قرآنی الفاظ کی تحقیق و تشریح ، البقرۃ آیات 1 تا 5

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ 

"ذٰلِکَ الکِتابُ لارَیبَ فِیہ ھُدََی لِلمُتَّقِینَ " 

"ذلک":۔ اہل نحو کہتے ہیں کہ "ذلک" اشارہ بعید کے لیے آتا ہے اور "ھذا" اشارہ قریب کے لیے۔ اس سے عام طور پر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اگر کسی فاصلہ کی چیز کی طرف اشارہ کرنا ہو تو "ذلک" لائیں گے اور اگر قریب کی کسی چیز کی طرف اشارہ کرنا ہو تو "ھذا" استعمال کریں گے۔ لیکن اہل نحوکا مطلب قریب اور بعید سے یہ نہیں ہے، ان کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز مخاطب کے علم میں ہے یا جس کا ذکر گفتگو میں ہوچکا ہے اگر اس کی طرف اشارہ کرنا ہو تو وہاں "ذلک" استعمال کریں گے اور اگر کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ کرنا ہو جس کا ذکر آگے آرہا ہو تو وہاں "ھذا" لائیں گے۔ اہل زبان ان دونوں اشارات کو اسی طرح استعمال کرتے ہیں اور اگر کبھی ان کو اس عام ضابطہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں تو بلاغت کے کسی نکتہ کو ملحوظ رکھ کر کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی سابق الذکر چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے "ھذا" استعمال کردیں تو اس سے مقصود اس شے کو نگاہوں کے سامنے حاضر کردینا ہوگا۔ اسی طرح اگر کہیں "ھذا" کی جگہ "ذلک" استعمال ہوتا ہے تو اس سے عموماً مقصود اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی شان اس سے ارفع ہے کہ اس کو سامنے لا کھڑا کیا جائے۔ یہاں "ذلک" کا اشارہ سورۃ کے اس نام کی طرح ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اور بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ "الم" قرآن عظیم کا ایک حصہ ہے۔ قرآن میں اس قسم کے اشارات کی نظیریں بکثرت موجود ہیں۔ مثلاً "حمعسق۔ کذلک یوحی الیک والی الذین من قبلک اللہ العزیز الحکیم" (شوری : 1-3) یہ حم عسق ہے۔ اسی طرح خدائے عزیز وحکیم تمہاری طرف وحی کرتا ہے اور اسی طرح اس نے ان لوگوں کی طرف وحی کی جو تم سے پہلے گزرے۔ "طس۔ تلک ایات القران و کتاب مبین" (النمل :1-2) (یہ طس ہے۔ یہ قرآن اور ایک کتاب مبین کی آیتیں ہیں۔ )


" کتاب" کے معانی:

"الکتاب" :۔ قرآن مجید میں کتاب کا لفظ پانچ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔

1۔ نوشتہ تقدیر مثلاً "لولا کتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم" (انفال : 68) (اگر نوشتہ الٰہی نہ گزر چکا ہوتا تو جس چیز میں تم مبتلا ہوئے اس کے باعث تمہیں ایک دردناک عذاب آ پکڑتا ۔

2۔ اللہ تعالیٰ کا وہ رجسٹر جس میں ہر چیز ریکارڈ ہے۔ مثلاً "وعندنا کتاب حفیظ" (ق :4) (اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے محفوظ رکھنے والی)۔

3۔ خط اور پیغام۔ مثلاً "اِنِّی اُلقِیَ اِلَیَّ کِتَاب کَرِیم" (نمل :29) (میرے پاس ایک گرامی نامہ بھجوایا گیا ہے)۔

4۔ احکام و قوانین۔ مثلاً "ویعلمہم الکتب والحکمۃ" (جمعہ :2) (اور ان کو شریعت اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے) ۔

