جہنم کے کنارے کھڑا ہوا دوست۔۔۔۔۔۔۔

آپ کبھی قرآن کھول کر دیکھیں… یہ محض احکامات کی کتاب نہیں، یہ ایک زندہ اسکرین ہے۔ آپ پڑھتے ہیں اور منظر چلنے لگتا ہے۔ آوازیں سنائی دیتی ہیں، کردار سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں، اور انسان محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ کسی کہانی کا حصہ نہیں بلکہ ایک حقیقی دنیا میں داخل ہو گیا ہے۔ سورۃ الصافات کی آیات 51 - 61 میں ایک ایسا ہی منظر ہے— ایسا منظر جسے پڑھ کر آدمی لمحہ بھر کے لیے خاموش ہو جاتا ہے۔
جنت کا ایک رہائشی اپنے ساتھیوں سے باتیں کرتے ہوئے اچانک کسی پرانی یاد میں گم ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
"میرا ایک دوست تھا… جو مجھے کہا کرتا تھا: کیا واقعی تم یقین کرتے ہو؟ کیا مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے؟"
یہ آواز کتنی مانوس ہے! آج ہمارے اردگرد بھی بے شمار لوگ اسی لہجے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ آخرت کا ذکر سن کر ہنستے ہیں، ایمان کو پرانی کہانیوں کا حصہ سمجھتے ہیں، اور مرنے کے بعد کی زندگی کو خیالِ خام قرار دیتے ہیں۔
پھر جنتی ایک حیران کر دینے والی بات کرتا ہے:
"کیا تم جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو؟"
اور جب وہ جھانکتا ہے تو دیکھتا ہے کہ دنیا میں اسے ایمان سے روکنے والا وہی دوست آج جہنم کے عین درمیان کھڑا تڑپ رہا ہے۔
یہ کیسا لمحہ ہوگا؟
جسم تو جنت میں ہے مگر آنکھ جہنم کا وہ منظر دیکھ رہی ہے جس کا تصور بھی دل کو لرزا دیتا ہے۔
جنتی بے اختیار کہہ اٹھتا ہے:
"اللہ کی قسم! تم تو مجھے بھی تباہ کر دینے والا تھا… اگر میرے رب کا فضل نہ ہوتا تو میں بھی آج اسی انجام کا شکار ہوتا!"
یہ جملہ پڑھ کر انسان سوچتا ہے… دنیا میں کون کسے کہاں لے جا رہا ہے؟ ہماری مجلسیں، ہماری ترجیحات، ہماری باتیں—کیا ہمیں اوپر لے جا رہی ہیں یا نیچے دھکیل رہی ہیں؟ کون ہمیں اٹھا رہا ہے اور کون گرا رہا ہے؟
پھر قرآن جنت کا وہ پُرسکون منظر دکھاتا ہے جو ہر انسان کے دل کی آرزو ہے۔ جنتی مسکرا کر کہتا ہے:
"کیا اب ہمیں مرنا نہیں؟ کیا اب ہم پر کوئی عذاب نہیں؟"
یہ جملے نہیں، یہ وہ سکون ہیں جس کے لیے انسان زندگی بھر بھاگتا ہے لیکن کبھی پا نہیں سکتا۔
اور آخر میں قرآن اعلان کرتا ہے:
"یہی ہے اصل اور بڑی کامیابی!"
دنیا کی ساری کامیابیاں، ساری فتحیں، ساری جیتیں… اس ایک کامیابی کے سامنے بیکار ہیں۔
قرآن کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ یہ ہمیں اگلے جہان کی زندگی محض بتاتا نہیں، دکھاتا ہے۔
دنیا کی زندگی میں ہی آخرت کے وہ مناظر ہمارے سامنے یوں کھول دیتا ہے جیسے ہم کسی کھڑکی سے جھانک کر دیکھ رہے ہوں۔


سورۃ الصافات — آیات 51 تا 61

﴿51﴾ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ
ترجمہ: پھر وہ (جنتی) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر سوال کریں گے۔

﴿52﴾ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ
ترجمہ: ان میں سے ایک کہے گا: ’’میرا ایک ساتھی تھا۔‘‘

﴿53﴾ يَقُولُ أَئِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَ
ترجمہ: جو کہا کرتا تھا: ’’کیا تم بھی یقین کرنے والوں میں سے ہو؟‘‘

﴿54﴾ أَءِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَئِنَّا لَمَدِينُونَ
ترجمہ: ’’کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے، تو کیا ہم (قبضۂ قدرت میں) واپس لائے جائیں گے؟‘‘

﴿55﴾ قَالَ هَلْ أَنتُم مُّطَّلِعُونَ
ترجمہ: وہ (جنتی) کہے گا: ’’کیا تم جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘

﴿56﴾ فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ
ترجمہ: پھر وہ جھانکے گا تو اسے جہنم کے درمیان میں دیکھے گا۔

﴿57﴾ قَالَ تَاللَّهِ إِن كِدتَّ لَتُرْدِينِ
ترجمہ: وہ کہے گا: ’’اللہ کی قسم! تو تو مجھے بھی ہلاکت میں ڈالنے والا تھا۔‘‘

﴿58﴾ وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ
ترجمہ: ’’اگر میرے رب کا فضل نہ ہوتا تو میں بھی حاضر کیے جانے والوں (یعنی جہنمیوں) میں شامل ہوتا۔‘‘

﴿59﴾ أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ
ترجمہ: (جنتی خوشی سے کہیں گے:) ’’کیا اب ہمیں مرنا نہیں؟‘‘

﴿60﴾ إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ
ترجمہ: ’’سوائے اپنی پہلی موت کے، اور اب ہم ہرگز عذاب نہیں دیے جائیں گے۔‘‘

﴿61﴾ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
ترجمہ: ’’بے شک یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