سورة الْمَآىِٕدَة : زمانہ نزول، شان نزول اور مباحث - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام : اس سورۃ کا نام پندرھویں رکوع کی آیت ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآ ئِدَۃً مِّنَ الَّمَآءِ کے لفظ ”مائدہ“ سے ماخوذ ہے۔ قرآن کی بیشتر سورتوں کے ناموں کی طرح اس نام کو بھی سورۃ کے موضوع سے کوئی خاص تعلق نہیں، محض دوسری سورتوں سے ممیز کرنے کے لیے اسے علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ 

زمانہ نزول :


سورۃ کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ اور روایات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے بعد سن ٦ ہجری کے اواخر یا سن ٧ ہجری کے اوائل میں نازل ہوئی ہے۔ ذی القعدہ سن ٦ ہجری کا واقعہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے۔ مگر کفار قریش نے عداوت کے جوش میں عرب کی قدیم ترین مذہبی روایات کے خلاف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عمرہ نہ کرنے دیا اور بڑی رد و کد کے بعد یہ بات قبول کی کہ آئندہ سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیارت کے لیے آ سکتے ہیں۔ اس موقع پر ضرورت پیش آئی کہ مسلمانوں کو ایک طرف تو زیارت کعبہ کے لیے سفر کے آداب بتائے جائیں تاکہ آئندہ سال عمرے کا سفر پوری اسلامی شان کے ساتھ ہو سکے، اور دوسری طرف انہیں تاکید کی جائے کہ دشمن کافروں نے ان کو عمرہ سے روک کر جو زیادتی کی ہے اس کے جواب میں وہ خود کوئی ناروا زیادتی نہ کریں، اس لیے کہ بہت سے کافر قبیلوں کے حج کا راستہ اسلامی مقبوضات سے گزرتا تھا اور مسلمانوں کے لیے یہ ممکن تھا کہ جس طرح انہیں زیارت کعبہ سے روکا گیا ہے اسی طرح وہ بھی ان کو روک دیں۔ یہی تقریب ہے اس تمہیدی تقریر کی جس سے اس سورۃ کا آغاز ہوا ہے۔ آگے چل کر تیرھویں رکوع میں پھر اسی مسئلہ کو چھیڑا گیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے رکوع سے چودھویں رکوع تک ایک ہی سلسلہ تقریر چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے مضامین اس سورۃ میں ہم کو ملتے ہیں وہ بھی سب کے سب اسی دور کے معلوم ہوتے ہیں ۔


بیان کے تسلسل سے غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ پوری سورۃ ایک ہی خطبہ پر مشتمل ہے جو بیک وقت نازل ہوا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ متفرق طور پر اس کی بعض آیتیں بعد میں نازل ہوئی ہوں اور مضمون کی مناسبت سے ان کو اس سورۃ میں مختلف مقامات پر پیوست کردیا گیا ہو، لیکن سلسلہ بیان میں کہیں کوئی خفیف سا خلا بھی محسوس نہیں ہوتا جس سے یہ قیاس کیا جا سکے کہ یہ سورۃ دو یا تین خطبوں کا مجموعہ ہے۔

شان نزول :


سورہ آل عمران اور سورۃ نساء کے زمانہ نزول سے اس سورۃ کے نزول تک پہنچتے پہنچے حالات میں بہت بڑا تغیر واقع ہوچکا تھا۔ یا تو وہ وقت تھا کہ جنگ احد کے صدمہ نے مسلمانوں کے لیے مدینہ کے قریبی ماحول کو بھی پر خطر بنا دیا تھا، یا اب یہ وقت آگیا کہ عرب میں اسلام ایک ناقابل شکست طاقت نظر آنے لگا اور اسلامی ریاست ایک طرف نجد تک، دوسری طرف حدود شام تک، تیسری طرف ساحل بحر احمر تک اور چوتھی طرف مکہ کے قریب تک پھیل گئی۔ احد میں جو زخم مسلمانوں نے کھایا تھا وہ ان کی ہمتیں توڑنے کے بجائے ان کے عزم کے لیے ایک اور تازیانہ ثابت ہوا۔ وہ زخمی شیر کی طرح ب پھر کر اٹھے اور تین سال کی مدت میں انہوں نے نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ ان کی مسلسل جدوجہد اور سرفروشیوں کا ثمرہ یہ تھا کہ مدینہ کے چاروں طرف ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو سو میل تک تمام مخالف قبائل کا زور ٹوٹ گیا۔ مدینہ پر جو یہودی خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا تھا اس کا ہمیشہ کے لیے استیصال ہوگیا اور حجاز میں دوسرے مقامات پر بھی جہاں جہاں یہودی آباد تھے، سب مدینہ کی حکومت کے باج گزار بن گئے۔ اسلام کو دبانے کے لیے قریش نے آخری کوشش غزوہ خندق کے موقع پر کی اور اس میں وہ سخت ناکام ہوئے۔ اس کے بعد اہل عرب کو اس امر میں کچھ شک نہیں رہا کہ اسلام کی یہ تحریک اب کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتی۔ اب اسلام محض ایک عقیدہ و مسلک ہی نہ تھا جس کی حکمرانی صرف دلوں اور دماغوں تک محدود ہو، بلکہ وہ ایک ریاست بھی تھا جس کی حکمرانی عملًا اپنے حدود میں رہنے والے تمام لوگوں کی زندگی پر محیط تھی۔ اب مسلمان اس طاقت کے مالک ہوچکے تھے کہ جس مسلک پر وہ ایمان لائے تھے، بےروک ٹوک اس کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اور اس کے سوا کسی دوسرے عقیدہ و مسلک یا قانون کو اپنے دائرہ حیات میں دخل انداز نہ ہو نے دیں ۔


پھر ان چند برسوں میں اسلامی اصول اور نقطہ نظر کے مطابق مسلمانوں کی اپنی ایک مستقل تہذیب بن چکی تھی جو زندگی کی تمام تفصیلات میں دوسروں سے الگ اپنی ایک امتیازی شان رکھتی تھی۔ اخلاق، معاشرت، تمدن، ہر چیز میں اب مسلمان غیر مسلموں سے بالکل ممیز تھے۔ تمام اسلامی مقبوضات میں مساجد اور نماز باجماعت کا نظم قائم ہوگیا تھا۔ ہر بستی اور ہر قبیلے میں امام مقرر تھے۔ اسلامی قوانین دیوانی و فوجداری بڑی حد تک تفصیل کے ساتھ بن چکے تھے اور اپنی عدالتوں کے ذریعہ سے نافذ کیے جا رہے تھے۔ لین دین اور خرید و فروخت کے پرانے معاملات بند اور نئے اصلاح شدہ طریقے رائج ہوچکے تھے۔ وراثت کا مستقل ضابطہ بن گیا تھا۔ نکاح اور طلاق کے قوانین، پردہ شرعی اور استیذان کے احکام، اور زنا و قذف کی سزائیں جاری ہونے سے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی ایک خاص سانچے میں ڈھل گئی تھی۔ مسلمانوں کی نشست و برخاست، بول چال، کھانے پینے، وضع قطع اور رہنے سہنے کے طریقے تک اپنی ایک مستقل شکل اختیار کرچکے تھے۔ اسلامی زندگی کی ایسی مکمل صورت گری ہوجانے بعد غیر مسلم دنیا اس طرف سے قطعی مایوس ہوچکی تھی کہ یہ لوگ، جن کا اپنا ایک الگ تمدن بن چکا ہے، پھر کبھی ان میں آملیں گے۔


صلح حدیبیہ سے پہلے مسلمانوں کے راستہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ وہ کفار قریش کے ساتھ ایک مسلسل کشمکش میں الجھے ہوئے تھے اور انہیں اپنی دعوت کا دائرہ وسیع کرنے کی مہلت نہ ملتی تھی۔ اس رکاوٹ کو حدیبیہ کی ظاہری شکست اور حقیقی فتح نے دور کردیا۔ اس سے ان کو نہ صرف یہ کہ اپنی ریاست کے حدود میں امن میسر آگیا، بلکہ اتنی مہلت بھی مل گئ کہ گردوپیش کے علاقوں میں اسلام کی دعوت کے لے کر پھیل جائیں۔ چنانچہ اس کا افتتاح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایران، روم، مصر اور عرب کے بادشاہوں اور رئیسوں کو خطوط لکھ کر کیا اور اس کے ساتھ ہی قبیلوں اور قوموں میں مسلمانوں کے داعی خدا کے بندوں کو اسکے دین کی طرف بلانے کے لیے پھیل گئے۔

مباحث :


یہ حالات تھے جب سورۃ مائدہ نازل ہوئی۔ یہ سورۃ حسب ذیل تین بڑے بڑے مضامین پر مشتمل ہے :


(١) مسلمانوں کے مذہبی، تمدنی اور سیاسی زندگی کے متعلق مزید احکام و ہدایات۔ اس سلسلہ میں سفر حج کے آداب مقرر کیے گئے، شعائر اللہ کے احترام اور زائرین کعبہ سے عدم تعرض کا حکم دیا گیا، کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کے قطعی حدود قائم کیے گئے اور دور جاہلیت کی خود ساختہ بندشوں کو توڑ دیا گیا، اہل کتاب کے ساتھ کھانے پینے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی، وضو اور غسل اور تیمم کے قاعدے مقرر کیے گئے، بغاوت اور فساد اور سرقہ کی سزائیں معین کی گئیں، شراب اور جوئے کو قطعی حرام کردیا گیا، قسم توڑنے کا کفارہ مقرر کیا گیا، اور قانون شہادت میں مزید چند دفعات کا اضافہ کیا گیا۔


(٢) مسلمانوں کو نصیحت۔ اب چونکہ مسلمان ایک حکمران گروہ بن چکے تھے، ان کے ہاتھ میں طاقت تھی، جس کا نشہ قوموں کے لیے اکثر گمراہی کا سبب بنتا رہا ہے، مظلومی کا دورخاتمہ پر تھا اور اس سے زیادہ سخت آزمائش کے دور میں وہ قدم رکھ رہے تھے، اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے بار بار نصیحت کی گئی کہ عدل پر قائم رہیں، اپنے پیش رو اہل کتاب کی روش سے بچیں، اللہ کی اطاعت و فرماں برداری اور اس کے احکام کی پیروی کا جو عہد انہوں نے کیا ہے اس پر ثابت قدم رہیں اور یہود و نصاریٰ کی طرح اس کو توڑ کر اس انجام سے دوچار نہ ہوں جس سے وہ دوچار ہوئے۔ اپنے جملہ معاملات کے فیصلوں میں کتاب الہٰی کے پابند رہیں، اور منافقت کی روش سے اجتناب کریں ۔


(٣) یہودیوں اور عیسائیوں کو نصیحت۔ یہودیوں کا زور اب ٹوٹ چکا تھا اور شمالی عرب کے تقریبًا تمام یہودی بستیاں مسلمانوں کے زیر نگیں آگئی تھیں۔ اس موقع پر ان کو ایک بار پھر ان کے غلط رویہ پر متنبہ کیا گیا ہے اور انہیں راہ راست پر آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ نیز چونکہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے عرب اور متصل ممالک کی قوموں میں اسلام کی دعوت پھیلانے کا موقع نکل آیا تھا اس لیے عیسائیوں کو بھی تفصیل کے ساتھ خطاب کر کے ان کے عقائد کی غلطیاں بتائی گئی ہیں اور انہیں نبی عربی پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ہمسایہ ممالک میں سے جو قومیں بت پرستی اور مجوسی تھیں ان کو براہ راست خطاب نہیں کیا گیا، کیونکہ ان کی ہدایت کے لیے وہ خطبات کافی تھے جو ان کے ہم مسلک مشرکین عرب کو خطاب کرتے ہوئے مکہ میں نازل ہوچکے تھے۔

---------------------------------------
(تفہیم القرآن ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )