تاریخ استشراق اور مستشرقین

استشراق (Orientalism) اور مستشرق (Orientalist) دونوں اصطلاحیں ہیں، یہ اصطلاحیں لفظی لحاظ سے بہت پرانی نہیں ہیں، انگریزی زبان وادب میں ان کا استعمال اپنے مخصوص اصطلاحی معنون میں اٹھارویں صدی کے آواخر میں شروع ہوا۔تحریک استشراق صدیوں مصروف عمل رہی لیکن اس کا کوئی باضابطہ نام نہ تھا۔

 اربری کہتا ہے کہ مستشرق کا لفظ پہلی بار1630ء میں مشرقی یا یونانی کلیسا کے ایک پادری کے لیے استعمال ہوا۔ انگلستان میں 1779 ء کے لگ بھگ اور فرانس میں 1799ء کے قریب مستشرق کی اصطلاح رائج ہوئی اور پھر جلد ہی اس نے رواج پایا۔ سب سے پہلے 1838ء میں فرانس سے شائع ہونے والی لغت میں استشراق کی اصطلاح درج کی گئی۔

اس کی مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے الگ الگ تعریف بیان کی ہے، اس میں سے کچھ اہم یہ ہیں۔ غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں، تہذیب، فلسفے، ادب اور مذہب کے مطالعہ میں مشغول ہونے کا نام استشراق ہے۔

ایک جامع تعریف یہ کی گئی ہے، مغربی اہل کتاب، مسیحی مغرب کی اسلام مشرق پر نسلی اور ثقافتی برتری کے زعم کی بنیاد پر مسلمانوں پر اہل مغرب کا تسلط قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں گمراہی اور شک میں مبتلا کرنے اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنے کی غرض سے مسلمانوں کے عقیدہ، شریعت۔ ثقافت، تاریخ، نظام اور وساہل وامکانات کا جو مطالعہ غیر جانبدارنہ تحقیق کے دعوے کے ساتھ کرتے ہیں اسے استشراق کہا جاتا ہے۔[1]

لیکن اس تعریف میں یہ خامی ہے کہ اس میں سارا زور مستشرقیں کو اسلام و مسلمانوں پر کام کرنے والوں کو کہا گیا ہے جو ٹھیک نہیں کیونکہ ہر وہ غیر مشرقی شخص جو مشرقی علوم، ادیان اور تہذیبوں پر کام کرتا ہے وہ بھی معروف معنوں میں مستشرق ہے۔ جبکہ ایک اور عرب ڈاکٹر محمد ابراہیم الفیومی رودی، "بارت" کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مستشرقین کی اصطلاح میں لفظ مشرق کا جغرافیائی مفہوم مراد نہیں بلکہ ان کے ہاں اس اصطلاح استشراق و مستشرق میں زمین کے وہ خطے ہیں جس پر اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔ گویا لفظ مشرق سے مراد اسلامی ممالک ہیں اور دنیاۓ اسلام کو وہ مشرق کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ مشرق کے اس مفہوم کے تحت مستشرقین کی عملی جدوجہد جن خفیہ مقاصد کی غمازی کرتی ہے اور جن کا اظہار کبھی کبھی بعض مستشرقین کی طرف سے ہوتا رہتا ہے، ان کو اور مستشرقین کے بے شمار علمی کارناموں اور ان کے مختلف طبقات کو پیش نظر رکھتے ہوۓ مستشرقین (مستشرق) ، یوں تعریف کی جا سکتی ہے۔