5۔ اللہ تعالیٰ کا اتارا ہوا کلام۔ اپنے اسی معنی کے لحاظ سے یہ لفظ کتاب الٰہی کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد کتاب الٰہی کا کوئی خاص حصہ بھی ہوا کرتا ہے اور اس کا مجموعہ بھی۔ مجموعہ کے مفہوم کے لیے نظیر اعراف کی یہ آیت ہے " والذین یمسکون بالکتاب واقاموا الصلوۃ" (اعراف :170) (اور جو کتاب الٰہی کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں)۔ دوسرے معنی کے لیے نظیر سورۃ آل عمران کی یہ آیت ہے "الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتاب یدعون الی کتاب اللہ لیحکم بینہم" (آل عمران :22) (ذرا دیکھو تو ان کو جنہیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ ملا، ان کو دعوت دی جا رہی ہے اللہ کی کتاب کی طرف تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کرے)۔

جس طرح کوئی لفظ اپنے مختلف معانی میں سے کسی ایک اعلی اور برتر معنی کے لیے خاص ہوجایا کرتا ہے، اسی طرح یہ کتاب کا لفظ بھی خاص طور پر کتاب الٰہی کے لیے بولا جانے لگا۔ چنانچہ یہ استعمال قدیم زمانہ سے معروف ہے۔ یہود انبیاء کے صحیفوں میں سے صحیفہ کو سِفر کہتے تھے جس کے معنی کتاب کے ہیں۔ عیسائی مترجموں نے ان کتابوں کو بائیبل کا نام دیا اس کے معنی بھی یونانی میں کتاب ہی کے ہیں۔ اسی طرح ان صحیفوں کے لیے (Scripture) کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی لاطینی میں کتاب کے ہیں۔ الغرض کتاب کا لفظ کتاب اللہ کے لیے کوئی نیا استعمال نہیں ہے۔ یہ استعمال جیسا کہ واضح ہوا، بہت قدیم ہے۔ قرآن نے بھی اس معنی میں اس لفظ کو استعمال کیا اور اپنے استعمالات سے اس کے اس معنی کو اس قدر واضح کردیا کہ اس کے مخاطب اس استعمال کو بے تکلف سمجھنے لگ گئے ۔


"ریب"کے معنی :

"لاریب فیہ":۔ "ریب" کے معنی شک کے ہیں۔ "اس میں کوئی شک نہیں ہے" کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کتاب الٰہی ہونے یا ایک کتاب منزل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ جملہ پہلے جملہ کی خبر نہیں بلکہ اس کی تاکید ہے۔ "ذلک الکتاب" کے معنی ہیں، یہ کتاب الٰہی ہے۔ اس کے بعد یہ تاکید اسی حقیقت کو مزید قوت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے کہ اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر اس کے معنی یہ نہ لیے جائیں تو پھر اس ٹکڑے کے لیے یہاں کوئی موزوں موقع ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ قرآن مجید کے نظائر سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً اسی سورۃ میں چند ہی آیات کے بعد فرمایا ہے۔ "و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ" (بقرہ :23) (اور اگر تم اس کی طرف سے شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اتاری ہے تو لاؤ اس کے مانند کوئی ایک سورہ)۔ "الم تنزیل الکتاب لاریب فیہ من رب العالمین " (السجدہ :1) (الم، کتاب کی تنزیل، جس کے کے کتابِ الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، عالم کے خداوند کی طرف سے ہے)۔ "حم تنزیل الکتاب من اللہ العزیز العلیم" (مومن : 1-2) (حم، کتاب کا اتارنا خدائے عزیز و علیم کی طرف سے ہے)۔

