹھا جو اس کو نیکی اور بھلائی کی طرف راغب کرسکتی تھی۔ یہ تقوی جس طرح انسانیت اور شرافت کے سارے ہی کاموں پر آمادہ کرنے کے لیے ضروری ہے اسی طرح قرآن کی دعوت کی طرف مائل کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ قرآن چیز ہی ایسی ہے کہ اس کی طرف بے فکرے اور اوباش قسم کے لوگ متوجہ نہیں ہوسکتے تھے۔ وہی لوگ متوجہ ہوسکتے تھے جن کے اندر نیکی اور شرافت کو جوہر موجود ہو۔ چناچہ تاریخ کی شہادت بھی یہی ہے کہ قرآن کی دعوت نے عربوں میں سے ان لوگوں کو اپیل کیا جو سنجیدہ اور معقول تھے اور اہل کتاب میں سے ان لوگوں کو جذب کیا جو متقی اور خدا ترس تھے۔

دوسرا تقوی وہ ہے جو قرآن کی پیروی کے نتیجہ اور ثمرہ کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بھی کئی درجے ہیں، لیکن یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ یہاں ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ’’ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ میں تو اس تقوی کی طرف اشارہ ہے جو قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک شرط ضروری ہے، لیکن اس کے بعد ’’ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ‘‘ سے لے کر ’’ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْن‘‘ تک ان متقین کی جو صفتیں بیان ہوئی ہیں وہ اس تقوی کا نتیجہ ہیں جو قرآن کی پیروی سے پیدا ہوا ہے۔

تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ایمان بالغیب ضعیف الاعتقادی یا وہمی پن کا ثبوت نہیں فراہم کر رہا ہے بلکہ انسان کے عقلی اور روحانی ہستی ہونے کا ثبوت فراہم کر رہا ہے اور قرآن نے اسی پہلو سے اس چیز کا یہاں ذکر کیا بھی ہے۔ ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی تمام تگ و دو بس محسوسات ہی تک محدود ہوتی ہے، اس سے آگے کے لیے نہ ان کے اندر کوئی رغبت ہی ہوتی ہے اور نہ وہ اس سے آگے جانے کی کوئی کوشش ہی کرتے ہیں وہ اپنی عقل کو بھی، جو بلند پروازی کی فطری صلاحیتیں رکھتی ہے، اور جس کا اصلی میدان محسوسات نہیں بلکہ ماورائے محسوسات ہے، انہی محسوسات کے اندر قید کر چھوڑتے ہیں کہ اس کو جتنا زور لگانا ہو انہی کے اندر لگائے، اس سے باہر نکلنے کو وہ بالکل باد پیمائی اور ہرزہ سرائی خیال کرتے ہیں۔

دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے نزدیک حقیقی قدر و قیمت محسوسات و مادیات کی نہیں بلکہ عقل اور اس کے اداراکات کی ہے، وہ عقل ہی کو انسانیت کا خاصہ اور اس کا جوہر سمجھتے ہیں، اسی چیز کو وہ انسان اور حیوان کے درمیان فرق کرنے والی مانتے ہیں اور ان کے دل کی حقیقی خوشی محسوسات کی فانی لذتوں میں نہیں بلکہ عقل کی ان روحانی فتوحات ہی میں ہوتی ہے۔ قرآن نے اسی گروہ کی طرف یہاں ’’يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ‘‘ کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے۔ اس کے نزدیک یہی گروہ ہے جو اس کی بلندیوں کا ساتھ دے سکتا ہے۔ پہلے گروہ کو تو اس نے چوپایوں سے تشبیہ دی ہے بلکہ ان کو چوپایوں سے بھی بد تر قرار دیا ہے۔ فرمایا ہے ’’ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ ۭ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًا‘‘ (فرقان :44) یعنی جب وہ اپنی عقل جیسی اعلی چیز کو بھی محسوسات ہی کی چاکری میں لگائے ہوئے ہیں تو نہ ان کا سننا سننا ہے اور نہ ان کا سمجھنا سمجھنا۔ یہ تو وہ بے وقوف لوگ ہیں جو ایک تیغ جوہر دار سے وہ کام لے رہے ہیں جوگھاس کاٹنے کی درانتی سے لیا جاتا ہے۔

پس غیب میں رہتے ہوئے ایمان لانے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ محض محسوسات کے غلام اور مادیات کے پرستار نہیں ہیں بلکہ وہ عقل کی رہنمائی میں چلتے ہیں اور جو باتیں عقل سے ثابت ہیں یا فطرت جن کی شہادت دیتی ہے ان کو وہ تسلیم کرتے ہیں اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی جن محسوس اور مادی راحتوں اور لذتوں کو قربان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ان کو بے دریغ قربان کردیتے ہیں ۔

چوتھے سوال کا جواب اگرچہ دوسرے سوال کے جواب کے ضمن میں ایک حد تک آگیا ہے لیکن ہم اس کو بھی مزید واضح کیے دیتے ہیں۔