اہل مغرب بالعموم اور یہود و نصاری بالخصوص، جو مشرق اقوام خصوصا" ملت اسلامیہ کے مذاہب، زبانوں، تہذیبوں، تاریخ، ادب، انسانی قدروں، ملی خصوصیات، وسائل حیات اور امکانات کا مطالعہ معروضی تحقیق کے لبادے میں اس غرض سے کرتے ہیں کہ ان اقوام کو اپنا ذہنی غلام بنا کر ان پر اپنا مذہب اور تہذیب مسلط کر سکیں اور ان پر سیاسی غلبہ حاصل کر کے ان کے وسائل حیات کا استحصال کر سکیں۔ ان کو مستشرقین کہا جاتا ہے اور جس تحریک سے وہ منسلک ہیں وہ تحریک استشراق کہلاتی ہے۔

تاریخ استشراق:


استشراق اگر صرف اسلام کے خلاف سرگرمیوں کی علامت مانا جاۓ تو اس قسم کی سرگرمیاں پہلی صدی ہجری میں ہی شروع ہو گئی تھیں۔ تحریک استشراق کی اصطلاح رائج ہونے سے کتنا عرصہ پہلے موجود تھی؟ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ


تحریک استشراق کا آغاز 1312 میں ہوا، جب فینا میں کلیسا کی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یورپ کی مختلف جامعات میں عربی زبان کی تدریس کے لیے باقاعدہ شعبے (Chairs)قائم کیے جاہیں۔


بعض محقق کہتے ہیں اس کی ابتداء تیرہویں صدی عیسوی میں جب قشتالہ کے بادشاہ الفونس دہم نے 1269 میں مریسیلیاں میں اعلیٰ تعلیقات کا ادارہ قائم کیا، اس ادارے نے ابوبکرالرقوطی کی سربراہی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ، عیسائی اور یہودی عالم مقرر کیے جنہوں نے قرآن ، تلمود ،اور انجیل کے ہسپانوی زبان میں ترجمے کیے۔ کچھ علماء کا اس کے آغاز کو بارویں صدی عیسوی سے جوڑتے ہیں۔


جب 1143 میں ایک شخص پطرس کے ایماء پر پہلی مرتبہ قرآن کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔اسی صدی میں ایک پادری فیز ایل نے پہلی عربی لاطینی لغت تیار کی۔ بعض کے نزدیک اس کا آغاز دسویں صدی عیسوی میں ہوا جب فرانس کا ایک راہب جریردی اورلیاک حصول علم کی خاطر اندلس گیا۔ اشبیلیہ اور قرطبہ کی جامعات میں علم جاصل کیا اور یورپ بھر میں عربی زبان و ادب کا سب سے بڑا عالم شمار ہوا بعد میں 999 سے لے کر 1003 تک سلفستر ثانی کے لقب سے پاپاۓ روم کے منصب پر فائز رہا۔ جب کہ اسی طرح نویں اور آٹھویں صدی کی بھی مثالیں موجود ہیں۔


حاصل کلام یہ ہے کہ تحریک استشراق کا آغاز عملا" آٹھویں صدی عیسوی سے ہو چکا تھا۔ اگرچہ اس تحریک کو یہ نام کئی صدیوں بعد ملا۔

مستشرقین کی اقسام

مستشرقین کا رویہ ہر زمانے میں یکساں نہیں رہا۔اس لیے ان کے ہان علم،تجربہ، انداز استدلال،مذہبی حیثیت اور وابستگی وانسلاک کے مختلف نمونے نظو آتے ہیں، اور اسی لحاظ سے ان کے فکر و فن اور تحقیق و تالیف کا معیار بھی جداجداہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مستشرقین نے کئی مفید کام بھی کیے ہیں، جس پر ان کی تعریف کی جانے چاہیے۔دوسری طرف مستشرقین میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بنی نوع انسان کے لیے فکری بے اعتدالی، نظریاتی بے راہروی اور تہذیبوں کی تباہی کا باعث بنے ہیں۔یہ لوگ قابل مذمت ہیں۔مستشرقین کے کام کی نوعیت و حیثیت جاننے کے لیے ان کوکئی اقسام اور طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔


معتدل مزاج مستشرقین

یہ مستشرقین کا وہ گروہ ہے جو مسلمان نہ تھے اس لیے ان کا آبائی ادیان کے زیر اثر ہونا فطری بات تھی اس لیے ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اسلام کو بالکل اسی نظر سے دیکھیں جس سے مسلمان دیکھتے ہیں۔ اس طبقے کی تحریروںمیں بیشمار غلطیاں تو ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ اسلام، محمدصل للہ علیہ والہ وسلم اور اسلامی تعلیمات کو زبردست خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں۔ ان میں چند مستشرقین یہ ہیں۔

کاسن دی پرسیول، رحرڈ سائمن ، گاڈ فرلے ہگنز ، یوہان جے ریسکے ، مائیکل ایچ ہارٹ ، نیان، ول ڈیورنٹ ، کانسٹنٹ ورجل جیورجیو ، کیرن آرم سٹرانگ


متعصب مستشرقین

اس طبقے میں ان مستشرقین کو رکھا جاتا ہےجن کا مقصد بے لاگ اور غیرجانبدارنہ علمی تحقیق کے لبادے میں اسلام کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنا ۔اس طبقے میں مزید تقسیم کی جا سکتی ہے کیونکہ کے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے انداز مین تبدیلی آتی رہی ہے۔ان میں چند مشہور افراد یہ ہیں۔

کیمون ، جین برڈ ، ہمفرس پرائی ڈیکس ، سر ویلم میور ، جارج سیل ، گولڈزیہر 


پیشہ ور مستشرقین

وہ مستشرقین جن کو جامعات، تحقیقی اداروں، مجلات، اخبارات، ٹیلی ویژن وغیرہ میں "اس کام" کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے۔ ان کا کام اکثر سیاسی و مذہبی تعصب پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کی مثال برطانوی ہند میں انگریز عہدہ داروں کا کام ہے اسی طرح اکیسویں صدی مین اسلاموفوبیا پیدا کرنے میں بھی ایسے لوگ شامل ہیں۔


ملحد مستشرقین

قرون وسطی میں جب یورپ میں مذہب اور سائنس کے درمیان میں جنگ جاری تھی، تب جو لوگ ملحد ہوئے۔انھوں نے مذہب کے خلاف لکھنے کے لیے اسلام کو بطور رمز استعمال کیا، کیوں کہ پوپ کی طرف سے عیسائیت پر زبان درازی کرنے پر کڑی سزائیں دی جاتی تھیں۔اس کی ایک بہت بڑی مثال والٹیئر ہے۔ جس نے محمد صل للہ علیہ والہ وسلم پر ایک ڈراما (Le Famatisme on Mohammaticv Prophete) لکھا، جس کا انتساب پوپ کے نام کیا، اسطرح اس نے پوپ کو بھی خوش رکھا اور مذہب پر بھی حملہ کیا۔


عربی زبان سے نا بلد مستشرقین


کچھ ایسے مستشرقین بھی گزرے ہیں جو عربی زبان سے واقف نہیں تھے لیکن پھر بھی انہوں نے اسلام کے بارے میں لکھا۔ ان لوگوں نے اپنے سے پہلے مستشرقین کے کام کو ہی استعمال کیا اور و ہی غلطیاں دوہرائیں ۔اس میں ایڈورڈ گبن کا نام سب سے نمایاں ہے، جس نے اپنی کتاب تاریخ زوال رومہ کے پچاسویں باب میں اسلام و پیغمبر اسلام کے بارے بہت ہی نا مناسب زبان استعمال کی۔


انتہائی دقت نظر سے اسلام کا مطالعہ کرنے والے مستشرقین


بہت کم مستشرقین گزرے ہیں جنہون نے اسلام کا گہرا مطالعہ کیا اور اس کی بنیاد پر اپنی تحقیقات پیش کیں، مگر ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو " پیشہ ور مستشرقین" میں آتے ہیں۔جیسے : گولڈزیہر، سر ولیم میور ، ارٹر جیفری ، مار گولیتھ ، جارج سیل 

مستشرقین کے اہداف و مقاصد:


دینی اہداف و مقاصد:

تحریک استشراق اسلام کے راستے میں بند باندھنے کی کوششوں کا ہی حصہ ہے۔ ،علوم اسلامیہ کی طرف متوجہ ہوتے وقت اپنے دین کے حوالے سے درج ذیل مقاصد تھے ۔

اسلام کی حقانیت اور اسلام کے ساتھ اہل اسلام کی جذباتی لگاو کو کم کرنے کے لیے مناسب دلائل تلاش کرنا۔تاکہ اقوام عالم میں اسلام کے پھیلاو کو روکا جائے اورمشنری سرگرمیوں کو منظم اور مربوط کیا جائے۔"لورانس بروان" نے اپنے استشراقی جذبات کا اظہار اس طرح کیا: "حقیقی خطرہ اسلامی نظام، اس کے پھیلنے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی صلاحیت اور اس کی قوت حیات میں ہے۔ مغربی استعمار کے راستے میں یہی واحد دیوار ہے۔ [2] 

تحقیقی اور علمی اہداف و مقاصد:

مستشرقین کے تمام علمی اور تحقیقی کاموں کے پیچھے علم کی خدمات کا جذبہ کا فرما نہیں ہوتا بلکہ علم کی خدمات کی آڑ میں اسلام سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اصول تمام مستشرقین پر لاگو نہیں ہوتا۔ ان میں ایسے لوک بھی موحود ہیں جن کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے صرف علم کے حصول اور علم کی خدمت کے جذبے سے اپنی زندگیاں تحقیق کے خار زار میں گزار دیں۔ اسلامی موضوعات پر ان کے علم سے ایسی باتیں نکلی ہیں جن میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق منصفانہ رویہ اختیار کیا گيا۔ گو ان کی تحریروں میں بہت سی غلط باتیں بھی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک آدمی مسلمان نہ ہو اور اس کے پیش نظر کتابوں کا وہ ذخیرہو جو اسلام کے متعلق زہریلے پروپیگنڈے سے پُر ہو، اس آدمی سے اس قسم کی غلطیوں کا صدور ہونا عجیب نہیں۔[3]


مالی اور اقتصادی اہداف و مقاصد:


علمی اور دینی مقاصد کے ساتھ ساتھ تجارتی اور مالی مقاصد بھی مستشرقین کے پیش نظر تھے۔ جن کی وجہ سے وہ مشرقی زبانوں اور مشرق کے دیگر حالات کے مطالعہ کی طرف متوجہ ہوئے۔اہل مغرب خصوصاً اٹلی کے لوگوں کے مشرقی ممالک کے ساتھ قدیم تجارتی تعلقات تھے۔ اہل مشرق کے ساتھ اپنے تجارتی معاملات کو اچھے طریقے سے طے کرنے کے لیے انہوں نے عربی زبان کی تعلیم کو ضروری سمجھا۔ ان کوششون کا نتیجہ یہ تھا کہ 1265ء میں تونس اور اٹلی کے شہر بیرا کے تاجروں کے درمیان میں جو تجارتی معاہدہ ہوا اسے عربی زبان میں لکھا گیا۔[4]

----------------------------------
حوالہ جات:

1۔ ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب، رؤیۃالاسلامیہ للاستشراق

2۔ محمد الدہان، قوی الشر المتخالفۃ و موقفھا من الاسلام والمسلمین، ص52

3۔ ثناءاللہ حسین،قرآن حکیم اور مستشرقین، صفحہ 48

4۔ الاستشراق وجۃ لاستعمارالفکر ی، ص 92

(مزید تفصیل کے لیے دیکھیئے : اردو آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا : لفظ استشراق اور مستشرقین   )


---------------
یہ بھی پڑھیں !

مستشرق آتھر جیفری اور کتاب المصاحف