سورة الصّٰٓفّٰت : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام : پہلی ہی آیت کے لفظ والصافات سے ماخوذ ہے۔ 

زمانۂ نزول :


مضامین اور طرز کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورت غالباً مکی دور کے وسط میں، بلکہ شاید اس دور متوسط کے بھی آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہے۔ انداز بیان صاف بتا رہا ہے کہ پس منظر میں مخالفت پوری شدت کے ساتھ برپا ہے اور نبی و اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہایت دل شکن حالات سے سابقہ در پیش ہے۔ 

موضوع و مضمون :


اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت توحید و آخرت کا جواب جس تمسخر اور استہزاء کے ساتھ دیا جا رہا تھا، اور آپ کے دعوائے رسالت کو تسلیم کرنے سے جس شدت کے ساتھ انکار کیا جا رہا تھا، اس پر کفار مکہ کو نہایت پر زور طریقہ سے تنبیہ کی گئی ہے اور آخر میں انہیں صاف صاف خبردار کردیا گیا ہے کہ عنقریب یہی پیغمبر، جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو، تمہارے دیکھتے دیکھتے تم پر غالب آ جائے گا اور تم اللہ کے لشکر کو خود اپنے گھر کے صحن میں اترا ہوا پاؤ گے (آیت نمبر 171 تا 179)۔ یہ نوٹس اس زمانے میں دیا گیا تھا جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے تھے۔ مسلمان (جن کو ان آیات میں اللہ کا لشکر کہا گیا ہے ) بری طرح ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے۔ ان کی تین چوتھائی تعداد ملک چھوڑ کر نکل گئی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بمشکل 40۔ 50 صحابہ مکہ میں رہ گئے تھا اور انتہائی بےبسی کے ساتھ ہر طرح کی زیادتیاں برداشت کر رہے تھے۔ ان حالات میں ظاہر اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص یہ باور نہ کرسکتا تھا کہ غلبہ آخر کار محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی مٹھی بھر بےسر و سامان جماعت کو نصیب ہوگا۔ بلکہ دیکھنے والے تو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ تحریک مکے کی گھاٹیوں ہی میں دفن ہو کر رہ جائے گی۔ لیکن 15۔ 16 سال سے زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک وہی کچھ پیش آگیا جس سے کفار کو خبردار کیا گیا تھا۔ 


تنبیہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں تفہیم اور ترغیب کا حق بھی پورے توازن کے ساتھ ادا فرمایا ہے۔ توحید اور آخرت کے عقیدے کی صحت پر منحصر دل نشین دلائل دیے ہیں، مشرکین کے عقائد پر تنقید کر کے بتایا ہے کہ وہ کیسی لغو باتوں پر ایمان لائے بیٹھے ہیں، ان گمراہیوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ایمان و عمل صالح کے نتائج کس قدر شاندار ہیں۔ پھر اسی سلسلے میں پچھلی تاریخ کی مثالیں دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کے ساتھ اور ان کی قوموں کے ساتھ کیا معاملہ رہا ہے، کس کس طرح اس نے اپنے وفادار بندوں کو نوازا ہے اور کس طرح ان کے جھٹلانے والوں کو سزا دی ہے۔ 


جو تاریخی قصے اس سورۃ میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سب سے زیادہ سبق آموز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کا یہ اہم واقعہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس میں صرف ان کفار قریش ہی کے لیے سبق نہ تھا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اپنے نسبی تعلق پر فخر کرتے پھرتے تھے، بلکہ ان مسلمانوں کے لیے بھی سبق تھا جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے تھے۔ یہ واقعہ سنا کر انہیں بتا دیا گیا کہ اسلام کی حقیقت اور اس کی اصلی روح کیا ہے، اور اسے اپنا دین بنا لینے کے بعد ایک مومن صادق کو کس طرح اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار ہوجانا چاہیے ۔


سورہ کی آخری آیات محض کفار کے لیے تنبیہ ہی نہ تھیں بلکہ ان اہل ایمان کے لیے بشارت بھی تھیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید و حمایت میں انتہائی حوصلہ شکن حالات کا مقابلہ کر رہے تھے۔ انہیں یہ آیات سنا کر خوشخبری دے دی گئی کہ آغاز کار میں جن مصائب سے انہیں سابقہ پیش آ رہا ہے ان پر گھبرائیں نہیں، آخر کار غلبہ ان ہی کو نصیب ہوگا، اور باطل کے وہ علمبردار جو اس وقت غالب نظر آ رہے ہیں، انہی کے ہاتھوں مغلوب و مفتوح ہو کر رہیں گے۔ چند ہی سال بعد واقعات نے بتا دیا کہ یہ محض خالی تسلی نہ تھی بلکہ ایک ہونے والا واقعہ تھا جس کی پیشگی خبر دے کر ان کے دل مضبوط کیے گئے تھے ۔

-----------------------------------------------------
(تفہیم القرآن ، مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ )