قیامت کا منظر سورة الْاِنْفِطَار کی روشنی میں

قیامت کا منظر سورة الْاِنْفِطَار کی روشنی میں 

سید ابوالاعلی مودودی ؒ 


نام :
پہلی ہی آیت کے لفظ انفَطَرَت سے ماخوذ ہے۔ انفطار مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں آسمان کے پھٹ جانے کا ذکر آیا ہے۔

زمانۂ نزول :
اس کا اور سورۃ تکویر کا مضمون ایک دوسرے سے نہایت مشابہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سورتیں قریب قریب ایک ہی زمانے میں نازل ہوئی ہیں ۔

موضوع اور مضمون :
اس کا موضوع آخرت ہے۔ مسند احمد، ترمذی، ابن المنذر، طبرانی، حاکم اور ابن مردویہ کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بیان کیا :
” جو شخص چاہتا ہے کہ روز قیامت کو اس طرح دیکھے لے جیسے آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے تو سورۃ تکویر اور سورۃ انفطار، اور سورۃ انشقاق کو پڑھ لے“
اس میں سب سے پہلے روز قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آ جائے گا تو ہر شخص کے سامنے اس کا کیا دھرا سب آ جائے گا۔ اس کے بعد انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ جس رب نے تجھ کو وجود بخشا اور جس کے فضل و کرم سے آج تو سب مخلوقات سے بہتر جسم اور اعضاء لیے پھرتا ہے، اس کے بارے میں یہ دھوکا تجھے کہاں سے لگ گیا کہ وہ صرف کرم ہی کرنے والا ہے، انصاف کرنے والا نہیں ہے؟ اس کے کرم کے معنی یہ تو نہیں ہیں کہ تو اس کے انصاف سے بےخوف ہوجائے۔ پھر انسان کو خبردار کیا گیا ہے کہ تو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے، تیرا پورا نامۂ اعمال تیار کیا جا رہا ہے۔ اور نہایت معتبر کاتب ہر وقت تیری تمام حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہے ہیں۔ آخر میں پورے زور کے ساتھ کہا گیا ہے کہ یقیناً روز جزا برپا ہونے والا ہے جس میں نیک لوگوں کو جنت کا عیش اور بد لوگوں کو جہنم کا عذاب نصیب ہوگا۔ اس روز کوئی کسی کے کام نہ آ سکے گا، فیصلے کے اختیارات بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہوں گے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِذَا السَّمَآءُ انۡفَطَرَتۡ ۙ﴿۱﴾ وَ اِذَا الۡکَوَاکِبُ انۡتَثَرَتۡ ۙ﴿۲﴾ وَ اِذَا الۡبِحَارُ فُجِّرَتۡ ﴿ۙ۳﴾ وَ اِذَا الۡقُبُوۡرُ بُعۡثِرَتۡ ۙ﴿۴﴾ عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ وَ اَخَّرَتۡ ؕ﴿۵﴾ یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ ۙ﴿۶﴾ الَّذِیۡ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ فَعَدَلَکَ ۙ﴿۷﴾ فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ ؕ﴿۸﴾ کَلَّا بَلۡ تُکَذِّبُوۡنَ بِالدِّیۡنِ ۙ﴿۹﴾ وَ اِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾ کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾ اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِیۡ نَعِیۡمٍ ﴿ۚ۱۳﴾ وَ اِنَّ الۡفُجَّارَ لَفِیۡ جَحِیۡمٍ ﴿ۚۖ۱۴﴾ یَّصۡلَوۡنَہَا یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿۱۵﴾ وَ مَا ہُمۡ عَنۡہَا بِغَآئِبِیۡنَ ﴿ؕ۱۶﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا یَوۡمُ الدِّیۡنِ ﴿ۙ۱۷﴾ ثُمَّ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا یَوۡمُ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۱۸﴾ یَوۡمَ لَا تَمۡلِکُ نَفۡسٌ لِّنَفۡسٍ شَیۡئًا ؕ وَ الۡاَمۡرُ یَوۡمَئِذٍ لِّلّٰہِ ﴿٪۱۹﴾

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
جب آسمان پھٹ جائے گا، اور جب تارے بکھر جائیں گے، اور جب سمندر پھاڑ دیے جائیں گے1، اور جب قبریں کھول دی جائیں2گی، اُس وقت ہر شخص کو اُس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہو جائے3 گا۔

اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے اُس ربّ ِ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسِب بنایا، اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا4؟ ہر گز نہیں5، بلکہ ﴿اصل بات یہ ہے کہ ﴾ تم لوگ جزا و سزا کو جھُٹلاتے6 ہو، حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں، ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں7۔
یقیناً نیک لوگ مزے میں ہوں گے اور بے شک بدکار لوگ جہنّم میں جائیں گے ۔ جزا کے دن وہ اس میں داخل ہوں گے اور اُس سے ہر گز غائب نہ ہو سکیں گے۔ اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟ ہاں، تمہیں کیا خبر کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟ یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا8، فیصلہ اُس دن بالکل اللہ کے اختیار میں ہو گا۔ ؏١




سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :1
  سورۃ   تکویر میں فرمایا گیا ہے کہ سمندروں میں آگ بھڑکا دی جائے گی، اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ سمندروں کو پھاڑ دیا جاۓ گا۔ دونوں آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے اور یہ بات بھی نگاہ میں رکھی جائے کہ قرآن کی رو سے قیامت کے روز ایک ایسا زبردست زلزلہ آئے گا جو کسی علاقے تک محدود نہ ہوگا بلکہ پوری زمین بیک وقت ہلا ماری جائے گی، تو سمندروں کے پھٹنے اور ان میں آگ بھڑک اٹھنے کی کیفیت ہماری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ پہلے اس عظیم زلزلے کی وجہ سے سمندروں کی تہ پھٹ جائے گی اور ان کا پانی زمین کے اس اندرونی حصے میں اترنے لگے لگا جہاں ہر وقت ایک بےانتہا گرم لاوا کھولتا رہتا ہے۔ پھر اس لاوے تک پہنچ کر پانی اپنے ان دو ابتدائی اجزاء کی شکل میں تحلیل ہوجائے گا جن میں سے ایک، یعنی آکسیجن جلانے والی، اور دوسری ہائیڈروجن بھڑک اٹھنے والی ہے، اور یوں تحلیل اور آتش افروزی کا ایک ایسا مسلسل ردعمل (Chain reaction) شروع ہوجائے گا جس سے دنیا کے تمام سمندروں میں آگ لگ جائے گی۔ یہ ہمارا قیاس ہے، باقی صحیح علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔

سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :2
پہلی تین آیتوں میں قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر ہے اور اس آیت میں دوسرا مرحلہ بیان کیا گیا ہے۔ قبروں کے کھولے جانے سے مراد لوگوں کا از سر نو زندہ کر کے اٹھایا جانا ہے۔

سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :3
اصل الفاظ ہیں " ما قدمت و اخرت۔ ان الفاظ کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی یہاں مراد ہے :
(1) جو اچھا یا برا عمل آدمی نے کر کے آگے بھیج دیا وہ ما قدمت ہے اور جس کے کرنے سے وہ باز رہا وہ ما اخرت۔ اس لحاظ سے یہ الفاظ تقریباً انگریزی زبان کے الفاظ Commission اور Omission کے ہم معنی ہیں ۔
(2) جو کچھ پہلے کیا وہ ما قدمت ہے اور جو کچھ بعد میں کیا وہ ما اخرت، یعنی آدمی کا پورا نامہ اعمال ترتیب وار اور تاریخ وار اس کے سامنے آ جائے گا۔
(3) جو اچھے اور برے اعمال آدمی نے اپنی زندگی میں کیے وہ ما قدمت ہیں اور ان اعمال کے جو آثار و نتائج وہ انسانی معاشرے میں اپنے پیچھے چھوڑ گیا وہ ما اخرت۔

سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :4
یعنی اول تو اس محسن پروردگار کے احسان و کرم کا تقاضا یہ تھا کہ تو شکر گزار اور احسان مند ہو کر اس کا فرمانبردار بنتا اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے تجھے شرم آتی، مگر اس دھوکے میں پڑگیا کہ تو جو کچھ بھی نا ہے خود ہی بن گیا ہے اور یہ خیال تجھے کبھی نہ آیا کہ اس وجود کے بخشنے والے کا احسان مانے۔ دوسرے، تیرے رب کا یہ کرم ہے کہ دنیا میں جو کچھ تو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ جونہی تجھ سے کوئی خطا سر زد ہو وہ تجھ پر فالج گرا دے یا تیری آنکھیں اندھی کر دے، یا تجھ پر بجلی گرا دے۔ لیکن تو نے اس کریمی کو کمزوری سمجھ لیا اور اس دھوکے میں پڑگیا کہ تیرے خدا کی خدائی میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :5
یعنی کوئی معقول وجہ اس دھوکے میں پڑنے کی نہیں ہے۔ تیرا وجود خود بتا رہا ہے کہ تو خود نہیں بن گیا ہے تیرے ماں باپ نے بھی تجھے نہیں بنایا ہے، عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے بھی اتفاقاً تو انسان بن کر پیدا نہیں ہوگیا ہے، بلکہ ایک خدائے حکیم و توانا نے تجھے اس مکمل انسانی شکل میں ترکیب دیا ہے۔ تیرے سامنے ہر قسم کے جانور موجود ہیں جن کے مقابلے میں تیری بہترین ساخت اور تیری افضل و اشرف قوتیں صاف نمایاں ہیں۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو دیکھ کر تیرا سر بار احسان سے جھک جاتا اور اس رب کریم کے مقابلے میں تو کبھی نافرمانی کی جرات نہ کرتا۔ تو یہ بھی جانتا ہے کہ تیرا رب صرف رحیم و کریم ہی نہیں ہے، جبار و قہار بھی ہے۔ جب اس کی طرف سے کوئی زلزلہ یا طوفان یا سیلاب آ جاتا ہے تو تیری ساری تدبیریں اس کے مقابلہ میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا رب جاہل و نادان نہیں بلکہ حکیم و دانا ہے، اور حکمت و دانائی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جسے عقل دی جائے اسے اس کے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھہریا جائے۔ جسے اختیارات دیے جائیں اس سے حساب بھی لیا جائے کہ اس نے اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کیا، اور جسے اپنی ذمہ داری پر نیکی اور بدی کرنے کی طاقت دی جائے اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا بھی دی جائے۔ یہ سب حقیقتیں تیرے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں اس لیے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنے رب کریم کی طرف سے جس دھوکے میں تو پڑگیا ہے اس کی کوئی معقول وجہ موجود ہے۔ تو خود جب کسی کا افسر ہوتا ہے تو اپنے اس ماتحت کو کمینہ سمجھتا ہے جو تیری شرافت اور نرم دلی کو کمزوری سمجھ کر تیرے سر چڑھ جائے اس لیے تیری اپنی فطرت یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ مالک کا کرم ہرگز اس کا موجب نہ ہونا چاہیے کہ بندہ اس کے مقابلے میں جری ہوجائے اور اس غلط فہمی میں پڑجائے کہ میں جو کچھ چاہوں کروں، میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

 سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :6
یعنی دراصل جس چیز نے تم لوگوں کو دھوکے میں ڈالا ہے وہ کوئی معقول دلیل نہیں ہے بلکہ محض تمہارا یہ احمقانہ خیال ہے کہ دنیا کے اس دارالعمل کے پیچھے کوئی دارالجز نہیں ہے۔ اسی غلط اور بےبنیاد گمان نے تمہیں خدا سے غافل، اس کے انصاف سے بےخوف، اور اپنے اخلاقی رویے میں غیر ذمہ دار بنا دیا ہے۔

سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :7
یعنی تم لوگ چاہے دارالجزاء کا انکار کرو یا اس کو جھٹلاؤ یا اس کا مذاق اڑاؤ، اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں دنیا میں شتر بےمہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اس نے تم میں سے ایک ایک آدمی پر نہایت راستباز نگران مقرر کر رکھے ہیں جو بالکل بےلاگ طریقے سے تمہارے تمام اچھے اور برے اعمال کو ریکارڈ کر رہے ہیں، اور ان سے تمہارا کوئی کام چھپا ہوا نہیں ہے، خواہ تم اندھیرے میں، خلوتوں میں، سنسان جنگلوں میں، یا اور کسی ایسی حالت میں اس کا ارتکاب کرو جہاں تمہیں پورا اطمینان ہو کہ جو کچھ تم نے کیا ہے وہ نگاہ خلق سے مخفی رہ گیا ہے۔ ان نگراں فرشتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے کراماً کاتبین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں، یعنی ایسے کاتب جو کریم (نہایت بزرگ اور معزز ) ہیں۔ کسی سے نہ ذاتی محبت رکھتے ہیں نہ عداوت کہ ایک کی بےجا رعایت اور دوسرے کی ناروا مخالفت کر کے خلاف واقعہ ریکارڈ تیار کریں۔ خائن بھی نہیں ہیں کہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوئے بغیر بطور خود غلط سلط اندراجات کرلیں۔ رشوت خوار بھی نہیں ہیں کہ کچھ لے دے کر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف جھوٹی رپورٹیں کر دیں۔ ان کا مقام ان ساری اخلاقی کمزوریوں سے بلند ہے، اس لیے نیک و بد دونوں قسم کے انسانوں کو مطمئن رہنا چاہیے کہ ہر ایک کی نیکی بےکم و کاست ریکارڈ ہوگی، اور کسی کے ذمہ کوئی ایسی بدی نہ ڈال دی جائے گی جو اس نے نہ کی ہو۔ پھر ان فرشتوں کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ " جو کچھ تم کرتے ہو اسے وہ جانتے ہیں "، یعنی ان کا حال دنیا کی سی آئی ڈی اور اطلاعات (Intelligence) کی ایجنسیوں جیسا نہیں ہے کہ ساری تگ و دو کے باوجود بہت سی باتیں ان سے چھپی رہ جاتی ہیں۔ وہ ہر ایک کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہیں، ہر جگہ ہر حال میں ہر شخص کے ساتھ اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ اسے یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کی نگرانی کر رہا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس شخص نے کس نیت سے کوئی کام کیا ہے۔ اس لیے ان کا مرتب کردہ ریکارڈ ایک مکمل ریکارڈ ہے جس میں درج ہونے سے کوئی بات رہ نہیں گئی ہے۔ اسی کے متعلق سورۃ کہف آیت 49 میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے روز مجرمین یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا جو نامہ اعمال پیش کیا جا رہا ہے اس میں کوئی چھوٹی یا بڑی بات درج ہونے سے نہیں رہ گئی ہے، جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب جو کا توں ان کے سامنے حاضر ہے۔

سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :8
یعنی کسی کی وہاں یہ طاقت نہ ہوگی کہ وہ کسی شخص کو اس کے اعمال کے نتائج بھگتنے سے بچا سکے۔ کوئی وہاں ایسا با اثر یا زور آور یا اللہ کا چہیتا نہ ہوگا کہ عدالت خداوندی میں اڑ کر بیٹھ جائے اور یہ کہہ سکے کہ فلاں شخص میرا عزیز یا متوسل ہے، اسے تو بخشنا ہی ہوگا، خواہ یہ دنیا میں کیسے ہی برے افعال کر کے آیا ہو ۔


(تفہیم القرآن  از مولانا مودودی ؒ )