قرآن مجید کا تعارف

قرآن مجید کی کل آیتیں شمار کرلی گئی ہیں اور ان کی میزان بقول اصح (6،616) ہے (اتقان، سیوطی ) ، اسی طرح  قرآن مجید کے کل الفاظ بھی شمار کرلیے گئے ہیں۔ اور ان کی میزان بقول اصح (77،934) ہے (اتقان) اور کل حروف قرآنی بھی شمار کرلیے گئے ہیں اور ان کی میزان بقول اصح(3،23،760 ) ہے (اتقان، سیوطی ) اللہ اللہ کلام الہی کے عاشق وشیدائی کیسی کیسی دیدہ ریزیاں اس کے واسطے کرگئے ہیں !

سورۃ

سورۃ کے لفظی معنی بلندی یا منزل کے ہیں۔ جس طرح دنیا کی دوسری کتابیں مختلف بابوں میں تقسیم ہوتی ہیں، قرآن کے ہر باب کو سورۃ کہتے۔ گویا ہر سورۃ ایک بلند منزل کا نام ہے۔ سورۃ کے دوسرے معنی شہر پناہ کی دیوار کے بھی ہیں ۔سورۃ قرآنی کو سورۃ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ گویا وہ فصیل شہر کی طرح اپنے مضامین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

قرآن مجید کو مختلف سورتوں میں تقسیم وترتیب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود فرماگئے تھے۔ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ارشاد کے مطابق ایک سورۃ شروع کی جاتی تھی اور دوسری ختم۔ کل قرآنی سورتوں کی تعداد 114 ہے ۔


قرآنی سورتوں کی ایک اہم تقسیم بہ لحاظ زمانہ نزول کی گئی ہے۔ جو سورتیں قبل ہجرت نبوی ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ قیام مکہ میں نازل ہوئیں، خواہ ان کا نزول حدود شہر مکہ سے باہر ہی ہوا ہو مکی کہلاتی ہیں۔ اور جو سورتیں بعد ہجرت نبوی، زمانہ قیام مدینہ میں نازل ہوئیں، وہ مدنی کہلاتی ہیں، خواہ ان کا نزول حدود شہر مدینہ سے باہر ہی ہوا ہو۔ لیکن یہ تقسیم صرف عمومی حیثیت سے ہے۔ ورنہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدنی سورت کے اندر مکی آیتیں رکھوا دی ہیں، یا اس کے برعکس۔

 ربط مضمون ومناسبت مقام کا صحیح تر ولطیف تر احساس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر اور کس کو ہوسکتا تھا ؟ اس لئے کسی کو متعین آیت کے باب میں اس کے مکی یا مدنی ہونے کا فیصلہ حزم کے ساتھ کرنا دشوار ہے۔ روایتیں جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں، کوئی درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی نہیں ہیں۔ محض مفید ظن ہیں۔ مفید یقین نہیں۔

 اور اس قسم کے عقلی وقیاسی معیار کی مثلا (آیت) یایھا الذین امنوا سے شروع ہونے والی آیتیں لازمی طور پر مدنی ہوں گی اور (آیت) یایھا الناس سے شروع ہونے والی لازمی طور پر مکی، محض اکثری وتخمینی ہیں۔ کلی اور قطعی نہیں۔ اور محض ان روایات ونظریات کے ماتحت کسی آیت پر جزم ووثوق کے ساتھ کوئی حکم لگا دینا، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآن مجید کسی جدید ترتیب پر اسے ترتیب نزولی کا نام دے کر آمادہ ہوجانا بڑی ہی جسارت کا کام ہے۔ اصل میں یہ بلا مسیحیوں کے ہاں سے آئی ہے کہ انہیں نے اپنے ہاں کے قدیم وجدید دونوں صحیفوں کو اس قسم کی سرتاسر ظنی بلکہ وہمی ’’ تحقیقات‘‘ کا تختہ مشق بنا رکھا ہے ۔


رکوع 



سورۃ کے اندر کی ایک بڑی تقسیم کا نام رکوع ہے۔ بڑی سورتوں میں اکثر رکوع دس دس آیتوں پر رکھے گئے ہیں۔ اور یہ اتنی مقدار ہے جو ایک رکعت میں بہ آسانی پڑھی جا سکتی ہے۔ سورۃ فاتحہ کے علاوہ پارہ 30 کی 34 چھوٹی سورتوں میں بھی کل ایک ہی رکوع ہے۔ اس میں 7 آیاتیں ہیں۔


آیت:


آیت کے لفظی معنی نشان کے ہیں۔ اصطلاح میں سورت کے اندر کی سب سی چھوٹی تقسیم کا نام ہے۔ ہر فقرہ جس میں کوئی حکم ہو یا وہ ایک مستقل عبارت ہو، ایک آیت ہے۔قرآن مجید کی کل آیتیں شمار کرلی گئی ہیں اور ان کی میزان بقول اصح 6 16،6 ہے ۔ قرآن مجید کے کل الفاظ بھی شمار کرلیے گئے ہیں۔ اور ان کی میزان بقول اصح 93424977 ہے ۔ کل حروف قرآنی بھی شمار کرلیے گئے ہیں اور ان کی میزان بقول اصح 760249232493 ہے ۔ 


 تسمیہ :


قرآن مجید کا یہ افتتاحی فقرہ بجز ایک سورت ہے، ہر سورت کی ابتدا میں دہرایا گیا ہے، یعنی13 مرتبہ اور سورۃ النمل کے اندر عبارت میں بہ طور آیت قرآنی بھی آیا ہے۔ اور اس لیے اس کے جزو قرآن ہونے نہ ہونے کی بابت تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ البتہ گفتگو اس میں ہوئی ہے کہ آیا ہر سورت کی ابتدا میں بھی اس کی حیثیت بطور ایک مستقل آیت کے ہے ؟

 امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے کہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ سورتوں کے درمیان محض بطور علامت فرق وتمیز کے اور شروع میں بطور افتتاحی فقرہ کے ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی مسلک سے متفق ہیں۔مفصل بحث جصاص رازی رحمۃ اللہ علیہ حنفی کی احکام القرآن میں موجود ہے۔ ہر جائز کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے کی بڑی فضیلتیں حدیث میں وارد ہوئی ہیں۔

 اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارک یہی تھی کہ کھانا کھاتے، پانی پیتے، وضو کرتے، جانور ذبح کرتے، غرض اس قسم کے سارے کاموں کی ابتدا بسم اللہ ہی سے کرتے۔ اور ہے بھی یہی کہ جو شخص کسی کام کو خدائے رحمن ورحیم کا نام لے کر شروع کرتا ہے، وہ عملا اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ میرا ضمیر پاک ہے، میری نیت مخلصانہ ہے، میرا مقصد اعلی ہے اور میں توحید کا پرستار ہوں۔ ایک طرف شرک سے اور دوسری طرف الحاد سے بیزار۔ 

غرض بسم اللہ سے بڑھ کر قوت بخش اور اس سے زیادہ روح واخلاق کو بلند کرنے والا ذکر کوئی اور نہیں۔ بسم اللہ کی ب نحویوں کی اصطلاح میں باء الا ستعانت کہلاتی ہے، پڑھنے والا گویا یوں کہتا ہے کہ میں شروع کرتاہوں اس کلام کو اللہ کے نام سے مدد چاہتے ہوئے، اور یہ کہہ کر بسم اللہ خواں اپنی اور سب کی طرف سے قطع نظر کرکے تکیہ کرلیتا ہے اللہ کی ذات اور اس کی صفات رحمانیت ورحمیت پر ۔


(یہ بالاختصار  تفسیر ماجدی ( مولانا عبد الماجد دریا بادی )سے ماخوذہے)