قیامت کا منظرسورة الْاِنْشِقَاق کی روشنی میں

قیامت کا منظرسورة الْاِنْشِقَاق کی روشنی  میں 

سید ابوالاعلی مودودی ؒ 
نام :
پہلی ہی آیت کے لفظ انشقت سے ماخوذ ہے۔ انشقاق مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں اور اس نام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں آسمان کے پھٹنے کا ذکر آیا ہے۔
زمانۂ نزول :
یہ بھی مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔ اس کے مضمون کی داخلی شہادت یہ بتا رہی ہے کہ ابھی ظلم و ستم کا دور شروع نہیں ہوا تھا، البتہ قرآن کی دعوت کو مکہ میں برملا جھٹلایا جا رہا تھا اور لوگ یہ ماننے سے انکار کر رہے تھے کہ کبھی قیامت برپا ہوگی اور انہیں اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا پڑے گا۔
موضوع اور مضمون :
اس کا موضوع قیامت اور آخرت ہے۔
پہلی پانچ آیتوں میں نہ صرف قیامت کی کیفیت بیان کی گئی ہے بلکہ اس کے برحق ہونے کی دلیل بھی دے دی گئی ہے۔ اس کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ اس روز آسمان پھٹ جائے گا، زمین پھیلا کر ہموار میدان بنا دی جائے گی، جو کچھ زمین کے پیٹ میں ہے (یعنی مردہ انسانوں کے اجزائے بدن اور ان کے اعمال کی شہادتیں) سب کو نکال کر وہ باہر پھینک دے گی، حتیٰ کہ اس کے اندر کچھ باقی نہ رہے گا اور اس کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ آسمان و زمین کے لیے ان کے رب کا حکم یہی ہوگا اور چونکہ دونوں اس کی مخلوق ہیں اس لیے وہ اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتے، ان کے لیے حق یہی ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کریں ۔
اس کے بعد آیت 6 سے 19 تک بتایا گیا ہے کہ انسان کو خواہ اس کا شعور ہو یا نہ ہو، بہرحال وہ اس منزل کی طرف چار و ناچار چلا جا رہا ہے جہاں اسے اپنے رب کے آگے پیش ہونا ہے۔ پھر سب انسان دو حصوں میں بٹ جائیں گے۔ ایک، وہ جن کا نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کسی سخت حساب فہمی کے بغیر معاف کر دیے جائیں گے۔ دوسرے وہ جن کا نامۂ اعمال پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ وہ چاہیں گے کہ کسی طرح انہیں موت آ جائے، مگر مرنے کے بجائے وہ جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔ ان کا یہ انجام اس لیے ہوگا کہ وہ دنیا میں اس غلط فہمی پر مگن رہے کہ کبھی خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا نہیں ہے۔ حالانکہ ان کا رب ان کے سارے اعمال کو دیکھ رہا تھا اور کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان اعمال کی بازپرس سے چھوٹ جائیں۔ ان کا دنیا کی زندگی سے آخرت کی جزا و سزا تک درجہ بدرجہ پہنچنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا سورج ڈوبنے کے بعد شفق کا نمودار ہونا، دن کے بعد رات کا آنا اور اس میں انسان اور حیوانات کا اپنے اپنے بسیروں کی طرف پلٹنا، اور چاند کا ہلال سے بڑھ کر ماہ کامل بننا یقینی ہے۔
آخر میں ان کفار کو دردناک سزا کی خبر دے دی گئی ہے جو قرآن کو سن کر خدا کے آگے جھکنے کے بجائے الٹی تکذیب کرتے ہیں، اور ان لوگوں کو بےحساب اجر کا مژدہ سنا دیا گیا ہے جو ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ ۙ﴿۱﴾ وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ۙ﴿۲﴾ وَ اِذَا الۡاَرۡضُ مُدَّتۡ ۙ﴿۳﴾ وَ اَلۡقَتۡ مَا فِیۡہَا وَ تَخَلَّتۡ ۙ﴿۴﴾ وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ؕ﴿۵﴾ یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۚ﴿۶﴾ فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ﴿۷﴾ فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا ۙ﴿۸﴾ وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ﴿۹﴾ وَ اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَہۡرِہٖ ﴿ۙ۱۰﴾ فَسَوۡفَ یَدۡعُوۡا ثُبُوۡرًا ﴿ۙ۱۱﴾ وَّ یَصۡلٰی سَعِیۡرًا ﴿ؕ۱۲﴾ اِنَّہٗ کَانَ فِیۡۤ اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ﴿ؕ۱۳﴾ اِنَّہٗ ظَنَّ اَنۡ لَّنۡ یَّحُوۡرَ ﴿ۚۛ۱۴﴾ بَلٰۤی ۚۛ اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیۡرًا ﴿ؕ۱۵﴾ فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالشَّفَقِ ﴿ۙ۱۶﴾ وَ الَّیۡلِ وَ مَا وَسَقَ ﴿ۙ۱۷﴾ وَ الۡقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ ﴿ۙ۱۸﴾ لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ ﴿ؕ۱۹﴾ فَمَا لَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾ وَ اِذَا قُرِئَ عَلَیۡہِمُ الۡقُرۡاٰنُ لَا یَسۡجُدُوۡنَ ﴿ؕٛ۲۱﴾ بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُکَذِّبُوۡنَ ﴿۫ۖ۲۲﴾ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُوۡعُوۡنَ ﴿۫ۖ۲۳﴾ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۲۴﴾ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمۡ اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ ﴿٪۲۵﴾

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے ربّ کے فرمان کی تعمیل کرے1 گا اور اُس کے لیے حق یہی ہے ﴿کہ اپنے ربّ کا حکم مانے﴾ ۔ اور جب زمین پھیلا دی جائے2 گی اور جو کچھ اس کے اندر ہے اُسے باہر پھینک کر خالی ہو جائے3 گی اور اپنے ربّ کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اُس کے لیے حق یہی ہے ﴿ کہ اس کی تعمیل کرے4﴾۔ اے انسان، تُو کشاں کشاں اپنے ربّ کی طرف چلا جا5 رہا ہے اور اُس سے ملنے والا ہے۔ پھر جس کا نامہٴ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا، اُس سے ہلکا حساب لیا جائے گا6 اور وہ اپنے لوگو ں کو طرف خوش خوش پلٹے گا7۔ رہا وہ شخص جس کا نامہٴ اعمال اُس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا8 تو وہ موت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جا پڑے گا۔ وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا9۔ اُس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے ۔ پلٹناکیسے نہ تھا، اُس کا ربّ اُس کے کرتُوت دیکھ رہا تھا10۔
پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی ، اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے ، اور چاند کی جب کہ وہ ماہِ کامل ہو جاتا ہے، تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے11۔ پھر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن اِن کے سامنے پڑ ھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے12؟ السجدة
بلکہ یہ منکرین تو اُلٹا جھُٹلاتے ہیں، حالانکہ جو کچھ یہ ﴿ اپنے نامہٴ اعمال میں﴾ جمع کر رہے ہیں اللہ اُسے خوب جانتا ہے13۔ لہٰذا اِن کو دردناک عذاب کی بشارت دے دو۔ البتہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجرہے۔ ؏
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :1
اصل میں اذنت لربھا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کے لفظی معنی ہیں " وہ اپنے رب کا حکم سنے گا "۔ لیکن عربی زبان میں محاورے کے طور پر اذن لہ کے معنی صرف یہی نہیں ہوتے کہ اس نے حکم سنا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے حکم سن کر ایک تابع فرمان کی طرح اس کی تعمیل کی اور ذرا سر تابی نہ کی۔ 

سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :2
زمین کے پھیلا دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ سمندر اور دریا پاٹ دیے جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیے جائیں گے، اور زمین کی ساری اونچ نیچ برابر کر کے اسے ایک ہموار میدان بنا دیا جائے گا۔ سورۃ طہ میں اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ " اسے ایک چٹیل میدان بنا دے گا جس میں تم کوئی بل اور سلوٹ نہ پاؤ گے "۔ (آیات 106۔ 107)۔ حاکم نے مستدرک میں عمدہ سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ کے حوالہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ " قیامت کے روز زمین ایک دستر خوان کی طرح پھیلا دی جائے گی،۔ پھر انسانوں کے لیے اس پر صرف قدم رکھنے کی جگہ ہوگی "۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس دن تمام انسانوں کو جو روز اول آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہوں گے، بیک وقت زندہ کر کے عدالت الہی میں پیش کیا جائے گا۔ اتنی بڑی آبادی کو جمع کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سمندر، دریا، پہاڑ، جنگل، گھاٹیاں اور پست و بلند علاقے سب کے سب ہموار کر کے پورے کرہ زمین کو ایک میدان بنا دیا جائے تاکہ اس پر ساری نوع انسانی کے افراد کھڑے ہونے کی جگہ پا سکیں ۔ 
سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :3
مطلب یہ ہے کہ جتنے مرے ہوئے انسان اس کے اندر پڑے ہوں گے سب کو نکال کر وہ باہر ڈال دے گی، اور اسی طرح ان کے اعمال کی جو شہادتیں اس کے اندر موجود ہوں گی وہ سب بھی پوری کی پوری باہر آ جائیں گی، کوئی چیز بھی اس میں چھپی اور دبی ہوئی نہ رہ جائے گی۔
سُوْرَةُ الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :4
4۔ یہ صراحت نہیں کی گئی کہ جب یہ اور یہ واقعات ہوں گے تو کیا ہو گا، کیونکہ بعد کا یہ مضمون اس کو آپ سے آپ ظاہر کر دیتا ہے کہ اسے انسان تو اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے اس کے سامنے حاضر ہونے والا ہے، تیرا نامہ اعمال تجھے دیا جانے والا ہے، اور جیسا تیرا نامہ اعمال ہو گا اس کے مطابق تجھے جزا یہ سزا ملنے والی ہے۔
سُوْرَةُ الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :5
5۔ یعنی وہ ساری تگ و دو اور دوڑ دھوپ جو تو دنیا میں کر رہا ہے، اس کے متعلق چاہے تو یہی سمجھتا رہے کہ یہ صرف دنیا کی زندگی تک ہے ا ور دنیوی اغراض کے لیے ہے، لیکن در حقیقت تو شعوری یا غیر شعوری طور پر جا رہا ہے اپنے رب کی طرف اور آ خر کار وہیں تجھے پہنچ کر رہنا ہے۔
سُوْرَةُ الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :6
6۔ یعنی اس سے سخت حساب فہمی نہ کی جائے گی ۔ اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ فلاں فلاں کام تو نے کیوں کیے تھے ا ور تیرے پاس ان کاموں کے لیے کیا عذر ہے۔ اس کی بھلائیوں کے ساتھ اس کی برائیاں بھی اس کے نامہ اعمال میں موجود ضرور ہوں گی، مگر بس یہ دیکھ کر کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں سے بھاری ہے، اس کے قصوروں سے در گزر کیا جا ئے گا اور اسے معاف کر دیا جائے گا۔ قرآن مجید میں بد اعمال لوگوں سے سخت حساب فہمی کجے لیے سوء الحساب(بری طرح حساب لینے) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں (الرعد، آیت 18)، اور نیک لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہم ان کے بہتر اعمال قبول کر لیں گے اور ان کی برائیوں سے در گزر کریں گے‘‘۔ (الاحقاف، آیت 16)۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی جو تشریح فرمائی ہے اسے امام احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابوداؤد، حاکم، ابن جریر، عبد بن حمید اور ابن مردودیہ نے مختلف الفاظ میں حضرت عائشہؓ نے نقل کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’جس سے بھی حساب لیا گیا وہ مارا گیا‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ، کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ ’’جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا‘‘؟ حضورؐ نے جواب دیا ’’وہ تو صرف اعمال کی پیشی ہے ، لیکن جس سے پوچھ گچھ کی گئی وہ مارا گیا‘‘۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ا یک مرتبہ حضورؐ کو نماز میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ ’’خدایا مجھ سے ہلکا حساب لے‘‘۔ آپ نے جب سلام پھیرا تو میں نے اس کا مطلب پوچھا ۔ آپ نے فرمایا ’’ ہلکے حساب سے مراد یہ ہے کہ بندے کے نامہ اعمال کو دیکھا جائے اور اس سے در گزر کیا جائے گا، اے عائشہ، اس روز جس سے حساب فہمی کی گئی وہ مارا گیا‘‘۔
سُوْرَةُ الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :7
7۔ اپنے لوگوں سے مراد آدمی کے وہ اہل و عیال ، رشتہ دار و ساتھی ہیں جو اسی کی طرح معاف کیے گئے ہوں گے۔
سُوْرَةُ الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :8
8۔ سورۃ الحاقۃ میں فرمایا گیا ہے کہ جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ غالباً اس کی صورت یہ ہو گی کہ وہ شخص اس بات سے تو پہلے ہی مایوس ہو گا کہ اسے دا ئیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا، کیونکہ اپنے کرتوتوں سے وہ خوب واقف ہو گا اور اسے یقین ہو گا کہ مجھے نامہ ا عمال بائیں ہاتھ میں ملنے والا ہے۔ البتہ ساری خلقت کے سامنے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال لیتے ہوئے اسے خفت محسوس ہو گی، اس لیے وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر لے گا۔ مگر اس تدبیر سے یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہ اپنا کچا چٹھا اپنے ہاتھ میں لینے سے بچ جائے۔ وہ تو بہرحال اسے پکڑایا ہی جائے گا خواہ وہ ہاتھ آگے بڑھا کر لے یا پیٹھ کے پیچھے چھپا لے۔
سُوْرَةُ الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :9
9۔ یعنی اس کا حال خدا کے صالح بندوں سے مختلف تھا جن کے متعلق سورہ طور (آیت 26) میں فرمایا گیا ہے کہ اپنے گھر والوں میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے یعنی ہر وقت انہیں یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں بال بچوں کی محبت میں گرفتار ہو کر ہم ان کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت برباد نہ کرلیں۔ اس کے برعکس اس شخص کا حال یہ تھا کہ اپنے گھر میں وہ چین کی بنسری بجا رہا تھا اور خوب بال بچوں کو عیش کرا رہا تھا، خواہ وہ کتنی ہی حرام خوریاں کر کے اور کتنے ہی لوگوں کے حق مار کر یہ سامانِ عیش فراہم کرے، اور اس لطف و لذت کے لیے خدا کی باندھی ہوئی حدوں کو کتنا ہی پامال کرتا رہے۔
سُوْرَةُ الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :10
10۔ یعنی یہ خدا کے انصاف اور اس کی حکمت کے خلاف تھا کہ جو کرتوت وہ کر رہا تھا ان کو وہ نظر انداز کر دیتا اور ا سے اپنے سامنے بلا کر کوئی باز پرس اس سے نہ کرتا۔
سُوْرَةُ الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :11
11۔ یعنی تمہیں ایک حالت پر نہیں رہنا ہے بلکہ جوانی سے بڑھاپے ، بڑھاپے سے موت، موت سے برزخ ، برزخ سے دوبارہ زندگی ، دوبارہ زندگی سے میدان حشر، پھر حساب و کتاب اور پھر جزا و سزا کی بے شمار منزلوں سے لازما تم کو گزرنا ہو گا۔ اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ سورج ڈوبنے کے بعد شفق کی سرخی، دن کے بعد رات کی تاریکی اور اس میں ان بہت سے انسانوں اور حیوانات کا سمٹ آنا جو دن کے وقت زمین پر پھیلے رہتے ہیں اور چاند کا ہلال سے درجہ بدرجہ بڑھ کر بدر کامل بننا۔ یہ گویا چند وہ چیزیں ہیں جو اس بات کی علانیہ شہادت دے رہی ہیں کہ جس کائنات میں انسان رہتا ہے اس کے اندر کہیں ٹھیراؤ نہیں ہے۔ ایک مسلسل تغیر اور درجہ بدرجہ تبدیلی ہر طرف پائی جاتی ہے، لہذا کفار کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ معاملہ ختم ہو جائے گا۔
سُوْرَةُ الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :12
12۔ یعنی ان کے دل میں خدا کا خوف پیدا نہیں ہو تا اور یہ اس کے آگے نہیں جھکتے۔ اس مقام پر سجدہ کرنا رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ثابت ہے۔ امام مالک، مسلم اور نسائی نے حضرت ابو ہریرہؓ کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے نماز میں یہ سورۃ پڑھ کر اس مقام پر سجدہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ ؓ نے یہاں سجدہ کیا ہے۔ بخاری ، ابوداؤد اور نسائی نے ابو رافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ نے عشاء کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی ہے اور حضورؐ نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے، اس لیے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا۔ مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے اس سورۃ میں اور اقراء باسم ربک الذی خلق میں سجدہ کیا ہے۔

سُوْرَةُ الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :13
13۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے سینوں میں کفر اور عناد اور عداوتِ حق اور برے ارادوں اور فاسد نیتوں کی جو گندگی انہوں نے بھر رکھی ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے۔


 ( حوالہ :  تفہیم القرآن ج 6 سید ابوالاعلی مودودیؒ )