عام طور پر لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اس کتاب میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس میں شک کیا جاسکے۔ اگرچہ بجائے خود یہ ایک حقیقت ہے قرآن میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہو لیکن ہمارے نزدیک اس جملہ کا یہ مطلب نہیں ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اولاً تو قرآن کے نظائر جو ہم نے پیش کیے ہیں اس مطلب کے خلاف ہیں۔ ثانیاً شک و شبہ کتاب کی صفات میں سے نہیں ہے بلکہ آدمی کے ذہن کی صفات میں سے ہے۔ ایک ٹیڑھے ذہن کا آدمی سیدھی سے سیدھی بات میں سے بھی کوئی نہ کوئی ٹیڑھ نکال ہی لیتا ہے اس وجہ سے اس بات کے کہنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ ثالثاً شک و شبہ کا سوال در حقیقت پیدا کسی دعوے سے متعلق ہوتا ہے، یہاں دعوی یہ ہے کہ یہ کتاب الٰہی ہے۔ اس وجہ سے اگر شک کی نفی کی ضرورت ہے تو اس دعویٰ سے متعلق ہے نہ کہ کتاب سے متعلق۔ رابعاً کتاب سے متعلق شک کی نفی سے کتاب کی شان میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح کے شک کی نفی ریاضی یا اقلیدس کی کسی کتاب کے بارہ میں بھی کی جاسکتی ہے۔ خامساً قرآن کے ابتدائی مخاطبین کی اصلی الجھن یہ نہیں تھی کہ قرآن کی کچھ باتیں ان کو مشکوک و مشتبہ معلوم ہوتی تھی بلکہ ان کی اصلی الجھن یہ تھی کہ اس کتاب کو اللہ کی اتاری ہوئی بتایا جاتا تھا اور وہ اس کو اللہ کی اتاری ہوئی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سادساً اگر کتاب سے متعلق شک کی نفی کر بھی دی جائے تو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے خدا کی طرف سے ہونے کا مسئلہ پھر بھی مشکوک ہی رہا۔ یا اس کا خدا کی طرف سے ہونا غیر مشکوک ہوجائے تو پھر اس کا ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہونا آپ سے آپ ثابت ہوجاتا ہے۔


"ھدی" کی تحقیق :


"ھدی" کا لفظ عربی زبان میں بھی اور قرآن مجید میں بھی کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جن معانی کے نظائر خود قرآن میں موجود ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔ قلبی نور و بصیرت۔ مثلاً "والذین اھتدوا زادھم ھدی" (محمد :17) (اور جو لوگ ہدایت کی راہ اختیار کرتے ہیں اللہ ان کی قلبی بصیرت میں اضافہ فرماتا ہے)۔ 2۔ دلیل وحجت اور نشانِ راہ۔ مثلاً "او اجد علی النار ھدی" (طہ :1) (یا مجھے آگ کے پاس پہنچ کر کوئی نشان راہ مل جائے)۔ "بغیر علم ولا ھدی ولا کتاب منیر" (حج :8) (بغیر کسی علم، بغیر کسی دلیل اور بغیر کسی روشن کتاب کے)۔ 3۔ سیدھا اور صاف راستہ۔ مثلاً "انک لعلی ھدی مستقیم" (حج :68) (بے شک تم ایک سیدھے راستے پر ہو)۔ یہیں سے یہ لفظ طریقہ اور شریعت کے معنی میں استعمال ہوا۔ اس معنی کی مثالیں بھی قرآن میں موجود ہیں۔ مثلا "فبھداھم اقتدہ"(انعام :9) (پس ان کے طریقہ کی پیروی کر)۔ "ان الھدی ھدی اللہ" (ال عمران :72) (اور شریعت تو بس اللہ کی شریعت ہے)۔ 4۔ فعل ہدایت۔ مثلاً "لیس علیک ھداہم ولکن اللہ یھدی من یشاء" (بقرہ :272) (تمہارے ذمہ ان کو ہدایت دینا نہیں ہے بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے)۔ قرآن مجید ظاہر ہے کہ ان چاروں معنوں کے اعتبار سے "ھدی" ہے ۔

متقی کا مفہوم:

