خلافت انسانی اور فساد فی الارض کا مفہوم:

خلافت انسانی اور فساد فی الارض کا مفہوم : 

خلیفہ کے لفظی معنی ہیں کسی کے بعد اس کی جگہ لینے والا، جانشین، وراثتی اقتدار کے زمانہ میں یہ لفظ کثرت سے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوا جو ایک کے بعد دوسرے کی جگہ تخت پر بیتھتے تھے۔ اس طرح استعمالی مفہوم کے لحاظ سے خلیفہ کا لفظ صاحب اقتدار کے ہم معنی ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ وہ ایک با اختیار مخلوق کی حیثیت سے زمین پر آباد ہوگا۔ فرشتوں کو اندیشہ ہوا کہ اختیار و اقتدار پا کر انسان بگڑ نہ جائے اور زمین میں خوں ریزی کرنے لگے۔ فرشتوں کا یہ اندیشہ غلط نہ تھا۔ اللہ کو بھی اس امکان کا پورا علم تھا۔ مگر اللہ کی نظر اس بات پر تھی کہ انسانوں میں اگر بہت سے لوگ آزادی پا کر بگڑیں گے تو ایک قابل لحاظ تعداد ان لوگوں کی بھی ہوگی جو آزادی اور اختیار کے باوجود اپنی حیثیت کو اور اپنے رب کے مقام کو پہچانیں گے اور کسی دباؤ کے بغیر خود اپنے ارادہ سے تسلیم و اطاعت کا طریقہ اختیار کریں گے۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اگرچہ نسبتاً کم تعداد میں ہوں گے مگر وہ فصل کے دانوں کی طرح قیمتی ہوں گے۔ فصل میں لکڑی اور بھس کی مقدار ہمیشہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مگر دانے، کم ہونے کے باوجود، اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ ان کی خاطر لکڑی اور بھس کے ڈھیر کو بھی اگنے اور پھیلنے کا موقع دے دیا جاتا ہے ۔
اللہ نے اپنی قدرت سے آدم کی تمام ذریت کو بیک وقت ان کے سامنے کردیا۔ پھر فرشتوں سے کہا کہ دیکھو یہ ہے اولاد آدم۔ اب بتاؤ کہ ان میں کون کون اور کیسے کیسے لوگ ہیں۔ فرشتے عدم واقفیت کی وجہ سے بتا نہ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ان کے ناموں، بالفاظ دیگر شخصیتوں سے آگاہ کیا اور پھر کہا کہ فرشتوں کے سامنے ان کا تعارف کراؤ۔ جب آدم نے تعارف کرایا تو فرشتوں کو معلوم ہوا کہ آدم کی اولاد میں، فسادیوں اور برے لوگوں کے علاوہ کیسے کیسے صلحاء و متقین ہوں گے۔ انسان کا سب سے بڑا جرم، انکار رب کے بعد، زمین میں فساد کرنا اور خون بہانا ہے۔ کسی فرد یا گروہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایسی کارروائیاں کرے جس کے نتیجہ میں زمین پر خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام بگڑ جائے، انسان انسان کی جان مارنے لگے۔ ایسا ہر فعل آدمی کو خدا کی رحمتوں سے محروم کردیتا ہے۔ زمین میں خد اکے بنائے ہوئے فطری نظام کا قائم رہنا اس کی اصلاح ہے اور زمین فطری نظام کو بگاڑنا اس کا فساد ۔


حوالہ : (تفسیر تذکیر القرآن :  تفسیر سورہ بقرہ : آیات 30۔۔ ۔33:  مولانا وحید الدین خان)