آیات محکمات اور متشابہات ہمارے مفسرین کی نظر میں

ارشاد باری تعالی ہے : 

ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ : (سورہ آل عمران : 7)

آیات محکمات اور متشابہات
( وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں : ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات ۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کو شش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلا ف اس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ " ہمارا ان پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں ۔" اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں ۔)


مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں " محکم پکی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔ ”آیات محکمات“ سے مراد وہ آیات ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے، جن کے الفاظ معنی و مدعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں، جنہیں تاویلات کا تختہ مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مل سکتا ہے۔ یہ آیات”کتاب کی اصل بنیاد ہیں“، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے، اس غرض کو یہی آیتیں پورا کرتی ہیں۔ انہی میں اسلام کی طرف دنیا کی دعوت دی گئی ہے، انہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں، انہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہ راست کی توضیح کی گئی ہے۔ انہی میں دین کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ انہی میں عقائد، عبادات، اخلاق، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔ پس جو شخص طالب حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے، اس کی پیاس بجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرةً انہی پر اس کی توجہ مرکوز ہوگی اور وہ زیادہ تر انہی سے فائدہ اٹھانے میں مشغول رہے گا۔

متشابہات، یعنی وہ آیات جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جا سکتا، جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دوسرے بنیادی امور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومت انسان کو نہ دی جائیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماورا ہیں، جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں، نہ آسکتی ہیں، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا، نہ چھوا، نہ چکھا، ان کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو انہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیب بیان مل سکتے ہیں، جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر کھنچ جائے۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اور اسالیب بیان وہ استعمال کیے جائیں، جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں، جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔

لیکن اس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہوسکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دھندلا سا تصور پیدا کردے۔ ایسی آیات کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی، اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا، حتٰی کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ طالب حق ہیں اور ذوق فضول نہیں رکھتے، وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اس دھندلے تصور پر قناعت کرلیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں، مگر جو لوگ بوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں، ان کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث و تنقیب ہوتا ہے۔

یہاں کسی کو یہ شبہہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہوم جانتے ہی نہیں، تو ان پر ایمان کیسے لے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معقول آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین، محکمات کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ متشابہات کی تاویلوں سے۔ اور جب آیات محکمات میں غور و فکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے، تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے۔ جہاں تک ان کا سیدھا سادھا مفہوم اس کی سمجھ میں آجاتا ہے، اس کو وہ لے لیتا ہے اور جہاں پیچیدگی رونما ہوتی ہے، وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لا کر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ (تفہیم القرآن جلد اول ، سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :5، 6، 7، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )

پیر کرم شاہ ازہری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں " بعض علماء نے والراسخون کا عطف (لفظ ) اللہ پر کیا ہے۔ اس قول کے مطابق معنی یہ ہوگا کہ متشابہات کی حقیقی غرض اللہ تعالیٰ اور علمائے راسخین کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن دوسرے علما نے الا اللہ پر وقف کیا ہے اور والراسخون الخ کو مستقل جملہ قرار دیا ہے۔ ان کے قول کے مطابق معنی یہ ہوگا کہ متشابہات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اور علمائے راسخین نہ جاننے کے باوجود ان آیات کی حقانیت اور منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اب یہ شبہ وارد ہوتا ہے۔ کہ کیا قرآن کریم میں ایسی آیات بھی ہیں جن کا مفہوم کسی کو معلوم نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ان کے نازل کرنے کا کیا فائدہ جب ان کو کوئی سمجھ نہیں سکتا اور ان سے ہدایت نہیں حاصل کی جا سکتی۔ مفسرین نے اس شبہ کا یہ جواب دیا ہے کہ جو علماء الا اللہ پر وقف کرتے ہیں وہ متشابہات کا عام معنی مراد نہیں لیتے بلکہ ان کے نزدیک متشابہات سے مراد وہ امور ہیں۔ ’’ ما استاثرہ اللہ تعالی بعلمہ کقیام الساعۃ والحروف المقطعۃ فی اوائل السور‘‘۔ جن کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص کیا ہوا ہے جیسے قیامت کا وقت، سورتوں سے پہلے حروف مقطعات وغیرہ۔

اب یہاں یہ چیز کھٹکتی ہے کہ کیا ان امور کا علم اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی نہیں بتایا۔ تو اس کا نہایت واضح جواب علامہ سید محمد آلوسی بغدادی نے دیا ہے۔ فرماتے ہیں :۔ لعل القائل بکون المتشابہ مما استاثر اللہ بعلمہ لا یمنع تعلیمہ للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بواسطۃ الوحی مثلا ولا القاء ہ فی روع الولی الکامل مفصلا لکن لا یصل الی درجۃ الا حاطۃ۔ کعلم اللہ تعالی۔ ومنع ھذا وذاک مما لا یکاد یقول بہ من یعرف رتبۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ورتبۃ اولیاء امتہ الکاملین وانما المنع من الاحاطۃ ومن معرفتہ علی سبیل النظر والفکر الخ (روح المعانی ) یعنی جن علما کے نزدیک متشابہات سے مراد وہ امور ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مختص فرمایا ہے۔ وہ علما بھی اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان امور کا علم بذریعہ وحی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا، یا اولیائے کاملین کے قلوب میں القا فرمایا ہے۔ کیونکہ جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام رفیع اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے اولیائے کاملین کے مرتبہ کو پہنچانتا ہے وہ اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ نفی علم محیط کی ہے اور اس علم کی جو انسان اپنی عقل وفکر سے حاصل کرتا ہے نہ اس علم کی جو اللہ اپنے نبی کو بذریعہ وحی یا کسی ولی کو بذریعہ الہام عطا فرماتا ہے۔ (تفسیر ضیاء القرآن ، پیر کرم شاہ ازہری سورہ آل عمران آیت 7 کی تفسیر )

مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر" تدبر قرآن" میں لکھتے ہیں " آیات محکمات سے مراد قرآن کی وہ آیات ہیں جو آفاق و انفس کی بالکل بدیہیات، خیر و شر کے مسلمات، اور معروف و منکر کے قطعیات و یقینیات پر مشتمل ہیں۔ جن کو دل قبول کرتے ہیں اور جن کو قبول کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی شرط نہیں ہے کہ دل سلیم ہو۔ جن کے حق میں ہر عقل گواہی دیتی ہے بشرطیکہ اس پر تعصب جذبات اور غیر فطری عقلیات کے پردے پڑے ہوئے نہ ہوں۔ انہی محکمات پر ہر صحیح مذہب کی بنیاد ہوتی ہے اس وجہ سے تمام آسمانی مذاہب اور تمام انبیاء سے یہ تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔ چونکہ فطرت انسانی کے اندر ان کی جڑیں نہایت مستحکم ہوتی ہیں، شبہات و شکوک کی آندھیاں ان کو ہلانے سے قاصر رہتی ہیں اس وجہ سے قرآن نے ان کو محکمات سے تعبیر کیا ہے ۔


’ آیات محکمات کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ ان کی حیثیت ام الکتاب کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بقیہ ساری کتاب کا مرجع و مرکز وہی محکمات ہوتی ہیں، انہی پر ساری بحث کا مدار ہوتا ہے، ساری شاخیں انہی سے پھوٹتی ہیں۔ اگر کوئی نزاع و اختلاف پیدا ہوتا ہے تو اس کا فیصلہ بھی انہی کی کسوٹی پر پرکھ کر ہوتا ہے۔ پھر انہی کا یہ درجہ ہوتا ہے کہ ان کو اصول قرار دے کر ان سے مسائل مستنبط کیے جائیں اور ان مسائل پر اسی طرح اعتماد کیا جائے جس طرح اصولوں پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ 

متشابہات سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں ہمارے مشاہدات و معلومات کے دسترس سے باہر کی باتیں تمثیلی و تشبیہی رنگ میں قرآن نے بتائی ہیں۔ یہ باتیں جس بنیادی حقیقت سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں وہ بجائے خود واضح اور مبرہن ہوتی ہے، عقل اس کے اتنے حصے کو سمجھ سکتی ہے جتنا سمجھنا اس کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ البتہ چونکہ اس کا تعلق ایک نادیدہ عالم سے ہوتا ہے اس وجہ سے قرآن ان کو تمثیل و تشبیہ کے انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ علم کے طالب بقدر استعداد ان سے فائدہ اٹھا لیں اور ان کی اصل صورت و حقیقت کو علمِ الٰہی کے حوالہ کریں۔ یہ باتیں خدا کی صفات و افعال یا آخرت کی نعمتوں اور اس کے آلام سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں۔ ان کا جس حد تک ہمارے لیے سمجھنا ضروری ہے اتنا ہماری سمجھ میں آجاتا ہے اور اس سے ہمارے علم و یقین میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اگر ہم اپنی حد سے آگے بڑھ کر ان کی اصل حقیقت اور صورت کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کریں تو یہ چیز فتنہ بن جاتی ہے اور اس کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے ذہن سے شک کا ایک کانٹا نکالنا چاہتا ہے اور اس کے نتیجے میں بے شمار کانٹے اس کے اندر چبھا لیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نایافتہ کی طلب میں اپنی یافتہ دولت کو بھی ضائع کر بیٹھتا ہے اور نہایت واضح حقائق کی اس لیے تکذیب کردیتا ہے کہ ان کی شکل و صورت ابھی اس کے سامنے نمایاں نہیں ہوئی۔ قرآن نے اسی چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ (یونس :39) بلکہ انہوں نے اس چیز کو جھٹلایا جو ان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور ابھی تک اس کی حقیقت ان کے سامنے ظاہر نہیں ہوئی ہے ۔

متشابہات کی بعض مثالیں : 


ہم یہاں قرآن سے اس قسم کے بعض متشابہات کی مثالیں نقل کرتے ہیں۔ سورۃ مدثر میں قرآن نے دوزخ کے عذاب کی تصویر ان الفاظ میں پیش کی ہے ’’ سَأُصْلِيهِ سَقَرَ (٢٦ ) وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ (٢٧ ) لا تُبْقِي وَلا تَذَرُ (٢٨ ) لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ (٢٩ ) عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ (٣٠)‘‘، میں اس کو دوزخ میں داخل کروں گا اور تمہیں کیا پتہ کہ دوزخ کیا ہے ؟ وہ نہ ذرا ترس کھائے گی اور نہ کسی چیز کو چھوڑے گی، جسموں کو جھلس دینے والی ہوگی۔ اس پر خدا کے انیس سرہنگ مقرر ہوں گے (مدثر :26-30)۔ اس آیت میں جس سزا کا ذکر ہے وہ ایک حقیقت ہے اور قانون مجازات پر جس کا ایمان ہو اس کے لیے اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں، رہی اس کی تفصیل تو اس کا تعلق چونکہ ایک نادیدہ عالم سے ہے اس وجہ سے اس کی اصل صورت کسی طرح ہماری گرفت میں نہیں آسکتی۔ اس طرح کے معاملات میں صحیح روش یہ ہے کہ آدمی اتنے پر قناعت کرے جو سمجھ میں آتا ہے۔ جو سمجھ میں نہیں آتا وہ اس عالم میں سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا، اس وجہ سے اس کے درپے ہونے کے بجائے اس کو خدا کے حوالے کرے۔ سلیم الطبع انسان ایسا ہی کرتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں کئی اور عقلوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے وہ یہ روش اختیار کرنے کے بجائے متشابہات و تمثیلات کی حقیقت معلوم کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں جس سے وہ خود بھی فتنوں میں پڑتے ہیں اور اپنے جیسے دوسرے بہتوں کو بھی فتنوں میں ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ دیکھیے مذکورہ بالا آیت میں تسعۃ عشر کا جو لفظ آیا تو قرآن نے اس کے متعلق شرارت پسندوں کا رد عمل یہ بتایا ہے کہ وہ اسی کے درپے ہوگئے کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ اگر اس سے فرشتے مراد ہیں تو یہ سوال انہوں نے اٹھایا کہ انیس کے عدد کی تخصیص میں کیا رمز ہے ؟ قرآن نے ان کے اس رد عمل پر ان الفاظ میں تبصرہ فرمایا ’’ وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلا مَلائِكَةً وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا وَلا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلا هُوَ وَمَا هِيَ إِلا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ : اور ہم نے دوزخ کی پہرہ داری پر نہیں مقرر کیے ہیں مگر فرشتے، اور ہم نے ان کی تعداد کو نہیں بنایا مگر کافروں کے لیے فتنہ، تاکہ وہ لوگ یقین کریں جن کو کتاب ملی ہے اور ایمان والے اپنے ایمان میں اضافہ کریں اور کتاب پانے والے اور اہل ایمان شک میں نہ پڑیں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو کافر ہیں وہ یہ کہیں کہ اس قسم کی تمثیل سے اللہ تعالیٰ کا کیا مطلب ہے ؟ اسی طرح اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور یہ نہیں ہے مگر انسانوں کے لیے یاد دہانی‘‘ (مدثر :31)۔۔ اسی طرح سورۃ بقرہ میں جنت کی نعمتوں کا تمثیلی رنگ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب اہل جنت کے سامنے جنت کی نعمتیں پیش کی جائیں گی تو وہ خوشی سے پکار اٹھیں گے کہ یہ تو وہی نعمتیں ہیں جن کی ہمیں پہلے قرآن میں سیر کرا دی گئی تھی، قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا : وہ پکاریں گے، یہ تو وہی چیز ہے جو ہمیں اس سے پہلے بخشی گئی اور وہ دیے جائیں گے اس سے ملتی جلتی (بقرہ :25)۔ یعنی جنت کی نعمتوں کا ذکر جو تمثیلات و متشابہات کے رنگ میں قرآن میں ہوا ہے اس سے اہل ایمان کو تو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں بیٹھے ہوئے ایک سیر جنت کی کرلیتے ہیں لیکن انہی تمثیلات و متشابہات سے متعلق فتنہ جویوں اور ضلالت پسندوں کے رویہ کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے ’’إِنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلا الْفَاسِقِينَ : اللہ اس بات سے نہیں جھجھکتا کہ کوئی تمثیل بیان کرے خواہ وہ کسی مچھر کی ہو یا اس سے بھی کسی چھوٹی چیز کی، تو جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ تو جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اور ان کے پروردگار ہی کی جانب سے ہے لیکن جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی تمثیلیں پیش کرنے سے اللہ تعالیٰ نے کیا چاہا ؟ اللہ ان تمثیلوں سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور ان سے بہتوں کو راہ یاب کرتا ہے اور ان سے نہیں گمراہ کرتا مگر انہیں لوگوں کو جو خدا کی نافرمانی کرنے والے ہوں‘‘ (بقرہ :26)۔۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آیات متشابہات سے مراد قرآن کی وہ آیتیں ہیں جن میں یا تو آخرت کی نعمتوں اور نقمتوں میں سے کسی نعمت و نقمت کا بیان تمثیلی و تشبیہی رنگ میں ہوا ہے یا خدا کی صفات و افعال میں سے کوئی بات تمثیلی اسلوب میں پیش ہوئی ہے۔ مثلا آدم میں خدا کا اپنی روح پھونکنا یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بن باپ کے پیدا کرنا وغیرہ۔ اس طرح کی آیات سے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا اہل ایمان کے علم و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے لیکن جن کی طبیعتوں میں فتنہ پسندی ہوتی ہے وہ انہی کے اندر موشگافیاں کر کے بہت سے فتنے پیدا کرلیتے ہیں۔ 

تاویل کا مفہوم : 


تاویل کا لفظ بھی اس آیت میں ذرا ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے یہاں مراد مذکورہا بالا قسم کی کسی بیان کردہ شے کی حقیقت اور اس کی صورت ہے۔ جس مفہوم میں یہ لفظ یہاں استعمال ہوا ہے اسی مفہوم میں سورۃ یوسف میں استعمال ہوا ہے ’’ قَالَ يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ ۡ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّيْ حَقًّا : اس نے کہا اے میرے باپ، یہ ہے میرے اس خواب کی حقیقت جو میں نے اس سے پہلے دیکھا تھا، میرے پروردگار نے اس کو واقعہ ثابت کر دکھایا‘‘ (یوسف :100)۔ 

محکمات و متشابہات کے بارے میں چند تنبیہات : 

یہاں چند باتیں بطور تنبیہ اور بھی قابل ذکر ہیں۔ ان سے اس راہ کی ساری الجھنیں انشاء اللہ دور ہوجائیں گی۔۔ ایک یہ کہ اس آیت میں اسلوبِ کلام حصر کا نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہ نہیں گمان کرنا چاہیے کہ بس قرآن کی آیات دو ہی قسموں، محکمات اور متشابہات، ہی میں تقسیم ہیں۔ یہاں صرف انہی دونوں قسموں کا ذکر متقابل قسموں کی حیثیت سے ہوا ہے اور مقصود ان کے ذکر سے محض فتنہ پسندوں اور ہدایت پسندوں کے اختلافِ ذوق کو نمایاں کرنا ہے کہ جو طبیعتیں فتنہ پسند ہوں ان کی ساری دلچسپی صرف متشابہات سے ہوتی ہے تاکہ ان کے ذوق فتنہ جوئی کے لیے کوئی غذا فراہم ہوسکے۔ برعکس اس کے جو علم و معرفت کے طالب ہوتے ہیں اور جن پر حقیقت پسندی کا رنگ غالب ہوتا ہے ان کی اصلی دلچسپی محکمات سے ہوتی ہے۔ جہاں تک متشابہات کا تعلق ہے ان کا جتنا حصہ ان کی سمجھ میں آتا ہے اس سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، جو حصہ سمجھ میں نہیں آتا اس کی صورت ہیئت معلوم کرنے کے پیچھے نہیں پڑتے بلکہ اس کو خدا کے حوالے کرتے ہیں۔ محکمات کی بدولت چونکہ ان کے قدم علم میں بہت راسخ ہوجاتے ہیں اس وجہ سے اس طرح کی چیزیں ان کو متزلزل نہیں کرتیں۔ قرآن میں ان دو قسموں کے علاوہ بھی آیات ہیں لیکن مقصود یہاں چونکہ آیات قرآنی کی تمام انواع کا احاطہ نہیں ہے اس وجہ سے ان کے ذکر کی ضرورت نہیں تھی۔ مثلاً قصص قرآن، امثال قرآن، تلمیحات و اشارات۔ یہ چیزیں نہ تو ام الکتاب کے درجے اور مرتبے کی ہیں اور نہ ان کو ان متشابہات کے درجے میں رکھنا صحیح ہے جن کی تاویل میں غور و فکر کرنا ممنوع ہو۔۔ دوسری یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کی آیات کا محکم و متشابہ ہونا ہرگز بلحاظ الفاظ نہیں ہے بلکہ صرف بلحاظ معنی ہے۔ قرآن، اپنے الفاظ اور اپنی زبان کے اعتبار سے، تمام تر عربی مبین میں ہے۔ الفاظ کی تاویل میں جو اختلافات ہوئے ہیں وہ بالعموم تین اسباب سے ہوئے ہیں۔ یا تو غور و تحقیق میں کوتاہی ہوئی ہے یا کسی غلط عقیدے کی بے جا عصبیت اس کا باعث ہوئی ہے، یا عربی زبان سے ناواقفیت اس کا سبب بنی ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں اس طرح کے کسی سبب سے کوئی الجھن پیدا ہوئی ہو تو اس پر غور و فکر عربی زبان کے معروف و مسلم قواعد و ضوابط کی روشنی میں ہونا چاہیے، یہ ان چیزوں میں سے نہیں ہے جن پر غور وفکر ممنوع ہو۔۔ تیسری بات یہ ہے کہ متشابہات ہوں یا محکمات، قرآن میں یہ دونوں قسمیں ممیز اور معلوم ہیں۔ یہ بات نہیں ہے، جیسا کہ بعض متکلمین نے گمان کیا ہے کہ یہ دونوں غیر ممیز ہیں اور نہ یہ بات ہے کہ الفاظ کی اپنے معانی پر دلالت کوئی مشتبہ اور مشکوک چیز ہے۔ جن لوگوں نے ایسا سمجھا ہے انہوں نے بالکل غلط سمجاھ ہے۔ ان میں سے پہلی بات تو صریحاً غلط ہے اور دوسری بات نہایت مبہم ہے جو سرے سے قرآن ہی سے مایوس کردینے والی ہے حالانکہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے نور وبرہان بنا کر اتارا ہے، جو باتیں عالم غیب سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کے متعلق خدا نے ہماری ضرورت کے حد تک خبر دے دی ہے، اس کا جو حصہ ہم سے محجوب رکھا گیا ہے بس اس کی تاویل پردہ خفا میں ہے۔۔ چوتھی یہ کہ قرآن نے یہاں محکم اور متشابہ کا ایک خاص مفہوم مراد لیا ہے جو ان کے لغوی مفہوم سے ایک حد تک الگ ہے۔ بعض دوسرے مقامات میں بھی قرآن میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں جہاں ان کے لغوی مفہوم مراد ہیں۔ مثلا محکم سے مراد وہ کلام ہے جو جامع، واضح اور موجز ہو۔ اس صورت میں اس کا مقابل لفظ مفصل آتا ہے۔ مثلاً ’’كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ : یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات پہلے محکم کی گئیں، پھر ان کی تفصیل کی گئی خدائے حکیم و خبیر کی طرف سے‘‘ (ھود :1)۔ سنت الٰہی یہ رہی ہے کہ شروع شروع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیمات و ہدایات قولِ محکم کی شکل میں اتاریں تاکہ وہ ذہن و حافظے میں اچھی طرح راسخ ہوسکیں اور دل و زبان دونوں کے لیے وہ ہلکی پھلکی محسوس ہوں پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے ذریعے سے ان کی تفصیل فرما دی۔ اسی طرح متشابہ کا ایک عام مفہوم بھی ہے وہ یہ کہ ایک دوسری سے ملتی جلتی ہم آہنگ و ہم رنگ چیز اپنے اس مفہوم کے اعتبار سے پورا قرآن مشابہ ہے۔ چنانچہ اسی پہلو سے قرآن کو متشابہ کہا گیا ہے ’’كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ‘‘ (زمر :23)۔۔ پانچویں یہ کہ جس طرح قرآن محکمات و متشابہات دونوں ہی قسم کی آیات پر مشتمل ہے اسی طرح عالم انفس اور عالم آفاق میں جو نشانیاں ہیں وہ بھی محکمات و متشابہات دونوں ہی پر مشتمل ہیں۔ ان کے باب میں بھی ارباب علم اور اہل زیغ کا رویہ وہی ہوتا ہے جو اوپر مذکورہوا جن کے ذہن و فکر میں پختگی ہوتی ہے وہ محکمات سے اطمینان و یقین حاصل کرتے ہیں اور متشابہات سے شبہات وشکوک میں گرفتار ہونے کے بجائے ان کو خدا کے علم و حکمت کے حوالے کرتے ہیں اور اپنے علم کی کوتاہی کا اقرار کرتے ہیں۔ برعکس اس کے جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ ان متشابہات کو اپنی اور دوسروں کی گمراہی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اس مسئلے پر مفصل بحث انشاء اللہ ہم سورۃ کہف کی تفسیر کریں گے۔ غزوہ احد کے واقعہ کو بھی، جیسا کہ ہم تمہیدی بحث میں اشارہ کرچکے ہیں، ایک متشابہ واقعہ کی نوعیت حاصل ہے، چنانچہ اس جنگ کے بعد اس عظیم آیت کا اترنا اس کائنات کی ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھانے کے لیے تھا۔ ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں کہ جس طرح غزوہ بدر حق و باطل کے درمیان ایک یوم فرقان تھا جس سے اہل ایمان کے قلوب اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر مطمئن ہوئے اور اس نے ایک آیت محکم بن کر اہل کفر پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری کردی اسی طرح غزوہ احد کی حیثیت ایک آیت متشابہ کی ہے اس لیے کہ اس میں بظاہر باطل کو حق پر غلبہ حاصل ہوا جس سے کفار کو یہ گمان ہوا کہ جنگ میں کامیابی و ناکامی کا تعلق صرف تدابیر اور اسباب و وسائل ہی سے ہے، اس میں نہ خدا کو کوئی دخل ہے اور نہ اس کا کوئی تعلق حق اور باطل سے ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک شدید قسم کی غلط فہمی تھی، جس کا دور ہونا نہایت ضروری تھا چنانچہ جب اس کے دور کرنے لیے مناسب وقت آگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں یہ دور فرمائی اور یہ اس سلسلے کی ایک عظیم آیت ہے۔ 

زیغ کی حقیقت : اس آیت میں ’ زیغ‘ کا جو لفظ آیا ہے مختصراً اس کی حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے۔ زیغ کے اصل معنی میل یعنی جھکنے اور مائل ہونے کے ہیں۔ یہ لفظ بیک وقت دو مفہوموں کا حامل ہے، ایک کجی، اور دوسرے سقوط، کوئی چیز جو کھڑی ہو جب جھک جاتی ہے تو گرنے سے قریب ہوجاتی ہے۔ یہ حالت اس رسوخ کے برعکس حالت ہے جو اس آیت میں الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ کی بیان ہوئی ہے۔ یہ زیغ یوں تو اہل ضلالت کی عام بیماری ہے لیکن اہل کتاب اس مرض میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ مبتلا رہے ہیں۔ یہود کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ شروع ہی سے اس بیماری میں مبتلا رہے۔ اور ان کے زیغ کا یہ پہلو خاص طور پر نہایت سنگین ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی موجودگی میں اس میں مبتلا رہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے سبب سے خدا کے غضب میں مبتلا ہوئے۔ قرآن میں اس بات کا ذکر ہوا ہے۔ سورۃ صف میں اس کا ذکر اس طرح ہے ’’ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ : اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھے کیوں دکھ پہنچا رہے ہو جب کہ تم اچھی طرح یہ جان چکے ہو کہ میں تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پس جب وہ کج ہوگئے تو خدا نے بھی ان کے دل کج کردیے اور اللہ بد عہدوں کو ہدایت نہیں بخشتا‘‘ (صف :5)۔۔ یہی یہود ہیں جنہوں نے کلمۃ اللہ اور اس قسم کے بعض دوسرے الفاظ کی حقیقت کی تشریح میں فلسفیانہ قسم کی موشگافیاں پیدا کر کے ان کو ایک گورکھ دھندا بنایا جس سے نصاری کے لیے گمراہی کی راہیں کھلیں اور وہ حضرت مسیح کی الوہیت کے عقیدے میں مبتلا ہوئے۔ بعد میں نصاری کی اس گمراہی پر مزید اضافہ بت پرست قوموں کی تقلید سے ہوا اور پھر آہستہ آہستہ وہ حق سے اتنے دور ہوگئے کہ اس سے ان کا رشتہ ہی منقطع ہوگیا اور وہ صریح کفر میں مبتلا ہوگئے۔ چنانچہ قرآن نے ان کے بارے میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ ’’ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ : ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ تو وہی مسیح ابن مریم ہے‘‘ (مائدہ :72)۔ 


یہود و نصاریٰ کی گمراہی میں فرق : یہود اور نصاری کی گمراہی کی نوعیت میں بس یہ فرق ہے کہ یہود کی گمراہی اصلاً عملی ہے اور نصاری کی اعتقادی۔ اس فرق کی وجہ سے حق کی مخالفت میں ان کا رویہ بھی ایک دوسرے سے مختلف رہا۔ یہود تو قرآن کو حق جاننے کے باوجود اس کی مخالفت کرتے تھے۔ نصاری جس طرح تورات اور انجیل کے متشابہات میں پڑنے کی وجہ سے گمراہ ہوئے تھے اسی طرح قرآن میں بھی ان کی ساری دلچسپی بس متشابہات ہی سے تھی۔ انہی میں موشگافیاں کر کے وہ طرح طرح کے فتنے پیدا کرتے اور اس طرح اپنی گمراہی کا بھی سامان کرتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے۔ قرآن کے محکمات سے نہ انہوں نے خود دلچسپی لی اور نہ ان لوگوں کو دلچسپی لینے دی جن پر ان کا بس چلا الغرض قلب و نظر کے زیغ اور متشابہات کی پیروی کے باب میں تھے تو یہود و نصاری دونوں ایک ہی سطح پر، یہ بیماری ان میں مشترک تھی لیکن ان کے ذوقی رجحانات ذرا الگ الگ تھے۔ یہود ابتغاء فتنہ سے زیادہ رغبت رکھتے تھے اور نصاری ابتغائے تاویل سے۔ یہ گمراہیاں چونکہ دنیا کے تمام گمراہوں میں مشترک ہیں اس وجہ سے قرآن نے اسلوب بیان عام ہی رکھا ہے تاکہ کلام میں وسعت پیدا ہوسکے، یہود و نصاریٰ کی تخصیص نہیں کی۔ لیکن قرآن کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اشارہ انہی کی طرف ہے۔ یہی انداز سورۃ فاتحہ میں بھی ہے۔ اس میں بھی مغضوب علیہم اور ضالین کے الفاظ ہر چند عام ہیں اور ان کے عام ہونے کی وجہ سے ان میں بڑی وسعت پیدا ہوگئی ہے لیکن ان کا خاص اشارہ یہود و نصاری کی طرف ہے۔ 

متشابہات سے گمراہی کی ایک مثال : متشابہات کی پیروی کی وجہ سے نصاری جس قسم کی گمراہیوں میں مبتلا ہوئے اس کو ایک مثال سے واضح کرنا مفید رہے گا۔۔ قرآن اور انجیل دونوں اس امر میں باہم متفق ہیں کہ حضرت مسیح کلمۃ اللہ ہیں۔ کلمۃ اللہ کا مفہوم بالک واضح ہے کہ اس سے امر و حکم کی تعبیر کی جاتی ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش چونکہ فطرت کے عام ضابطے کے خلاف ہوئی تھی س وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے کلمہ سے تعبیر کیا یعنی ان کی ولادت اللہ تعالیٰ کے کلمہ ’ کن‘ کہنے سے ہوئی ہے، یہ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ اصل شے کسی چیز کے واقع ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہی ہے۔ اسباب محض ظاہر کا پردہ ہیں۔ یہ بات قرآن میں نہایت وضاحت سے بیان ہوئی ہے اور اس میں کسی قسم کا ایچ پیچ نہیں ہے جس سے کسی صاف ذہن کے آدمی کے اندر کوئی الجھن پیدا ہوسکے۔ قرآن نے نہایت غیر مبہم الفاظ میں فرمایا ہے ’’ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ : بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک ایس ہے جیسی آدم کی، آدم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا کہ ہوجا بس وہ ہوگیا‘‘ (آل عمران : 59)۔ یعنی آدم کو کلمہ کن کے ذریعے سے حی و ناطق بنایا۔ اسی چیز کو دوسری جگہ نفخ روح سے تعبیر فرمایا ہے۔ بعینہ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہے۔ نصاری نے اس واضح بات میں جو تحریف کی اس کی صورت یہ ہوئی کہ جب ان کو بت پرست قوموں سے سابقہ پیش آیا اور ان کے ساتھ ان کی مذہبی بحثیں شروع ہوئیں تو انہوں نے ان پر یہ اعتراض شروع کیا کہ تم تو ایک مصلوب خدا کی پرستش کرتے ہو، ہم تم سے ہزار درجے افضل ہیں اس لیے کہ ہم آسمانی دیوتاؤں کی پر تستش کرتے ہیں۔ نصاری نے اپنے حریفوں کے اس اعتراض سے بچنے کے لیے یہ کوشش کی کہ اپنے عقیدے کو بھی انہی کے عقیدے کے سانچے میں ڈھال دیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے یہ دعوی کیا کہ مسیح تو ابن اللہ ہیں، وہ مخلوق نہیں ہیں۔ اپنے اس نئے عقیدے کی آرائش میں انہوں نے ایک طرف تو یونانیوں، مجوسیوں اور ہندوؤں کے فکر و فلسفہ سے مواد لیا اور دوسرے ان یہودی متکلمین کے علم کلام سے رہنمائی حاصل کی جو یہود کے آخری دور کی پیداوار تھے اور جو نہ صرف خالق اور مخلوق کے درمیان وسائل و وسائط کے قائل تھے بلکہ ان کو مستقل ذوات کا درجہ دیتے اور ان کو کلمۃ اللہ کہتے تھے۔ نصاری نے بعینہ یہی عقیدہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے اختیار کرلیا۔ کچھ عرصے تک تو بات اسی حد تک رہی لیکن آہستہ آہستہ گمراہی سے گمراہی پیدا ہونی شروع ہوئی اور انہوں نے ان کو خدا کا کفو، اسی کے جوہر سے اور ازل سے اس کے ساتھ قرار دے دیا۔ اور پھر اس عقیدے کی تائید کے لیے انجیل یوحنا کے آغاز میں تحریف کے چور دروازے سے بعض عبارتیں بھی داخل کردیں تاکہ باہر سے بر آمد کیے ہوئے اس عقیدے کے لیے گھر کی ایک دلیل بھی فراہم ہوجائے۔ 

وَمَا یعلم الایۃ پر وقف ہے : وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ (اور اس کی اصل حقیقت نہیں جانتا مگر اللہ): اوپر کی تفصیلات سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوگئی کہ یہاں وقف ہے۔ یہی مذہب جمہور اہل سنت کا ہے اور یہی حضرت ابن عباس، حضرت عائشہ، حضرت علی، حضرت حسن، مالک بن انس، کسائی اور فرا سے منقول ہے۔ البتہ شیعہ اور بعض متکلمین یہاں وصل کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک متشابہات کی تاویل اللہ تعالیٰ کے سوا راسخین فی العلم بھی جانتے ہیں۔ اس کی وجہ جہاں تک شیعوں کا تعلق ہے، وہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اماموں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کو ہر بات کا علم ہوتا ہے۔ رہے دوسرے لوگ جو اس بات کے قائل ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تاویل سے مراد معنی لیتے ہیں حالانکہ آیت کا سیاق و سباق اس کے خلاف ہے۔ اوپر اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔ اگرچہ آیت کے الفاظ اور اس کے مختلف اجزا کی اس وضاحت کے بعد آیت کی صحیح تاویل خود بخود سامنے آگئی ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر مزید اطمینان کے لیے ہم اس کا واضح مفہوم بھی پیش کیے دیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہی خدا جو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی، جو زندہ بھی اور قیوم بھی، اسی نے تورات اور انجیل اتاریں، پھر جب ان میں گھپلا کردیا گیا تو اس کی حکمت اور قیومیت مقتضی ہوئی کہ یہ قرآن اتارے تاکہ اس کے ذریعے سے حق و باطل میں امتیاز ہوسکے تو جو لوگ اس کی مزاحمت کریں گے وہ یاد رکھیں کہ خدائے عزیز حق کو مظلوم نہیں چھوڑے گا، وہ اس کا ضرور انتقام لے گا۔ اس کے بعد اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اہل کتاب جو اس فرقان کی مخالفت کر رہے ہیں تو اس کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ فی نفسہ اس کتاب میں کوئی بات ایسی ہے جو ان کی وحشت کا باعث ہو رہی ہے بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ ان کے اپنے دلوں میں کجی ہے۔ اس کجی کے سبب سے ان کو اس کتاب کے محکمات سے، جن کی حیثیت اصل کتاب کی ہے اور جن پر اس کی تمام تعلیمات اور اس کے سارے حکمت و فلسفہ کی بنیاد ہے، کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں اگر دلچسپی ہے تو بس اس کی ان آیات متشابہات سے ہے جن میں کوئی بات تمثیلی و تشبیہی رنگ میں بتائی گئی ہے۔ وہ اپنی طبیعت کے بگاڑ کے سبب سے انہی کے درپے ہوتے ہیں اور فساد انگیزی اور فتنہ آرائی کے لیے ان کی صورت و حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ جس حد تک ان کا علم ضروری ہے وہ خدا نے کھول دیا ہے، بس اتنے پر قناعت کرنی چاہیے، ان کی اصل حقیقت کا معاملہ اللہ کے حوالہ کرنا چاہیے، وہ اس دن کھلیں گی جس دن وہ سامنے آئیں گی، جو لوگ علم میں راسخ ہیں ان کی روش متشابہات کے معاملے میں یہی ہے۔ وہ محکمات اور متشابہات دونوں کو اپنے رب ہی کا عطیہ سمجھتے ہیں اور دونوں پر یکساں ایمان رکھتے ہیں۔ وہ اپنے علم کی پختگی کی وجہ سے اس رمز سے واقف ہیں کہ آیات الٰہی کا مقصود بندوں کو یاد دہانی ہے اور چونکہ وہ عقل رکھتے ہیں اس وجہ سے ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہیے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، کسی سعی نامراد و لا طائل میں اپنا وقت برباد کر کے اپنے خسران کے اسباب نہیں فراہم کرتے، اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ اس کی آیات سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور اس عقل سے صحیح طور پر کام لیتے ہیں۔ 

ان مطالب کا اکثر حصہ استاذ امام رحمہ اللہ کے افادات سے ماخوذ ہے، صرف بعض مطالب کی توضیح میری طرف سے ہے اس وجہ سے اس کی صحیح باتیں مولانا کی طرف منسوب کیجیے اور اگر کہیں خامی ہو تو اس کی ذمہ داری تنہا میرے سر ہے ۔

( تدبر قرآن سورہ آل عمران آیت :7 مولانا امین احسن اصلاحی )