امتِ مسلمہ کی تاریخ پر اگر تدبر کی نظر ڈالی جائے تو ہمیں ایک عجیب مگر سبق آموز حقیقت سامنے آتی ہے۔ ہر دور میں دین کی خدمت کے نام پر مختلف تحریکیں، جماعتیں، ادارے اور افراد نمودار ہوئے۔ ہر ایک نے اپنی تعبیر، اپنا زاویہ نظر، اور اپنا راستہ چنا۔ کچھ نے سچائی کے کچھ گوشے پالئے، کچھ نے اخلاص سے سفر کا آغاز کیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ تحریکیں تاریخ کی دھول میں دفن ہوگئیں، کچھ کے صرف نام رہ گئے، اور کچھ حقیقتاً تاریخ کی نفع بخش وراثت بن گئیں۔ سوال یہ ہے: کیا قرآن نے حق و باطل کی پہچان اور ان کی تاریخی حیثیت کے بارے میں کوئی اصول بیان کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ سورہ رعد میں ایک نہایت پراثر تمثیل کے ذریعے حق و باطل کے فرق کو واضح کرتا ہے:
"فَأَمَّا ٱلزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَآءًۭ ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ ٱللَّهُ ٱلْأَمْثَـٰلَ" (الرعد: 17)
"جو جھاگ ہے وہ تو زائل ہو جاتا ہے، اور جو لوگوں کو نفع دیتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے۔ اسی طرح اللہ مثالیں بیان کرتا ہے۔"
یہ آیت محض ایک فطری مشاہدہ نہیں بلکہ ایک الہیٰ قانون بیان کرتی ہے:
باطل عارضی ہوتا ہے، وہ جھاگ کی طرح ابھرتا ہے، مگر جلدی ہی مٹ جاتا ہے۔
اگر آج کی امت مسلمہ پر اس قرآنی اصول کو لاگو کریں تو ہمیں ایک گہری فکری غربت اور گروہی تفاخر کا منظرنامہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر فرقہ، ہر جماعت، ہر ادارہ اپنے آپ کو حق سمجھتا ہے۔ ہر ایک کے پاس دلائل، نصوص اور روایات ہیں۔
مگر سوال یہ نہیں کہ کون بلند آواز میں دعویٰ کر رہا ہے، بلکہ سوال یہ ہے:
کیا وہ چیز، وہ تعبیر، وہ تحریک، فی الواقع لوگوں کے لیے نفع بخش ہے؟
قرآن کی تمثیل ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تاریخ بذاتِ خود ایک ترازو ہے۔ وہی تحریکیں، شخصیات اور ادارے تاریخ میں باقی رہتے ہیں:
جنہوں نے اخلاص، عدل، علم اور رحمت کے ساتھ امت کی رہنمائی کی،
جنہوں نے فرقہ واریت کو ہوا دینے کے بجائے وحدت کو فروغ دیا،
جنہوں نے نصوص کو اپنے نفس کی تابع نہیں بنایا بلکہ قرآن کی ہدایت کو معیار بنایا۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ:
کچھ دینی تحریکیں ایسے نظریات پر کھڑی ہوئیں جنہوں نے ابتدا میں جوش پیدا کیا، مگر چونکہ وہ انسانی نفع کی بجائے گروہی شناخت پر مبنی تھیں، اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ زائل ہوگئیں۔
کچھ ادارے ایسے ہیں جنہوں نے علم، تعلیم، فلاح، اور انسانی خدمت کو بنیاد بنایا، ان کی جڑیں آج بھی گہری ہیں۔
کچھ صرف نعروں اور فتووں کی بنیاد پر زندہ ہیں، مگر ان کے دائرہ اثر میں نہ فکری گہرائی ہے نہ عملی نفع۔
قرآن کے مطابق، باطل ہمیشہ جھاگ کی طرح ہوتا ہے:
عارضی ابھار، وقتی جوش، مگر آخرکار فنا۔
وہ جو نہ خود نفع دے نہ کسی کو فائدہ پہنچائے۔
قرآن کا معیار یہ ہے:
جو لوگوں کے لیے نفع مند ہو، وہی حق ہے۔
چاہے وہ کم ہو، خاموش ہو، گمنام ہو — اگر وہ دلوں کو جوڑتا ہے، علم کو بڑھاتا ہے، عدل قائم کرتا ہے، اور نفوس کو پاک کرتا ہے، تو وہی باقی رہے گا۔
امت کے لیے سب سے بڑا فکری امتحان یہ ہے کہ وہ حق اور باطل کی شناخت قرآن کے معیار پر کرے نہ کہ صرف ناموں، تنظیموں یا شخصیات کے حوالوں سے۔
جو تحریک یا ادارہ نفعِ عام، وحدتِ امت، علم و حکمت، اور روحانی تزکیہ پر قائم ہو، وہی حق کی علامت ہے، وہی باقی رہے گا۔ کیا ہم اپنے اداروں، جماعتوں، اور دینی تعبیرات کو اس قرآنی پیمانے پر تولنے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم صرف اپنی وابستگیوں کے اسیر بنے رہیں گے؟