 پہلی بات تو یہ ملحوظ رکھنے کی ہے کہ متقین کے بعد متقین کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان کی حیثیت توضیحی صفات کی ہے۔ یعنی اس لفظ کے جو مصداق اس زمانہ میں قرآن کے سامنے تھے قرآن نے بطور مثال ان کی طرف انگلی اٹھا دی ہے کہ یہ لوگ ہیں جن کے اندر تقوی موجود تھا، چناچہ دیکھ لو، انہوں نے مجھ سے فائدہ اٹھایا۔ ان صفات کو آپ اس معنی میں نہ لیں کہ یہ سب قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ابتدائی شرائط کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ ان کی حیثیت قرآن کی پیروی کے ثمرات و برکات کی ہے۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو قرآن نے "ھدی" کہا ہے، جس کی وضاحت ہم تفصیل سے اس کے مقام میں کرچکے ہیں، وہ بہرحال ظاہری اعمال و عقائد سے ایک بالا تر حقیقت ہے۔ اعمال و عقائد یا تو اس ہدی کے ثمرات و برکات ہیں یا اس کے حصول کے اسباب و ذرائع، وہ بعینہ ہدی نہیں ہیں۔ اعمال و عقائد میں آدمی کا اہتمام و انہماک جتنا بڑھتا جائے گا اتنا ہی اس کے لیے "ھدی" میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ چنانچہ فرمایا ہے "والذین اھتدوا زادھم ھدی" (محمد : 17) (جو ہدایت کی راہ اختیار کرتے ہیں، خدا ان کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے) ۔

آخری سوال کے جواب میں گزارش ہے کہ قرآن کے تدبر سے یہ بات صاف واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں بنیادی نیکیوں کی حیثیت نماز اور زکوۃ کو حاصل ہے۔ دوسری نیکیاں انہی دو بڑی نیکیوں کے تحت ہیں، بلکہ انہی سے پیدا ہوتی ہیں، چناچہ قرآن کے بے شمار مقامات میں ان دونوں کا ذکر اس طرح آیا ہے کہ ان کا ذکر آگیا تو گویا سب کا ذکر آگیا۔ مثلاً " فان تابوا واقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فاخوانکم فی الدین" (توبہ :11) (پس اگر وہ توبہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی بن گئے)۔ حضرت اسماعیل کی تعریف میں فرمایا ہے، "کان یامر اھلہ بالصلوۃ والزکوۃ وکان عند ربہ مرضیا" (مریم :55) (اور وہ اپنے کنبے کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھا)۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی منقول ہے، "واوصانی بالصلوۃ والزکوۃ ما دمت حیا" (مریم :31) (اور اس نے مجھے نماز اور روزہ کی ہدایت کی جب جیوں)۔

مذکورہ بالا آیات میں اگرچہ ذکر نماز اور زکوۃ ہی کا ہے لیکن ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ صرف یہی دو چیزیں مراد نہیں ہیں بلکہ دوسری نیکیاں بھی مراد ہیں لیکن ان ساری نیکیوں کی جڑ چونکہ یہی دونوں چیزیں ہیں تو جب جڑ کا ذکر آگیا تو شاخوں کا ذکر خود بخود ہوگیا۔

 ان دونوں چیزوں کی حقیقت پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ فی الواقع دین میں ان کی حیثیت ہونی بھی یہی چاہیے۔ ایک آدمی کے اللہ تعالیٰ کا ٹھیک بندہ بن جانے کے لیے آخر کس چیز کی ضرورت ہے ؟ اسی چیز کی کہ ایک طرف وہ اپنے رب سے ٹھیک ٹھیک جڑ جائے اور دوسری طرف خلق سے اس کا تعلق صحیح بنیاد پر قائم ہوجائے ؟ نماز انسان کو خدا سے صحیح طور پر جوڑ دیتی ہے اور انفاق سے خلق کے ساتھ اس کا تعلق بالکل صحیح بنیاد پر استوار ہوجاتا ہے۔ ایک شخص اگر اپنے رب کے حقوق ادا کرتا ہے اور خلق کے حقوق پہچانتا ہے تو وہ تمام نیکیوں کی کلید پا گیا۔ انہی دو کی مدد سے وہ دوسری ساری نیکیوں کے دروازے بھی کھول لے گا اور سب کا اختیار کرلینا اس کے لیے سہل ہوجائے گا۔ اسی سے ملتی جلتی بات حضرت مسیح نے بھی فرمائی ہے۔ انجیل متی 22۔35-40 میں ہے ۔

"اور ان میں سے ایک عالم شرع نے آزمانے کے لیے اس سے پوچھا اے استاد، توریت میں کون سا حکم بڑا ہے ؟ اس نے اس سے کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ، بڑا اور پہلا حکم یہی ہے اور دوسرا اس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے"۔

حضرت مسیح (علیہ السلام) کے اس ارشاد سے صاف واضح ہے کہ انہی دونوں نیکیوں پر تمام دین و شریعت کا مدار ہے اور ان کا بنیادی نیکیاں ہونا صرف قرآن ہی سے واضح نہیں ہوتا بلکہ تورات، انجیل اور تمام انبیاء کے صحیفوں میں ان کی یہی حیثیت ہے ۔ (1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1- (تدبر قرآن،  جلد اول ص 100-105، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ )