سورہ ھود: زمانہ نزول، موضوع و مباحث - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


زمانہ نزول :

اس سورے کے مضمون پر غور کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی دور میں نازل ہوئی ہوگی جس میں سورۃ ”یونس“ نازل ہوئی تھی۔ بعید نہیں کہ یہ اس کے ساتھ متصلا ہی نازل ہوئی ہو، کیونکہ موضوع تقریر وہی ہے، مگر تنبیہ کا انداز اس سے زیادہ سخت ہے۔


حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا " میں دیکھتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بوڑھے ہوتے جارہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے "؟ جواب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شَیَّبتْنی ھود و اَخواتہا ،” مجھ کو سورۃ ہود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے"۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے وہ زمانہ کیسا سخت ہوگا جب کہ ایک طرف کفار قریش اپنے تمام ہتھیاروں سے اس دعوت حق کو کچل دینے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پے در پے تنبیہات نازل ہو رہی تھیں۔ ان حالات میں آپ کو ہر وقت یہ اندیشہ گھلائے دیتا ہوگا کہ کہیں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم نہ ہوجائے اور وہ آخری ساعت نہ آجائے جب کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب میں پکڑ لینے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ فی الواقع اس سورۃ کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک سیلاب کا بند ٹوٹنے کو ہے اور اس غافل آبادی کا، جو اس سیلاب کی زد میں آنے والی ہے، آخری تنبیہ کی جا ری ہے۔ 


موضوع اور مباحث :


موضوع تقریر، جیسا کہ ابھی بیان کیا جا چکا ہے، وہی ہے جو سورۃ یونس کا تھا۔ یعنی دعوت، فہمائش اور تنبیہ، لیکن فرق یہ ہے کہ سورۃ یونس کی بہ نسبت یہاں دعوت مختصر ہے، فہمائش میں استدلال کم اور وعظ و نصیحت زیادہ ہے، اور تنبیہ مفصل اور پرزور ہے۔


دعوت یہ ہے کہ پیغمبر کی بات مانو، شرک سے باز آجاؤ، سب کی بندگی چھوڑ کر اللہ کے بندے بنو اور اپنی دنیوی زندگی کا سارا نظام آخرت کی جواب دہی کے احساس پر قائم کرو۔ 


فہمائش یہ ہے کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر کے جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت کو ٹھکرایا ہے وہ اس سے پہلے نہایت برا انجام دیکھ چکی ہیں، اب کیا ضرور ہے کہ تم بھی اسی راہ چلو جسے تاریخ کے مسلسل تجربات قطعی طور پر تباہی کی راہ ثابت کرچکے ہیں ۔


تنبیہ یہ ہے کہ عذاب کے آنے میں جو تاخیر ہو رہی ہے یہ دراصل ایک مہلت ہے جو اللہ اپنے فضل سے تمہیں عطا کر رہا ہے۔ اس مہلت کے اندر اگر تم نہ سنبھلے تو وہ عذاب آئے گا جو کسی کے ٹالے نہ ٹل سکے گا اور اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت کو چھوڑ کر تمہاری ساری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔


اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے براہ راست خطاب کی بہ نسبت قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط، اصحاب مدین اور قوم فرعون کے قصوں سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ ان قصوں میں خاص طور پر جو بات نمایاں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا جب فیصلہ چکانے پر آتا ہے تو پھر بالکل بےلاگ طریقہ سے چکاتا ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ ذرہ برابر رعایت نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا بیٹا اور کس کا عزیز ہے۔ رحمت صرف اس کے حصہ میں آتی ہے جو راہ راست پر آگیا ہو، ورنہ خدا کے غضب سے نہ کسی پیغمبر کا بیٹا بچتا ہے اور نہ کسی پیغمبر کی بیوی۔ یہی نہیں بلکہ جب ایمان و کفر کا دو ٹوک فیصلہ ہو رہا ہو تو دین کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ خود مومن بھی باپ اور بیٹے اور شوہر اور بیوی کے رشتوں کو بھول جائے اور خدا کی شمشیر عدل کی طرح بالکل بےلاگ ہو کر ایک رشتہ حق کے سوا ہر دوسرے رشتے کو کاٹ پھنیکے ایسے موقع پر خون اور نسب کی رشتہ داریوں کا ذرہ برابر لحاظ کر جانا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ یہی وہ تعلیم تھی جس کا پورا پورا مظاہرہ تین چار سال بعد مکہ کے مہاجر مسلمانوں نے جنگ بدر میں کر کے دکھا دیا۔


(تفہیم القرآن جلد دوم ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )