سورہ ابراھیم : زمانہ نزول، مرکزی مضمون اور مدعا - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


نام : آیت ٣٥ کے فقرے وَاِذْ قَالَ اِبْرٰ ھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا لْبَلَدَ اٰ مِنًا، سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سورۃ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سوانح عمری بیان ہوئی ہے، بلکہ یہ بھی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے۔ یعنی وہ سورۃ جس میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر آیا ہے۔ 

زمانہ نزول :


عام انداز بیان مکہ کے آخری دور کی سورتوں کا سا ہے۔ سورۃ رعد سے قریب زمانہ ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے۔ خصُوصًا آیت ١٣ کے الفاظ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْ دُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا (انکار کرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے) کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اہل مکہ پچھلی کافر قوموں کی طرح اپنے ہاں کے اہل ایمان کو خارج البلد کر دینے پر تل گئے تھے۔ اسی بنا پر ان کو وہ دھمکی سنائی گئی جو ان کے سے رویہ پر چلنے والی پچھلی قوموں کو دی گئی تھی کہ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ (ہم ظالموں کو ہلاک کر کے رہیں گے) اور اہل ایمان کو وہی تسلی دی گئی جو ان کے پیش روؤں کو دی جاتی رہی ہے کہ لَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِھِمْ (ہم ان ظالموں کو ختم کرنے کے بعد تم ہی کو اس سر زمین میں آباد کریں گے)۔ 

مرکزی مضمون اور مُدّعا :



جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے اور آپ کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی بدتر سے بدتر چالیں چل رہے تھے ان کی فہمائش اور تنبیہ۔ لیکن فہمائش کی بہ نسبت اس سورۃ میں تنبیہ اور ملامت اور زجر و توبیخ کا انداز زیادہ تیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تفہیم کا حق اس سے پہلے کی سورتوں میں بخوبی ادا کیا جا چکا تھا اور اس کے باوجود کفار قریش کی ہٹ دھرمی، عناد، مزاحمت، شرارت اور ظلم وجود میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا۔

(تفہیم القرآن ، جلد دوم، سید ابوالاعلی مودوی ؒ )