"للمتقین"۔ :۔ حرف لام یہاں انتفاع کے مفہوم میں ہے، یعنی اس کتاب سے فائدہ وہی لوگ اٹھائیں گے جو متقی ہیں۔ جس طرح سورج چمکتا تو سب کے لیے ہے لیکن اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو آنکھیں رکھتے بھی ہیں اور جو ان آنکھوں کو دیکھنے کے لیے کھولتے بھی ہیں۔ اسی طرح یہ کتاب اتری تو سب ہی کی ہدایت کے لیے ہے لیکن چونکہ اس سے فائدہ فی الحقیقت وہی لوگ اٹھائیں گے جن کے اندر خدا کا خوف ہو، اس وجہ سے فرمایا کہ یہ متقین کے لیے ہدایت ہے۔ متقی کا لفظ اتقاء سے ہے۔ اتقاء کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ہم مثالوں سے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ 1۔ جس چیز سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو اس سے بچنا۔ مثلاً "فکیف تتقون ان کفرتم یوما یجعل الولدان شیبا" (مزمل :17) (اگر تم نے کفر کیا تو اس دن سے کیسے بچ سکو گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا)۔ 2۔ کسی آفت کے ظہور سے اندیشہ ناک رہنا۔ مثلاً "واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ" (انفال : 25) (اور اس آفت سے چوکنے رہو جو خاص طور پر انہی پر نہیں آئے گی جنہوں نے تم میں سے ظلم کا ارتکاب کیا ہوگا)۔ 3۔ اس رب قدوس سے برابر لرزتے اور کا نپتے رہنا جو اپنے شکر گزار اور وفادار بندوں پر رحم فرماتا ہے، جو کفر و معصیت کو ناپسند کرتا ہے اور جو ہر ظاہر و پوشیدہ سے باخبر ہے۔ "وسیق الذین اتقوا ربھم الی الجنۃ زمرا" (زمر :73) (اور جو لوگ اپنے پروردگار سے برابر ڈرتے رہے ان کو گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا)۔ 4۔ اس کا چوتھا مفہوم مذکورہ تینوں مفہوموں کا جامع ہے۔ یعنی گناہ سے اس کے برے نتائج اور خدا کے غضب کے ڈر سے بچتے رہنا۔ جب یہ لفظ مفعول کے بغیر استعمال ہوتا ہے تو عموما یہی معنی مراد ہوتے ہیں اور اسی چیز کو تقوی سے تعبیر کیا جاتا ہے "وان تومنوا وتتقوا فلکم اجر عظیم" (ال عمران :179) (اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقوی اختیار کرو گے تو تمہارے لیے بہت بڑا اجر ہے)۔ اس تشریح کی روشنی میں متقی وہ شخص ہوگا جس کے دل میں خدا کی عظمت اور اس کے غضب کا خوف سمایا ہوا ہو اور جس کو گناہوں کے نتائج کا پورا پورا احساس ہو۔ تقوی میں عمل کی نسبت کیفیت اور حال کا پہلو اور فعل کے بالمقابل ترک کا پہلو اگرچہ زیادہ نمایاں اور اس پہلو سے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں نفی اثبات پر غالب ہے لیکن چونکہ یہ دل کی تندرستی کی دلیل ہے اور دل تندرست ہو تو سب کچھ تندرست ہے اس وجہ سے اس سے علم اور عمل دونوں کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔


ایمان بالغیب:-


"یومنون بالغیب"۔ ایمان کے معنی :۔ "ایمان" امن سے ہے۔ ایمان کے اصل معنی امن دینے کے ہیں۔ اگر اس کا صلہ لام کے ساتھ آئے تو اس کے معنی تصدیق کرنے، اور ب کے ساتھ آئے تو یقین اور اعتماد کرنے کے ہوجاتے ہیں۔ اس لفظ کی حقیقی روح یقین، اعتماد اور اعتقاد ہے۔ جو یقین، خشیت، توکل اور اعتقاد کی خصوصیات کے ساتھ پایا جائے اس کو ایمان کہتے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ پر، اس کی آیات پر، اس کے احکام پر ایمان لائے اور اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر کے اس کے فیصلوں پر پوری طرح راضی اور مطمئن ہوجائے وہ مومن ہے۔ یہ لفظ جب اپنے مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس سے خاص اسی چیز پر ایمان لانا مراد ہوتا ہے جس کا اس کے مفعول کی حیثیت سے ذکر ہوتا ہے لیکن اگر مفعول کے بغیر آئے تو اس کے تحت وہ ساری ہی چیزیں آسکتی ہیں جن پر ایمان لانے کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے یا جن پر قرینہ دلیل بن سکتا ہے۔ 


لفظ "غیب" کی تحقیق :۔


لفظ "غیب" کی تحقیق :۔ "غیب" کا لفظ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل معنوں میں آیا ہے ۔

1۔ وہ جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو۔ اس کا مد مقابل لفظ شہادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ عالم الغیب و الشہادۃ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے بھی باخبر ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں اور ان چیزوں سے بھی باخبر ہے جو ہمارے سامنے ہیں۔

2۔ وہ چیز جس کے جاننے کا آدمی کے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے قرآن میں نقل ہے"ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر" (اعراف : 188) (اگر مجھے غیب کا پتہ ہوتا تو میں خیر میں بہت سا اضافہ کرلیتا)۔

3۔ وہ جگہ جو آدمی کے سامنے نہ ہو یا وہ سمت جو متعین نہ ہو رہی ہو۔ "ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک وما کنت لدیھم اذ اجمعوا امرھم" (یوسف :102) (یہ غیب کے واقعات میں سے ہے جس کو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اور جب وہ اپنے فیصلہ پر متفق ہوئے تو تم ان کے پاس موجود نہ تھے)۔


4۔ راز کے معنی میں بھی اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ مثلاً نیک بیبیوں کی تعریف میں آتا ہے۔ "حفظت للغیب " (وہ راز کی حفاظت کرنے والیاں ہیں) ۔

"بالغیب"۔ بالغیب میں ب ظرفیت کی ہے ۔"بالغیب" کی" ب" کے بارہ میں بھی دو رائیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو ظرف کے معنی میں لیا جائے یعنی وہ غیب میں ہوتے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔ اس معنی کی متعدد مثالیں قرآن میں موجود ہیں۔ مثلاً "الذین یخشون ربھم بالغیب وھم من الساعۃ مشفقون" (انبیاء :49) (جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں غیب میں ہوتے ہوئے اور قیامت سے ڈرنے والے ہیں)۔ "انما تنذر الذین یخشون ربھم بالغیب واقاموا الصلوۃ" (فاطر :18) (تم انہی کو ڈرا سکتے ہو جو غیب میں ہوتے ہوئے اپنے رب سے ڈریں اور نماز قائم کریں)۔ اس صورت میں "یومنون" عام رہے گا اور وہ تمام چیزیں اس کے تحت آ سکیں گی جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایمان لانے کے لیے وہ اس بات کے منتظر نہیں ہیں کہ تمام حقائق کا آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں، بلکہ وہ مشاہدہ کے بغیر محض عقل و فطرت کی شہادت اور پیغمبر کی دعوت کی بنا پر ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جن پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سلف میں سے ربیع بن انس نے یہی تاویل اختیار کی ہے اور ہم نے بھی ترجمہ میں اسی کو ترجیح دی ہے۔ دوسری رائے یہ ہوسکتی ہے کہ اس کو صلہ کی "ب" مانا جائے اور "بالغیب" کو "یومنون" کا مفعول قرار دیا جائے۔ یہ رائے اگرچہ اکثریت کی رائے ہے اور زبان کے اعتبار سے اس میں کوئی نقص بھی نہیں ہے لیکن مندرجہ ذیل وجوہ سے ہمیں یہ رائے کچھ زیادہ قوی نہیں معلوم ہوتی۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس صورت میں ایمان صرف غیب کے ساتھ مخصوص ہو کر رہ جاتا ہے۔ غیب کے سوا بقیہ ساری چیزیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے، ایمان کے دائرہ سے باہر ہی رہ جاتی ہیں۔ برعکس اس کے پہلی صورت میں وہ تمام چیزیں ایمان کے دائرہ میں آجاتی ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے اور جن کی قرآن نے دوسرے مواقع پر تفصیل سے بیان کردی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لفظ غیب کا اطلاق چاہے ان تمام چیزوں پر ہوتا ہو جن پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن نبی اور کتاب پر تو اس کا اطلاق بہر حال نہیں ہوتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ دونوں چیزیں جن پر اللہ تعالیٰ کے بعد ایمان لانا سب سے زیادہ ضروری ہے یہاں ایمان سے کیوں خارج کردی گئیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ غیب کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی نہیں بولا گیا ہے غیب اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے نہیں ہے۔ اس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہوئے کہ یہاں اللہ تعالیٰ بھی ایمان کے اجزاء میں شامل نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بھی ایمان کے اجزاء میں شامل نہیں ہے تو ایمان بالغیب کے تحت صرف آخرت اور فرشتوں پر ایمان لانا ضروری ٹھہرتا ہے یا زیادہ سے زیادہ مستقبل کے حوادث پر۔ آخر ایمان کے دائرہ کو اس قدر محدود کردینے کی کیا وجہ ہے ؟ چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہ دوسری تاویل لینے والے حضرات کہتے ہیں کہ غیب سے مراد احوال آخرت ہیں۔ اگر احوال آخرت ہی مراد ہیں تو آخرت کا ذکر تو آگے اسی سلسلہ میں مستقل طور پر آ ہی رہا ہے۔ فرمایا ہے " وبا لاخرۃ ھم یوقنون" (اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں) آخر ایک ہی سلسلہ میں ایک ہی بات کو اس طرح دہرانے کی کیا ضرورت تھی ؟۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ پہلی تاویل سے ایک بہت بڑی حقیقت سامنے آتی ہے جس سے یہ دوسری تاویل بالکل خالی ہے۔ وہ یہ کہ ایمان یا خشیت وہی معتبر ہے جو بصیرت اور تقوی سے پیدا ہو۔ جو ایمان یا خشیت گناہوں کے نتائج سامنے آجانے کے بعد پیدا ہو خدا کے ہاں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جو لوگ خدا کا عذاب دیکھ کر ایمان لائے ان کے بارہ میں اس کا ارشاد یہ ہے " اثم اذا ما وقع آمنتم بہ الان وقد کنتم بہ تستعجلون" (یونس :51) (تو کیا پھر جب عذاب آ نازل ہی ہوگا تب ہی اس کو مانو گے، اس سے ہم کہیں گے اب ! حالانکہ اس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے تھے)۔ ظرفیت کے مفہوم کے خلاف ایک بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ جہاں جہاں بھی، قرآن میں لفظ ایمان کے ساتھ "ب" آئی ہے کہیں بھی ظرفیت کے مفہوم میں نہیں آئی ہے۔ لیکن یہ بات کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ اس کے جواب میں بالکل اسی کے برابر کی بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ بالغیب کا لفظ قرآن میں جہاں جہاں بھی آیا ہے ظرف ہی کے طور پر آیا ہے، کہیں بھی مفعول کے طور پر نہیں آیا ہے۔ اس وجہ سے جہاں تک قرآن کے نظائر کا تعلق ہے وہ ظرفیت کے مفہوم کے حق میں زیادہ نمایاں ہیں۔ 


اقامت صلوۃ کا مفہوم :۔

"یقیمون الصلاۃ"۔ "اقامت" کے معنی کسی چیز کو کھڑے کرنے یا اس طرح سیدھے کرنے کے ہیں کہ اس میں کوئی ٹیڑھ باقی نہ رہ جائے۔ فرمایا ہے وہ نماز قائم کرتے ہیں، یہ نہیں کہا ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں۔ قرآن نے نماز کے لیے قائم کرنے کا لفظ استعمال کر کے ایک ہی ساتھ کئی حقیقتوں کی طرف توجہ دلا دی ہے۔ پہلی چیز جس کی طرف یہ متوجہ کرتا ہے وہ نماز میں اخلاص ہے۔ یعنی نماز صرف اللہ ہی کے لیے پڑھی جائے کسی اور کو اس میں شریک نہ کیا جائے۔ اس کے اندر سیدھے کرنے کا جو مفہوم ہے اس کا تقاضا اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک یہ پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ ہی کے لیے نہ پڑھی جائے۔ دوسرے مقام پر یہ حقیقت واضح لفظوں میں بھی بیان کردی ہے۔ "واقیموا وجوھکم عند کل مسجد وادعوہ مخلصین لہ الدین" (اعراف :29) (اور اسی کی طرف اپنے رخ کرو ہر مسجد کے پاس اور اسی کو پکارو اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے)۔ یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ نماز میں رخ قبلہ کی طرف ہونا چاہیے کیونکہ وہی توحید اور اخلاص کا مرکز ہے۔ دوسری چیز جس کی طرف یہ لفظ اشارہ کرتا ہے وہ نماز کے اصل مقصود پر دل کو پوری طرح جمانا ہے۔ نماز کا اصل مقصود ذکر الٰہی میں خشوع وخضوع ہے، اگر آدمی اس چیز سے غافل ہو کر نماز پڑھے تو یہ نماز کو قائم کرنا نہیں ہوا بلکہ محض چھدا اتارنا ہوا۔ اس حقیقت کی طرف بھی قرآن نے بعض مقامات میں توجہ دلائی ہے۔ مثلاً "واقم الصلوۃ لذکری" (طہ :4) (اور نماز کو میرے ذکر کے لیے قائم کرو)۔ دوسری جگہ فرمایا ہے "قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خاشعون" (مومنون :1-2) (ان مومنوں نے فلاح پائی جو اپنی نمازیں خضوع و خشوع سے ادا کرتے ہیں)۔ تیسری چیز یہ ہے کہ نماز بغیر کسی کمی بیشی کے اس طریقہ کے مطابق ادا کی جائے جس طریقہ پر اللہ تعالیٰ نے اس کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے "فاذا امنتم فاذکروا اللہ کما علمکم" (بقرہ : 239) (پس جب تم امن میں ہوجاؤ تو اس طریقہ پر اللہ کو یاد کرو جو طریقہ اس نے تم کو سکھایا ہے)۔ نماز کی صفوں کا ٹھیک کرنا اور ارکان نماز کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا بھی اس میں شامل ہے، اسی وجہ سے حدیث میں آیا ہے کہ "تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلوۃ" (صفوں کو برابر کرنا بھی اقامت صلوۃ کا ایک جزو ہے)۔ چوتھی چیز اوقاتِ نماز کی پوری پوری پابندی ہے۔ فرمایا ہے "اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل وقران الفجر" (اسراء :78) (اور نماز قائم کرو سورج کے زوال کے وقت سے لے کر رات کے تاریک ہونے تک اور صبح کے وقت کا قرآن پڑھنا)۔ اسی چیز کو دوسرے مقامات میں نمازوں کی نگرانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ "حافظوا علی الصلوات" (بقرہ : 238) پانچویں چیز نماز پر قائم رہنا ہے جیسا کہ فرمایا ہے "ھم علی صلاتھم دائمون" (معارج :23) (وہ اپنی نمازوں پر برابر قائم رہتے ہیں)۔ چھٹی چیز جمعہ و جماعت کا قیام و اہتمام ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جب امت یا امام کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے تب تو واضح طور پر جمعہ و جماعت کا قیام و اہتمام ہی مد نظر ہوتا ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہو۔ "الذین ان مکناھم فی الارض اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر" (حج :41) (اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے)۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا جس میں انہوں نے اپنی ذریت کا مشن بتایا ہے، ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے "ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوۃ (ابراہیم :38) (اے ہمارے رب میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو اس بن کھیتی کی زمین میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے، اے ہمارے رب، تاکہ یہ نماز قائم کریں)۔ 


لفظ صلوۃ کی حقیقت :۔"صلوۃ" کا لفظ اصل لغت میں کسی شے کی طرف متوجہ ہونے کے لیے آیا ہے۔ پھر یہیں سے یہ لفظ رکوع کے معنی میں اور پھر تعظیم و تضرع اور دعا کے معنوں میں استعمال ہوا۔ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ لفظ عبات کے معنی میں بہت قدیم ہے۔ کلدانی میں دعا اور تضرع کے معنی میں اور عبرانی میں رکوع اور نماز کے معنی میں یہ استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ ایک اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے جس کی وضاحت قرآن نے بھی کر دی ہے اور سنت نے بھی اس کی پوری وضاحت کی ہے۔ علاوہ ازیں امت کے قولی و عملی تواتر نے اس کی شکل و ہیئت اور اس کے اوقات بالکل محفوظ رکھے ہیں۔ اگر اس کے کسی جزو میں کوئی اختلاف ہے تو وہ محض فروع قسم کا ہے جس سے اصل حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔


"ایمان" اور "ایقان" کے درمیان فرق


"والذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاخرۃ ھم یوقنون"

"وبا لاخرۃ ھم یوقنون" آخرت سے مراد دار آخرت یا حیاتِ آخرت ہے۔ آخرت کے لیے یہاں ایمان کے بجائے ایقان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ایمان اور ایقان کے درمیان تھوڑا سا فرق ہے جس کو سمجھ لینا چاہیے۔ ایمان کے معنی تصدیق کرنے اور مان لینے کے ہیں۔ اس کا ضد کفر و انکار اور تکذیب ہے۔ ایقان کے معنی یقین کرنے کے ہیں۔ اس کا ضد گمان اور شک ہے۔ جس طرح کسی شے پر یقین رکھنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی اس پر ایمان بھی رکھتا ہو (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو نشانیاں دکھائیں فرعون کو پورا یقین تھا کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں لیکن اس یقین کے باوجود وہ ان پر ایمان نہیں لایا)، اسی طرح کسی چیز پر ایمان رکھنے کے لیے اس پر یقین کرنا شرط نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آدمی کا ایمان محض گمان غالب پر مبنی ہو اور وہ آہستہ آہستہ گمان کی منزل سے نکل کر یقین کی منزل تک پہنچے اور اس طرح اس کے ایمان کی تکمیل ہوجائے۔ یہاں ایقان کا ذکر ایمان اور ایمان کے چند معروف عملی مظاہر کے بعد ہوا ہے جس سے اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ اوصاف کے حامل ہیں در حقیقت وہی لوگ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔


اولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون

"علی ھدی"۔ ھدی کے مختلف معانی اوپر بیان ہوچکے ہیں۔ یہاں مذکورہ معانی میں سے نور و بصیرت کے معنی بھی لیے جا سکتے ہیں اور صراط مستقیم کے معنی بھی لیے جا سکتے ہیں۔ ان دونوں معنوں میں سے جو معنی بھی لے لیا جائے آیت کی تاویل ٹھیک بن جاتی ہے اور لغت اور استعمالات قرآن سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔
"المفلحون"۔ اس لفظ کی اصلی روح انشراح اور انکشاف ہے اور اس سے مراد وہ فائز المرامی اور کامیابی ہوتی ہے جو اگرچہ حاصل تو ہو ایک صبر آزما اور جاں گسل جدو جہد کے بعد لیکن جب حاصل ہو تو محنت کرنے والے نہال ہوجائیں اور ان کی توقعات کے سارے پیمانے اس کے ناپنے سے قاصر رہ جائیں۔ 

(تدبرقرآن جلد اول ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ )